انصاف ہی کلید ہے۔ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے اس قول کو ایک بار پھر یاد کیجیے کہ کفر کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں۔ اللہ اگر توفیق دے تو اس پر غور بھی کیجیے۔
تعصب چھوت کا مرض ہے۔ ایک گروہ اس کا شکار ہوتا ہے تو مدّمقابل بھی۔ ذوالفقار مرزا کو کیا ہم بھول سکتے ہیں، جنہوں نے مہاجروں کو طعنہ دیا کہ بھوکے ننگے وہ پاکستان آئے تھے۔ ارشاد کیا کہ اسلحہ کے جو دو لاکھ لائسنس میں نے جاری کیے، وہ شادی بیاہ میں فائرنگ کے لیے نہیں۔ کیا خانہ جنگی کے لیے؟ مہاجر پاکستان کیوں پہنچے؟ تحریکِ پاکستان کی ڈٹ کر انہوں نے حمایت کی تھی۔ یو پی اور سی پی تحریکِ پاکستان کے اصل مرکز تھے۔ قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں ہجرت کرنا پڑی۔ وہ ہنر، تعلیم اور تجربے کے ساتھ آئے تھے۔ ملک سنبھالنے میں ان کا کردار دوسروں سے زیادہ تھا۔ کراچی اگر صنعت و تجارت کا مرکز ہے تو یہ محض ایک اتفاق نہیں۔ سندھ اور پنجاب کے زرعی معاشروں کے برعکس، وہ کاروبار اور صنعت کاری کا سلیقہ رکھتے تھے۔ جمہوری تحریکوں میں وہ پیش پیش رہے۔ ایوب خان کی جعلی فتح کے بعد ان کے صاحبزادے اگر ان پر چڑھ دوڑے تو اس کا کیا جواز تھا؟ بعد ازاں ہی گوہر ایوب سے باز پرس ہوتی مگر کسی کو یاد تک نہ رہا۔ بعد ازاں وہ میاں محمد نواز شریف کے معتمد ہو گئے۔ کیا یہ ان کے طرزِ عمل کی توثیق نہ تھی؟
بھٹو عہد میں یہ تسلسل جاری رہا بلکہ تحقیر میں اضافہ ہو گیا۔ صوبے میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ اگر اس لیے تھا کہ پچھڑے ہوئے سندھ کی مدد کی جائے تو مقررہ مدّت کے بعد کیوں جاری رہا؟ سندھیوں
کو ان کے جاگیرداروں نے پسماندہ رکھا اور دوسروں سے نفرت کا سبق دیا۔ مسئلے کا حل یہ تھا کہ سندھ میں تعلیم اور کاروبار کے فروغ پر توجہ دی جاتی۔ سوویت یونین ٹوٹنے پر آیا تو دیوارِ برلن گری۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں تفاوت بہت تھا۔ کوٹے سے نہیں، اس کا علاج مشرقی علاقوں کی استعداد میں اضافے اور ترقیاتی منصوبوں سے کیا گیا۔ سندھی جاگیرداروں کے مزاج میں، جو خود اپنے لوگوں کے کم دشمن نہیں، یہ طرزِ احساس آج بھی کارفرما ہے۔ اپنی عافیت اور اقتدار کے لیے وہ ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں مگر بلدیاتی ادارے بنانے پر رضامند نہیں کہ شہروں کا اقتدار مہاجروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اگر ایم کیو ایم نہیں تو دوسرے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ قیادت وہیں سے پھوٹتی ہے اور بتدریج صیقل ہوتی ہے۔ انہی کے ذریعے عام آدمی کاروبارِ حکومت میں شریک ہوتے ہیں وگرنہ احساسِ محرومی!
فخرِ ایشیا کے مدّاح ایک پہلو کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ ایک قوم پرست تھے۔ خطیب، نثر نگار اور کارگر سیاستدان مگر ایک اعتبار سے جاگیردارانہ سندھ کے نمائندے بھی۔ سول اداروں، پولیس اور عدالتوں کو انہوں نے کمزور تر کیا۔ اپنے ملک کو انہوں نے آئین دیا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، مشرقِ وسطیٰ سے مراسم میں گہرائی پیدا کی مگر ان کا طرزِ عمل آمرانہ تھا۔ 1977ء کے الیکشن میں وہ بلامقابلہ منتخب ہوئے اور ان کے چاروں وزرائے اعلیٰ بھی۔ ان کی تربیت ایک فوجی ڈکٹیٹر کے دربار میں ہوئی تھی، جنہیں کبھی وہ ایشیا کا ڈیگال کہتے اور کبھی عصرِ رواں کا صلاح الدین ایوبی۔ اسی تر دماغ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سرکاری پارٹی کے سوا تمام جماعتوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنروں کو حکمران جماعت کا صدر اور ایس پی کو سیکرٹری بنا دیا جائے۔ اپنے مزاج کو جمہوری تقاضوں کے مطابق وہ کبھی ڈھال نہ سکے۔ الیکشن میں ڈٹ کر دھاندلی کی اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ ایک منقسم قوم چھوڑ گئے۔ اپنی ذاتی فوج فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے احمد رضا قصوری کے والد کو انہوں نے قتل کرایا۔ جماعتِ اسلامی کے درویش رہنما ڈاکٹر نذیر احمد اور مولوی شمس الرحمٰن سمیت درجنوں سیاسی کارکنوں کو۔ 1977ء میں پچاس ہزار سیاسی کارکن جیلوںمیں پڑے تھے۔ ان میں سے بعض کے ساتھ ایسی بدسلوکی کا مظاہرہ ہوا کہ الفاظ کم پڑتے ہیں۔ لاہور کے شاہی قلعے کا عقوبت خانہ آباد رہا، ان کے اپنے و زیرِ اعلیٰ حنیف رامے بھی اس کا رزق بنے۔ قتل کا مقدمہ چلانے میں بے شک ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ گواہ سرکاری اہتمام سے لائے گئے اور ججوں پر سرکار اثر انداز ہوئی ورنہ شک کا فائدہ پا کر وہ بری ہو جاتے۔ ان عشروں کا سبق اس کے سوا کیا ہے کہ ناانصافی سے مزید ناانصافی جنم لیتی ہے۔ خون کو پانی سے دھویا جا سکتا ہے، خون سے نہیں۔ بھٹو نے اپنے حریفوں کو پامال کیا تو جنرل محمد ضیاالحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ وہ ایک کٹر مذہبی آدمی تھے مگر خدا کا یہ حکم انہیں کبھی یاد نہ آیا کہ برائی کا خاتمہ صرف بھلائی سے ممکن ہے۔
اٹھارہ کروڑ پاکستانی یرغمال ہیں۔ زرداری صاحب سندھ میں لوٹ مار کا لائسنس چاہتے ہیں‘ تو نون لیگ سرکاری خزانے کو ذاتی دولت کی طرح صرف کرنے کا۔ سرکاری دبدبے کو کاروبار کے لیے برتا جاتا ہے۔ لاہور میں صفائی کرنے والی جدید گاڑیوں پر یہ الفاظ رقم ہیں: ''خادمِ پنجاب کا تحفہ‘‘ ہر پُل اور ہر سڑک کی تعمیر کے بعد تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ شریف خاندان کا احسان ہے۔ سترہ سال بعد اتفاق فائونڈری کے عوض لیا گیا قرض واپس کرنے پر بھی خادمِ اعلیٰ داد کے طلب گار ہیں۔ ''بینکوں کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں‘‘ ان کا ارشاد ہے۔
عمران خان بھی نمک کی کان میں نمک ہو چکے۔ علامہ طاہرالقادری ایسے مذہبی شعبدہ باز کے ساتھ گٹھ جوڑ۔ فوجی افسروں کے ساتھ ساز باز اور مخالفین کی کردار کشی سمیت، اقتدار کے لیے ہر حربے کو وہ جائز سمجھتے ہیں۔ ''را‘‘ سے مراسم کا الزام دہراتے ہوئے جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت کراچی کو یرغمال بنانا چاہتی ہے تو ملک کے پورے سیاسی کلچر کو ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
تاریخ کہتی ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو، وہاں شکایت جنم لیتی ہے۔ فوراً ہی غیبت میں ڈھلتی، طعنہ زنی کی آبیاری سے فساد میں بدلتی اور جتھے بازی تک پہنچتی ہے۔ مسئلے کو اگر طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو تقسیم مستقل ہو جاتی ہے۔ قوم کھوکھلی ہو جاتی ہے اور ریاست بے معنی۔ کراچی میں دہشت گردی تحلیل ہو رہی ہے۔ عید کے روز ایک کروڑ شہری سڑکوں پر تھے۔ جشن کا ایسا سماں ملک نے مدّتوں کے بعد دیکھا مگر یہ مستقل حل نہیں۔ سوات اور قبائلی پٹی میں فوجی کارروائی سے فساد ہمیشہ کے لیے تمام نہ ہو گا۔ انتہا پسند مارے گئے تو عارضی طور پر امن لوٹ آئے گا۔ سول اداروں کی تعمیر اور قابلِ اعتماد نظامِ عدل کے بغیر باقی رہنے والا استحکام کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ عوامی بغاوتوں کے بل پر ابھرنے والے جرائم پیشہ لیڈروں سے مستقل طور پر نجات پانی ہے تو اس کے سوا کوئی راہِ عمل نہیں۔ ایم کیو ایم کا خاتمہ کرنے کی نہیں بلکہ جرم اور سیاست کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی اداروں کی تشکیل اور سیاست کی مکمل آزادی۔ ملک کے دوسرے طبقات کی طرح مہاجروں کے حقوق کا مکمل احترام۔
انصاف ہی کلید ہے۔ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے اس قول کو ایک بار پھر یاد کیجیے کہ کفر کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں۔ اللہ اگر توفیق دے تو اس پر غور بھی کیجیے۔