تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     18-07-2015

ویت نام سے انخلا اور آج کی جنگیں

اب جبکہ امریکہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی دلدل سے قدم باہر نکال رہا ہے، نئی نسل کے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج سے چالیس سال پہلے امریکی افواج کو ویت نام سے بھی نکلنا پڑا تھا۔ اس انخلا کی یاد میں بنائی گئی بی بی سی کی دستاویزی فلم ویت نام کے ان باشندوں کے کرب کو ظاہر کرتی ہے‘ جنہوں نے امریکی افواج کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ جب شمالی ویت نام کے دستے برق رفتاری سے سائیگان (Saigon) پر حملہ آور ہوئے تو امریکی افواج وہاں سے بھاگ نکلیں۔ فلم یہ نکتہ بھی اٹھاتی ہے کہ ہنوئی (ویت نام کے دارالحکومت) کو صدر نکسن کے واٹرگیٹ سکینڈل اور اس کے نتیجے میں ان کے مستعفی ہونے سے حوصلہ ملا کہ وہ امریکی افواج پر جارحانہ حملے کر سکے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک، امریکیوں نے چھوٹی بڑی کئی جنگیں لڑی ہیں اور اگرچہ گرنیڈا اور پاناما میں اسے عسکری کامیابی نصیب ہوئی‘ لیکن بڑی جنگوں‘ جیسے عراق اور افغانستان میں امریکی جنگی مشین اپنی ٹیکنیکل برتری کے باوجود مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی؛ چنانچہ واشنگٹن ان ممالک پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں ناکام رہا۔ 
اگرچہ مختلف ادوار کی امریکی انتظامیہ نے ویت نام، عراق اور افغانستان سے انخلا کو اپنی فتح قرار دیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی ان تینوں ممالک میں اپنے فوجی اور سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جب کوئی ریاست اپنے ساحلوں سے دور فوجی کارروائی کرتی ہے‘ لیکن اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے‘ تو اسے شکست خوردہ ہی کہا جائے گا۔ ان تینوں جنگوں میں، صرف ویت نام کی جنگ ہی نظریاتی پہلو رکھتی تھی۔ سرد جنگ کی انتہا کے دوران کمیونسٹ فورسز کی طرف سے جنوبی ویت نام پر قبضے کے خطرے کے پیش نظر جان کینیڈی نے اپنے ''مشیر‘‘ سائیگان بھیجے تاکہ وہ اس کی فوجی حکومت کو سہارا دے سکیں۔ چالاک ویت کانگ کے ساتھ لڑنے کے لیے چھوٹی سی فورس بڑھتے بڑھتے 550,000 امریکی فوجیوں پر مشتمل ایک مہیب عسکری قوت بن گئی۔ جب دشمن نے خائف ہو کر سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا تو پینٹاگان کارروائیوں کو شدید سے شدید تر کرتا گیا اور جنگ کا دائرہ شمالی ویت کانگ اور کمبوڈیا تک پھیل گیا۔ ان علاقوں پر گرائے جانے والے بموں کی تعداد پوری جنگ عظیم دوم کے دوران اتحادی فضائیہ کی طرف سے جرمنی پر گرائے جانے والے بموں سے زیادہ تھی۔ ویت کانگ کے گوریلوں کو جنگل میں پناہ لینے سے روکنے کے لیے ایجنٹ اورنج (ایک کیمیائی ہتھیار جس سے درختوں کے پتے مرجھا کر گر جاتے تھے) استعمال کیا گیا۔ اس خطرناک کیمیکل کی وجہ سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں اور بہت سے معذور بچے پیدا ہوئے۔ ان ظالمانہ حربوں کے باوجود امریکی شکست کھا گئے‘ لیکن شکست سے کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے امریکی جنرل ویت کانگ جیسے چالاک دشمن، جو آسانی سے شہری آبادی میں روپوش ہو سکتا تھا، کی سرکوبی کے لیے افغانستان میں جا گھسے۔ ایک مرتبہ پھر آسمان نے ظالمانہ قبضے کے خلاف خونیں مزاحمت کا باب رقم ہوتے دیکھا اور جس طرح اس سے پہلے افغان برطانوی اور روسی افواج کا غرور خاک میں ملا چکے تھے اور جس طرح ویت نام چینی حملہ آوروں کے خلاف صدیوں تک لڑتے رہے تھے اور انہوں نے جاپان اور پھر فرانس کی نوآبادیاتی طاقت کو شکست دی تھی، امریکی بھی افغانستان میں اسی انجام سے دوچار ہوئے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ امریکی مسلح افواج دنیا کی بہتر ین لڑاکا فورس ہے۔ اس کے پاس دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہیں اور واشنگٹن اس پر اُس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کرتا ہے جتنی تمام دنیا مل کر دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کرہ ٔ ارض کی یہ جدید اور طاقتور ترین جنگی مشین معمولی ہتھیار رکھنے والے گوریلا دستوں کو شکست کیوں نہ دے سکی؟ اس کا جواب جنگی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ رونما ہونے والے سیاسی عوامل میں بھی پنہاں ہے۔ چونکہ سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے فاصلے مٹاتے ہوئے دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب کر دیا ہے، اس لیے ہم آج جنگوں کو اپنی سکرین پر اس طرح دیکھ سکتے ہیں جس کا چند عشرے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب امریکی طیارے شمالی ویت کانگ کی شہری بستیوں پر کارپٹ بمباری کرتے ہوئے لاتعداد ہلاکتوں کا ارتکاب کر رہے تھے، باقی دنیا کو اس ظلم کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی، لیکن آج بلاگرز اورشوقیہ فلم میکرز ان علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں کو چشم زدن میں سامنے لے آتے ہیں۔ معلومات تک آسان رسائی نے منتخب حکومتوںکے ہاتھ باندھ دیے ہیں کہ وہ ہر من پسند قدم نہیں اٹھا سکتیں کیونکہ انہوں نے اپنے شہریوں کے علاوہ عالمی برادری کو جواب دینا ہوتا ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ امریکی کمانڈر افغانستان میں مزاحمت ختم کرنے کے لیے کارپٹ بمباری کا ضرور سوچ رہے ہوں گے لیکن آج کے دور میں قوت کا اس طرح وحشیانہ استعمال مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ہلاکتوں کی ذمہ داری لینا بھی دشوار ہے۔ اگرچہ ویت نام میں ساٹھ ہزار کے قریب امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے، لیکن اس کے برعکس عراق اور افغانستان میں امریکی ہلاکتوں کی تعداد کہیں کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زخمی ہونے والے فوجیوں کو فوراً ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے میدان سے نکال کر طبی امداد کے مرکز تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ اس کے باجود امریکی شہری، جو عام حالات میں اپنی افواج کی بھرپور پشت پناہی کرتے ہیں، جلد ہی اپنے فوجیوں کی لاشوں کے قطار در قطار تابوت دیکھ کر سوچ میں پڑ گئے کہ وہ اتنے فاصلے پر ایسی سرزمین پر جا کر کیوں لڑ رہے ہیں جس سے اُنہیں کوئی غرض نہیں۔ 
ان وجوہ کی بنا پر امریکی دفاعی ماہرین ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش میں ہیں‘ جس کے ذریعے وہ فاصلے پر رہتے ہوئے جنگ لڑ سکیں تاکہ اُن کے فوجی میدان جنگ کی تمازت سے دور رہیں۔ ڈرون اس سلسلے کی صرف ایک کڑی ہیں، ابھی اس طرح کی مزید ہلاکت خیز مشینیں سامنے آنے والی ہیں۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہم اپنے خطے کے آس پاس ایسی مشینوں کا استعمال دیکھیں گے۔ اس طرح کی یک طرفہ جنگی مشینری کے استعمال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسی جدید جنگی مشین کا دوسرے ممالک کی روایتی افواج مقابلہ نہیں کر سکیں گی، اس لیے ان کے مقابلے پر سیاسی، خاص طور پر نظریاتی شدت پسندوں کے دستوں کو اُس جذبے کے ساتھ میدان میں اتارا جائے گا‘ جو نہ تو ملٹری اکیڈیموں میں سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی پینٹاگان کے دفاعی پنڈت اس کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ''دل و دماغ کی جنگ‘‘ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عراق یا افغانستان پر قبضہ کرنے والے غیر ملکی دستے مقامی آبادی کو کیسے سمجھائیں کہ اُنہوں نے ان کے ملک پر اُن کے فائدے کے لیے ہی قبضہ کیا ہے اور وہ ان کے ہم وطنوں کو اس لیے ہلاک کر رہے ہیں کہ ان کے ملک میں امن قائم ہو؟ صدر اوباما اس بات کو سمجھتے ہیں؛ چنانچہ اُنہوں نے اپنے دستوں کو ان ممالک سے نکالنے کا عزم کر لیا۔ اسی وجہ سے وہ دیگر محاذوں پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں؛ تاہم اس دانائی کی وجہ سے اُنہیں اپنے حریفوں سے بزدلی کے طعنے سننے پڑے ہیں۔ اس لیے اس وقت جنگ میں الجھنے سے بچنے کے لیے بھی بہت جرات کی ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved