ایم کیو ایم کے مرکز90پر رینجرز کا دوسرا چھاپہ‘ رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع کافیصلہ اور سندھ میں وسیع پیمانے پر تبادلے‘ ان افواہوں اور قیاس آرائیوں کی تردید کے مترادف ہیں کہ الطاف بھائی اور آصف علی زرداری کے ''جرأت مندانہ‘‘ بیانات کے بعد سکیورٹی ادارے گھبراہٹ اور دبائو کا شکار ہیں اور اب شائد کراچی آپریشن میں وہ تیزی اور سختی برقرار نہ رہے جو ڈیڑھ دو ماہ قبل نظر آتی تھی۔
باخبر حلقوں کی رائے ہے کہ الطاف بھائی اور زرداری صاحب کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور سکیورٹی اداروں کا عزم مزید پختہ ہوا ہے۔ الطاف حسین کے تازہ بیان میں ڈی جی رینجرز اور پاک فوج کو جس طرح نشانہ بنایا گیا‘ وہ ان شکوک و شبہات میں مزید اضافے کا باعث بنا کہ منصور کے پردے میں کوئی اور بول رہا ہے‘ ورنہ اس وقت آتش بیانی کی ضرورت تھی نہ تقاضائے مصلحت و دانشمندی۔
الطاف حسین نے ایسی ہی تقریر نومبر2004ء میں نئی دہلی کے ایک سیمینار میں کی تھی ۔ عزیز دوست رائے ریاض حسین ان دنوں نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں منسٹر پریس تھے اور ہندوستان ٹائمز کی طرف سے منعقدہ اس تقریب میں موجود، جہاں الطاف بھائی نے پاکستان کے بارے میں گوہرافشانی فرمائی۔ رائے ریاض حسین ‘میاں نواز شریف کے علاوہ میر ظفر اللہ جمالی اور دو نگران وزرائے اعظم کے پریس سیکرٹری ... اور خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل رہے، رائے ریاض حسین لکھتے ہیں۔
''جمعتہ الوداع اور عید کی مبارک قبول فرمائیں۔ آپ کا آج کا کالم معرکتہ الآرا ہے ‘ میرا مطلب''شیطان بزرگ سے معانقہ‘‘ جو آپ نے ایران و امریکہ جوہری معاہدہ پر تحریر کیا ہے۔ مجھے آپ کے خیالات سے سو فیصد اتفاق ہے بلکہ میں تو اسے ایرانی رہنمائوں کی مومنانہ بصیرت سمجھتا ہوں جنہوں نے طالبان کی طرح خودکشیاں کرنے کی بجائے امن کو ایک موقع دیا اور اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچا لیا ہے۔
آپ نے صحیح طور پر کہا ہے کہ ''ایران نے اپنے نظام کو اس قدر مضبوط کر لیا (ہے) کہ کسی بیرونی یا اندرونی ریشہ دوانی کا سن کر تھر تھر کانپنے نہیں لگتا۔ ایرانی مستقبل کے فیصلے تہران میں ہوتے ہیں‘ واشنگٹن ‘ لندن‘ جنیوا میں نہیں‘‘
محترمی ارشاد صاحب‘ آپ نے صحیح فرمایا ہے کہ '' ایرانی قیادت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے صدام حسین کی طرح ایران کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجنے دی‘‘مگر ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے، بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور قوم کے بیشتر افراد نہ جانے کیوں اندھے‘ اور بہرے ہیں جنہیں نوشتۂ دیوار بھی نظر نہیں آتا۔ اب ذرا ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا معاملہ دیکھیے۔
مجھے 6نومبر2004ء کی وہ شام نہیں بھولتی جب ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں جناب الطاف حسین نئی دلی آئے تھے۔ میں اس وقت پاکستان ہائی کمیشن دلی میں منسٹر پریس تھا۔ الطاف حسین نے 13 جولائی 2015ء کو جو کچھ فرمایا وہ اس قسم کی گفتگو تو دس سال سے فرما رہے ہیں۔ دشمن ملک کی سرزمین پر انہوں نے ایسے الفاظ کہے کہ مجھے آج بھی یاد آتے ہیں تو سرشرم سے جھک جاتا ہے اور اپنی قومی کوتاہیوں پر دکھ ہوتا ہے کہ ہم نے کیسے کیسے منافقین اور آستین کے سانپوں کو اپنے اندر نہ صرف جگہ دی ہے بلکہ اونچا مقام بھی دے رکھا ہے اور ووٹ بھی دیتے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا ''جب میں دلی ایئر پورٹ پر اترا تو مجھے سب کچھ اپنا اپنا سا لگا۔ میں نے اوپر دیکھا‘ نیچے دیکھا‘ دائیں دیکھا‘ بائیں دیکھا‘ سب کچھ اپنا اپنا سا لگا‘‘۔
ان کی یہ تقریر انگریزی اردو کا مکسچر تھی ‘ شاید کچھ سکرپٹ لکھ کر دیا گیا تھا۔ پھر انگریزی میں اپنے مخصوص لہجے میں بولے''پاکستان کا قیام‘ عالمی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اور ہمارا تو یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے‘‘۔
پھر کہا ''ہمیں پاکستان میں مہاجر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے‘ مگر اب اگر یہ طعنہ دیا گیا تو ہم آپ سے پناہ مانگیں گے۔ بولو پناہ دو گے؟‘‘
جواب میں خاموشی... کیونکہ ہال کے اندر سب دانشور‘ اور نامور صحافی تھے کوئی کراچی کا جلسہ نہیں تھا۔ پھر دوسری دفعہ پوچھا''اے دلی والو‘ میں آپ سے پوچھتا ہوں‘ بولو ہمیں پناہ دو گے‘‘۔ خاموشی... پھر تیسری دفعہ یہی سوال دہرایا۔ ہال میں مکمل خاموشی... مگر ہمارا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں‘ ہم سب پاکستانی سفارتکار شرمندگی اور غم سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور الطاف حسین نے بھی جواب نہ پا کر‘ ماتھے سے پسینہ پونچھا اور کہا کہ ''شاید میں نے کوئی مشکل سوال کر دیا ہے‘‘۔ الطاف حسین کی تاج محل ہوٹل نئی دلی کی یہ تقریر ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھی۔ میری رپورٹ ملک کے سارے اخباروں میں چھپی مگر حکومت کے ایوانوں میں اس کا الٹا اثر ہوا۔ ملک کے سب سے بڑے دفتر سے ہمارے سفیر کو ٹیلیفون پر سرزنش کی گئی کہ آپ نے ابھی تک ایم کیو ایم کے وفد کو کھانے پرنہیں بلایا۔ وفد میں فاروق ستار اور لندن سیکرٹریٹ کے کافی لوگ شامل تھے۔ ہمارے جہاندیدہ سفیر عزیز احمد خان نے فوری طور پر الطاف حسین کو مع ان کے وفد کے کھانے پر بلایا۔ ہمارے اعتراض پر سفیر صاحب نے کہا کہ ''یار سمجھا کرو‘ بڑے گھر سے حکم آیا ہے‘‘ ظاہر ہے پرویز مشرف کا حکم تھا‘ ان دنوں میں کون ٹال سکتا تھا۔ ہماری رپورٹیں کھوہ کھاتے ڈال دی گئیں۔ دلی میں الطاف حسین کی قد آدم تصاویر آویزاں تھیں۔ دلی ایئر پورٹ سے لے کر تاج محل ہوٹل تک صرف الطاف حسین کی تصویریں آویزاں تھیں حالانکہ اس سیمینار میں سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر‘ عمران خان اور اردن کی ملکہ نور بھی شامل تھیں اور انہوں نے خطاب بھی کیا ۔ بعد میں ہندوستان ٹائمز کے دوستوں نے بتایا کہ ہم نے تو ''را‘‘ کے کہنے پر اسے بلایا تھا اور ''را‘‘ نے ہی جا بجا تصویریں اور خیر مقدمی بینرز آویزاں کیے ہیں ۔ دہلی میں تعیناتی سے قبل میں پاکستان ہائی کمیشن کولمبو میں پریس اتاشی تھا۔ وہاں میری تاملوں سے دوستی ہو گئی تھی۔ ان میں سے ایک باغی تامل نے جو بھارت سے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لے کر آیا تھا مجھے بتایا کہ ہمارے ساتھ انڈیا میں پاکستانی بھی ٹریننگ لیتے تھے۔ میں چونکا'' کون سے پاکستانی؟‘‘۔ میں نے تامل باغی سے پوچھا۔ ''وہ ایم کیو ایم کے لوگ تھے اور زیادہ خطرناک ہتھیاروں کی ٹریننگ لیتے تھے‘‘۔ باغی نے جواب دیا۔
ارشاد عارف صاحب۔ اگر 2004ء میں اس مکروہ حرکت کا سرکاری طور پر نوٹس لیا جاتا تو شاید آج یہ حالات کراچی کے نہ ہوتے۔ ملکی قوانین اس وقت بھی موجود تھے۔ اس نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت تھی نہ نام نہاد ''اتفاق رائے‘‘ کی۔ قومیں اس طرح عمل کرتی ہیں جیسے ایران نے پندرہ سال جبر کو برداشت کیا اور بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اپنے وجود کو باعزت اور باوقار طریقے سے بحال رکھا۔ ہم کب جاگیں گے۔ اب بھی ایم کیو ایم کے رہنما تاویلیں دے رہے ہیں جو ناقابل فہم ہیں۔ دعا گو۔ رائے ریاض حسین۔‘‘
رائے ریاض حسین نے عینی شاہد کے طور پر جو دیکھا اور محسوس کیا اپنے خط میں بیان کر دیا۔ اس پر میں کیا تبصرہ کروں تاہم گذشتہ ایک روز کے دوران کراچی میں جو اقدامات، فیصلے اور اعلانات ہوئے وہ مثالی اور قابل رشک نہ سہی مگر حوصلہ افزا ضرور ہیں۔ شاید قدرت کو ہمارے حال پر رحم آ جائے۔ دنیا بہ اُمید قائم ؎
دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بتوں سے کیا فیض
اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے