تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-07-2015

علی گیلانی روز روز پیدا نہیں ہوتے!

کتنے ہی نواز شریف، کتنے ہی زرداری اور کتنے ہی عمران خان آئیں گے اور چلے جائیںگے، مگر علی گیلانی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ 
خرابی ناکامی میں نہیں، مایوسی میں ہوتی ہے۔ آدمی سمجھوتہ کر لے، اپنے حق سے دستبردار ہو جائے اور ہمت ہار جائے تو کامیابی کا امکان ہی کھو دے گا۔ زندگی اسی طرح پستی میں لڑھکتی ہے۔ اقوام اسی طرح لاچار ہوتی ہیں۔ 
دہلی میں پاکستان کی عید ملن پارٹی میں سیّد علی گیلانی نے شرکت سے اگر انکار کر دیا‘ تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس راز سے وہ آشنا ہیں کہ تمام انسانوں کو اللہ نے آزاد پیدا کیا اور عزت بخشی ہے۔ ساٹھ سال سے سری نگر کے مقتل میں سرو قد کھڑے آدمی کا احتجاج فقط نواز شریف سے نہیں‘ ہر اس زندہ آدمی سے ہے، جو احساس اور علم رکھتا ہے۔ 
خدا کے آخری رسولؐ نے کہا تھا: اللہ اس بستی کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں، جہاں کوئی بھوکا سو گیا۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے: تمہیں کیا ہو گیا ہے، ان کی مدد کے لیے تم کیوں نہیں نکلتے جو پکارتے ہیں کہ اے رب اس بستی سے ہمیں نکال، جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔ 
بھوک کی اذیت، ایک شب ہوتی ہے یا چند دن کی مگر وہ بستی اس کی رحمت سے محروم ہو گی، جہاں ایسے بے کسوں کی پروا کرنے والا کوئی نہ ہو۔ پھر غلامی اور ایسے بت پرستوں کی غلامی ہو جو مارکیٹوں پر گن پائوڈر چھڑک کر آگ لگاتے ہوں؟ جو کڑیل جوانوں کو عقوبت خانوں میں لے جاتے ہوں۔ جن کے ستم سے خواتین محفوظ ہوں، بچے اور نہ بوڑھے۔ زندگی جہاں پیہم سسکتی، روتی اور فریاد کرتی رہے؟
اسلام جب اپنے قدم جما چکا تو قیامِ عدل اور فروغ علم کے علاوہ اس کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک یہ تھا کہ ہر مفلس اور ہر بے روزگار کو تحفظ دیا جائے۔ چودہ سو سال پہلے سوشل سکیورٹی سسٹم اس نے نافذ کر دیا تھا۔ اصول جب غالب نہ رہا، جب ملوکیت آئی تو جہل اور خود غرضی نے فروغ پایا۔ عمر ابنِ خطابؓ کے چند عشرے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ کے عہد میں عالم یہ تھا کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ لینے والے کو ڈھونڈا کرتا۔ 
سرکارؐ نے فرمایا: اسلام کیا ہے؟ بھوکے کو کھانا کھلانا۔ سرکارؐ نے ارشاد فرمایا: اسلام خیر خواہی ہے۔ جلیل القدر آخری پیغمبرؐ کو اللہ نے رحمتہ للعالمین کہا تھا۔ ان کے اہلِ بیت ایسے ہی تھے، ان کے اصحابؓ بھی ایسے ہی۔ عہدِ اوّلین کے بعد بروئے کار آنے والے جن جلیل القدر صوفیا کے نام ہم جپتے ہیں‘ وہ بھی ایسے ہی تھے۔ درویش، بے نیاز اور فقیر، خواجہ حسن بصریؒ، جنیدِ بغدادؒ، امام شاذلیؒ، شیخ ہجویر علی بن عثمان ہجویریؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی وفات کے بعد قیصرِ روم نے یہ کہا تھا: وہ ایک فقیر تھا، دنیا جس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی‘ مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ صاحبِ ایمان ٹیپو سلطان عام حکمرانوں سے مختلف تھا۔ جزوی ہی سہی مگر سوشل سکیورٹی سسٹم اس نے بھی نافذ کر دیا تھا۔ 216 برس اس کی شہادت کو گزر چکے۔ سرنگا پٹم میں سنگِ سیاہ کے مزار پر چراغ کبھی نہیں بجھتے اور 21 مقامی زبانوں میں گیت ہمیشہ گائے جا رہے ہوتے ہیں۔
اسلام نوعِ بشر کی آزادی ہے۔ اسلام علم اور ایثار ہے۔ ساری دنیا کو وہ آزاد کرانے آیا تھا، خود اس کے پیروکار غلامی سے سمجھوتہ کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستانی حکمرانوں کا جرم یہ نہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ جہاد کیوں نہیں کرتے؟ جنگ کے لیے حالات گاہے سازگار نہیں ہوتے۔ کامیابی سے زیادہ ناکامی اور نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جرم یہ ہے کہ حالات اور زمانے کو انہوں نے خدا مان لیا۔ بھارت سے بات چیت گناہ نہیں۔ صلحِ حدیبیہ میں مسلمانوں نے بظاہر پسپائی اختیار کر لی تھی۔ پروردگارِ عالم نے مگر اسے فتح مبین کہا۔ دشمن کے ساتھ تجارت میں کوئی خرابی نہیں۔ کیا مکّہ والوں سے لین دین میں سرکارؐ نے پابندی عائد کر دی تھی؟ بالکل برعکس قحط میں ان کی مدد کی اور نجد کے مسلمان ہو جانے والے سردار نے گندم کی رسد روکنا چاہی تو اسے منع کر دیا۔
اسلام وطن نہیں، نسل اور قومیت نہیں۔ دشمنی اور نفرت کی اس میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ جمالِ پیہم ہے۔ ہاں مگر خدا پر کامل ایمان، جیسا کہ دنیا بھر کے مشرکین کے خلاف مٹھی بھر اہلِ مدینہ کا تھا۔ جیسے صلیبی لشکروں میں ڈھل جانے والی یورپ کی متحدہ عسکری قوت کے مقابل صلاح الدین ایوبی کا۔ جیسے انگریزوں اور ان کے حلیفوں کے خلاف ٹیپو کا۔ جیسے انگریز، کانگریس، احرار، جمعیت علمائیِ ہند اور دوسرے قوم پرستوں کے متحدہ محاذ کے مقابل محمد علی جناح ؒ کا۔ 
سرکار ؐ نے کہا تھا: آخری زمانوں میںکفار اس طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گے، جیسے دستر خوان پر۔ اصحابؓ نے پوچھا: کیا ان کی تعداد کم ہو گی۔ فرمایا: نہیں بلکہ بہت زیادہ، مور و ملخ کی طرح مگر وہ ''وھن‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہوں گے، موت کے خوف میں۔ 
خوف کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ نامعلوم کا اندیشہ، مٹ جانے کا خوف، مغلوب ہو جانے کا، منافع سے محروم رہ جانے کا، اقتدار اور دولت کھو دینے کا، طاقتور معاشروں کے سامنے نکّو بننے کا، غالب آ جانے والے رواج اور قرینے جن کے ہاں سے پھوٹتے ہیں۔ 
نواز شریف کبھی مختلف تھے۔ کبھی اخباروں میں وہ اشتہار چھپوایا کرتے ''تم نے ڈھاکہ دیا، ہم نے کابل لیا‘‘ کبھی وہ قوم پرستی کا مظہر بننے کے لیے کوشاں تھے۔ پھر اقتدار، پھر دولت کی فراوانی، پھر عرب بادشاہوں اور امریکی حکمرانوں کی قربت۔ زر و جواہر کے انبار پر کھڑے آدمی کے اصول کیا اور عقیدہ کیسا؟ حضورؐ کا فرمان ہے : سونے کی اگر ایک وادی ہو تو دوسری کی خواہش وہ کرے گا۔ بھٹو میں دم خم تھا۔ شملہ میں اس کے تیور کڑے تھے اور ہمت بلند، جب کہ فوج ہار گئی تھی اور قوم ہراساں تھی۔
این جی اوز کے بھک منگے دانشور ہو گئے۔ سیاستدانوں میں دریوزہ گر ہیں جو سرپرستی اور فکری رہنمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک صدا دل کی گہرائیوں سے بے ساختہ اٹھتی ہے: اسی لیے مایوسی کفر ہے۔ آدمی جانور سا ہو جاتا ہے، ادنیٰ خواہشات کا اسیر۔ قرآن کہتا ہے: آرزوئوں کا غلام۔ بیمار ذہن! ایک لیڈر وہ ہے، جو قتل و غارت کا لائسنس مانگ رہا ہے۔ دوسرا کرپشن کی آزادی۔ تیسرا من مانی سے سرکاری خزانہ اجاڑ دینے کی۔ چوتھا جلد از جلد حصولِ اقتدار کے لیے دیوانہ۔ سب ایک دوسرے سے خوف زدہ۔ اگر وہ ذہنی مریض نہیں تو اور کیا ہیں؟ خود کو ایسے لیڈروں اور حالات کے حوالے کر دینے والے 18 کروڑ آدمی ایک قوم ہیں یا ریوڑ؟ 
بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی زوال پذیر ہے۔ جرائم پیشہ سیاسی گروہ کمزور ہونے لگے ہیں۔ عالمی حالات ملک کی معاشی نمو کے لیے پہلے سے سازگار ہیں۔ نیا ایرانی تیل منڈیوں میں آنے کے بعد قیمت مزید گرنے کا امکان ہے۔ میڈیا آزاد ہے‘ اور زیادہ آزاد ہو سکتا ہے، اگر لالچ سے اوپر اٹھے۔ عدالتی نظام کے اندر سے حرّیت کی آرزو جنم لے تو عوامل اس کے حق میں ہیں۔ سب سے بڑی قوّت شاید اس کی پشت پناہی کرے۔ 
سیّد علی گیلانی کا انکار کیا ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے گا؟ کیا وہ ہمیں یاد دلا سکے گا کہ زندگی ایقان، توکل اور عزم و جستجو کا نام ہے، مجبوریوں کے سامنے سربسجود ہونے کا نہیں۔
کتنے ہی نواز شریف، کتنے ہی زرداری اور کتنے ہی عمران خان آئیں گے اور چلے جائیںگے، مگر علی گیلانی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved