مالکِ ارض و سماء نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 2اور 3میں کتاب اور اہلِ کتاب کو کھول کر بیان کر دیا۔ارشاد ہوا، ''یہ ہے وہ کتاب ہر شک سے بالاتر ۔ان کے لیے راہنمائی فراہم کرتی ہے جو بدی سے بچتے ہیں‘‘ پھر آیت نمبر 3میں متّقی لوگوں کی تین نشانیاں بیان فرمائیں۔ ''وہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اسے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
ایک بنیادی بات ذہن میں رکھ لیں کہ اللہ کا دیا ہوا رزق صرف وہ ہے جو حلال ہو اور جائز طریقے سے کمایا جائے۔ رشوت ستانی، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، سٹاک چھپا کر رکھنا اور رمضان شریف میں نکالنا،نقص دار تھرڈ گریڈ کی چیزوں کو بہترین اور فیشن میں'' اِن‘‘ کہہ کر بیچنا،مجبور روزہ داروں کی جیب کاٹنا، یتیموں اور بیواؤں کا لحاظ رکھے بغیر انہیں ناقص مال یا مہنگا سودا بیچ دینا، مرچوں میں اینٹ کی ملاوٹ کرنا،ہلدی میں بھوسہ، چائے میں چنے کا چھلکا،دوائی میں زہر،دودھ میں پانی، سرکاری زمین پر قبضے،راستے پر تجاوزات، نالے پر سرائے یا ذاتی منفعت کی تعمیرات،منی لانڈرنگ،کِک بیک، ٹھیکوں میں کمیشن،ناقص سڑکیں،بیکار گلیاں، چوری کے ہائیڈرنٹ کا پانی،کنڈا لگائی بجلی کا فرضی بِل،مار دھاڑ،سٹریٹ کرائم، ڈکیتی، بھتہ، اغوا برائے تاوان اور بلیک میلنگ کے ذریعے سے کمائے ہوئے پیسے کسی طور بھی نہ حلال رزق کہلا سکتے ہیں، نہ جائز کمائی۔ ایک اور بات بھی اہم ہے۔ بیشک ان ذلت آمیز ذرائع سے بنائی ہوئی جائیداد، گاڑی، بلڈنگ پر ''ھٰذا من فضل ربّی‘‘ ہی کیوں نہ لکھ دیا جائے، یہ جائز ہو گی، نہ حلال۔
رمضان آنے سے پہلے ۔روزوں کے مہینے کے دوران ۔عید اور اس کے بعد ،چند سوالات ایسے ہیں جن پر بحیثیت قوم یا معاشرہ ہمیںلازماً غور کرنا چاہیے، لیکن ان سوالات کی طرف جانے سے پہلے آئیے ذرا معروضی حالات اور زمینی حقائق دیکھ لیں۔
اولاً،پاکستان شاید دنیا کا پہلا اور آخری ملک ہے جس میں رمضان شریف کے دوران کروڑوں نہیں اربوں روپے کے خرچ سے بازار سجتے ہیں۔پہلے یہ بازار گلیوں اور میدانوں میں لگائے جاتے تھے آج ٹیلی ویژن سکرین ان بازاروں سے مزّین ہے۔ انعامات کی بارش، انعام لینے والوں کو طعنے، کوسنے، ڈانٹ ڈپٹ، بدرجۂ ''تھوڑی سی بے عزتی‘‘۔
دوسرے، یہ کہ مذہبی خطبوں کا اس قدر بھرپور شور کرہ ارضی پر کسی اور خطے میں سنائی نہیں دیتا۔ ہر چینل پر رنگ برنگے، جوشیلے پِنک، برگنڈی، شوخ، طوطیا، بھڑکیلے، لان، چھینٹ، سرخ، سبز، سیاہ، رنگ کے خرقے، چُوغے، عمامے۔ ہر چینل پردست شناس، جِنّ اور پَریوں کے مالکان، بدرُوحوں کے رکھوالے، پیر، جوتشی، فقیر، مولوی، سکالر اور کل کی خبر رکھنے والے زمانہ ساز بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس ساری ایکسرسائز کا عید کے دوسرے دن ۔ عید ٹرو،مرو کے بعد نتیجہ دیکھ لیں، جو یقینا یہ ہو گا صفر جمع صفر جمع صفر برا بر ہے صفر ۔
مستقبل کا حال بتانے والے ایک ماہر کی کہانی یوں بھی ہے۔ سحری کو ہل چلانے کے لیے جاگا ہو ا کسان بیل جَوت کر اپنا کام کرتا رہا۔ بعد دوپہرسخت گرمی میں سر پر گھاس کا گٹھالادے واپس آیا ۔گلی کی نکڑ پر اس نے عجیب منظر دیکھا۔ ایک لمبا، تڑنگا، مشٹنڈا، دراز گیسو، بڑھی ہوئی شیو، گلے میں کنٹھے اور منکے ڈالے کسان کی بیوی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے کھڑا تھا۔کسان نے گٹھا اتارا۔ اس میں سے چابک نکالی اور مشٹنڈے کی طرف چل دیا۔ پاس پہنچتے ہی اس نے مشٹنڈے پر چابکوں کا مون سون برسا ڈالا۔ پھر جُوتا باری ہوئی، چانچہ مشٹنڈا بے حال ہو کر نیچے گِرا۔ چیخیں ماریں، لوگ اکٹھے ہو گئے۔ گاؤں کے چوپال میں جرگہ بیٹھا۔ مشٹنڈا مظلوم بنا اور اپنا مقدمہ بیان کرنے لگا۔ کہا: کسان نے مجھ بے گناہ پر زبردست تشدد کیا اس سے پوچھا جائے آخر کیوں...؟ کسان نے انتہائی سادگی سے جواب دیا۔ مشٹنڈے سے پوچھا جائے اس نے میری زوجہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں کیوں پکڑ رکھا تھا...؟ مشٹنڈے نے جوابی دلیل دی۔جناب والا میں خاتون کو آنے والے دنوں کا حال بتا رہا تھا۔ گاؤں کے سر پنچ نے سمجھا کسان لاجواب ہو جائے گا، پوچھا: اب بولو۔ کسان نے بے پروائی سے قہقہہ لگایا اور کہا... واہ بھائی واہ، جس کو اپنے مستقبل کے حال کا پتہ نہیں تھا کہ5منٹ بعد اسے جُوتے پڑنے والے ہیں وہ میری بیوی کا مستقبل کیسے جانتا ہے...؟
تیسرے، ہر طرح کے مسائل کے حل کے لیے استخارہ سینٹر، وظیفے،علم الاعداد، بابے، آستانے، ٹوٹکے، عامِل، بڑی باجی صاحبہ، اشتہاری حکیم،لوگوں کومنوں کے حساب سے نہیں ٹنوں کے حساب سے ریلیف دیتے ہیں، لیکن خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چوتھے، منافع خور، ذخیرہ اندوز، گند فروش رمضان میں دو طرح کی صفائی کرتے ہیں۔ ایک اپنے بیکار سٹاک کی اور دوسرے غریب عوام کی جیبوں کی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس ساری تبلیغ، اور تفہیم کا کوئی اثر کیوں نہیں ہوتا...؟ سارے نام نہاد ادیب، خطیب، مبلغ، مقرر، محرر لکھتے لکھتے اور بولتے بولتے جھاگ برسانا شروع ہو گئے لیکن نتیجہ وہی پُرانا۔زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد والا ہے۔میں نہیں جانتا اس کی وجوہ کیا ہیں۔اپنی کم علمی اور بے مائیگی کے اعتراف کے بعد اہلِ دانش کے سامنے اسی لیے سوال رکھا ہے کہ یہ سب کیوں ہے؟ بہت دن پہلے ایسا ہی سوال شورش کاشمیری مرحوم بھی اٹھا گئے ہیں:
اے میری قوم ! ترے حسن کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
ایک بات ماننا پڑے گی ۔اگر لفظ بے معنی نہ ہوں تو ان کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ لفظ بے معنی تب ہوتے ہیں جب وہ''رَٹاّ‘‘ بن جائیں۔ لچھے دار گفتگو پر مبنی ایک طویل تقریرسُننے کے بعد میں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے پوتے جناب شاہ عبدالحق المعروف چھوٹے لالہ جی سے سوال کیا کہ ان خطبوں میں تاثیر کیوں نہیں رہی...؟ فقیر ابنِ درویش نے جواب دیا :یہ سب لوگ عِلمیت جھاڑتے ہیں ۔ابلاغ نہیں کرتے نہ اصل بات کہتے ہیں۔یہ پانچ چھ سال پہلے کا ذکرہے ۔تب فلمی دنیا کے ستارے،ٹاپ ماڈلزاور وہ سارے جو سحر سے افطار تک ہمیں دین سکھاتے ہیں، میدان میں نہیں نکلے تھے۔اب اس کمرشلائزیشن کی تاثیر دیکھنی ہو تو عید کے بعد آپ گھر سے باہر ضرور نکلیں۔
ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے۔ جس سماج میں گندے سرمائے یعنی منی لانڈرنگ کے جرم کا تحریری اعتراف کرنے والا قوم کے بیت المال کا انچارج ہو، جس ملک میں منی لانڈرنگ کی ملزمہ جیل سے گھر تک پولیس اسکارٹ کی نگرانی میں جائے، جس ریاست میں ریاست توڑنے کا اعلان ٹی وی پر تقریر میں کرنے کی اجازت ہو، جس قوم کو سرکاری خزانے سے سُرمے کی سلائی جتنا حصہ بھی نہ ملتا ہو اور اس کے باوجود 18کروڑ لوگوں کی آبادی ہو اور قبرستان سے زیادہ خاموشی، وہاں جوڑے بدلنے کی نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ایسا نظام جو عادت بدلنے کی طاقت رکھتا ہو۔
آئین موم کی ناک ،قانون بے بی ڈول، انصاف پیدائشی نابینا،حکومت تاجرانہ، دین و دنیا کے راہ نما داستان گو سے داستان نویس بن جائیں۔ وہاں کیا نازل ہو گا؟ یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔