تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-07-2015

کسی کی عید بھی ویسی نہیں رہی

میرے ہوش سنبھالنے کے بعد یہ تیسری عید تھی جو ابا جی کے بغیر گزاری۔ پہلی عید تب، جب ابا جی اور ماں جی حج پر گئے ہوئے تھے۔ دوسری تب جب میں اور میری اہلیہ حج پر تھے۔ بس یہی دو عیدیں تھیں جو ان کی زندگی میں ان کے بغیر گزریں وگرنہ عید کی نماز کا تصور ان کے بغیر ادھورا کیا سرے سے تھا ہی نہیں۔ یہ تیسری عید تھی جو ان کے بعد گزرنے والی پہلی عید ہے۔ ابا جی بچپن سے ہی مجھے اپنے بالکل ساتھ کھڑا کیا کرتے تھے۔ تب بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنے کا شاید رواج ہی نہیں تھا۔ بڑے نماز پڑھتے تھے اور چھوٹے بچے پیچھے قلفیاں، لچھے، گٹا، فالودہ اور دیگر الابلا کھایا کرتے تھے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بچے اپنے بڑوں کو اور بڑے اپنے بچوں کو ڈھونڈا کرتے تھے مگر ابا جی بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی تربیت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اسے ذمہ دار سمجھا جائے۔ اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے اور اسے برابر کے نمازی کا درجہ دیا جائے بصورت دیگر وہ کبھی پُراعتماد نہیں ہو سکے گا۔ میں نے جب پہلی بار ان کے ساتھ دوسری صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی تب مجھے پوری نماز یاد تھی۔ دعائے قنوت اس کے بعد یاد کی تھی۔
میں نے اپنی پہلی نماز عید ابا جی کے پائوں سے پائوں ملا کر پڑھی تھی اور آخری نماز عید بھی۔ پچھلے سال عید کی نماز میں پہلی رکعت کے بعد ابا جی سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا، میں نے نماز کے دوران ہی ان کو سہارا دے کر کھڑا کیا۔ نماز کے بعد اپنے ہاتھوں سے ان کو جوتے پہنائے۔ وہ کافی کمزور ہو چکے تھے مگر اس عالم میں بھی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اگلی نمازِ عید میں ان کے بغیر پڑھوں گا۔ محبت میں آپ چیزوں کو بالکل اور طرح سے دیکھتے ہیں۔
میں نے پہلی نمازِ عید عام خاص باغ میں پڑھی تھی جہاں مولانا شمس الرحمان افغانی نمازِ عید پڑھایا کرتے تھے۔ چند سال بعد باغ میں کیاریاں بن گئیں اور لان چھوٹا ہو گیا تو نمازِ عید کا اجتماع عام خاص باغ ہائی سکول کے گرائونڈ میں شفٹ ہو گیا۔ ایک عشرے تک ہم وہاں نماز عید ادا کرتے رہے تاوقتیکہ مولانا شمس الرحمن افغانی کا انتقال ہو گیا۔ دوچار سال وہیں نمازِ عید ادا کی پھر چند سال سول ڈیفنس آفس ملتان کے گرائونڈ میں نماز پڑھی اور بالآخر گول باغ آ گئے۔ درمیان میں دو چار بار مدرسہ ابن قاسم میں بھی نماز ادا کی مگر وہاں نماز تھوڑی تاخیر سے ہوتی تھی لہٰذا دوبارہ گول باغ پارک میں آ گئے۔ آخری بار ہم باپ بیٹا نے گول باغ پارک میں نماز عید اس طرح ادا کی کہ ان کے ایک طرف میں اور دوسری طرف اسد تھا۔ واپسی پر ان کا ایک ہاتھ میں نے تھاما ہوا تھا اور دوسرا اسد نے۔ عرصے سے اس جگہ عید کی نماز پڑھنے والوں نے بھی ابا جی کی کمی محسوس کی۔ جنہیں ان کی وفات کا علم تھا وہ انہیں یاد کرتے تھے اور جنہیں علم نہیں تھا وہ ان کا پوچھتے رہے۔ عید کی نماز کے لیے روانگی اور واپسی کی وہ پرانی رونقیں تو خیر عرصہ ہی ہوا خواب بن گئی ہیں مگر اس بار تو عجب بے کیفی کا عالم تھا۔
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ابا جی بے حد یاد آئے۔ ہم بچپن میں نماز پڑھتے ہی کھسکنے کی کوشش کرتے تھے، مگر ابا جی نے سختی سے کہا ہوا تھا کہ خطبہ اور دعا نماز کا لازمی حصہ ہے، عید کی نماز ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ دوران خطبہ ہم سارے کزن اور بھائی طارق مرحوم ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھتے رہتے اور نظروں ہی نظروں میں اشارے کرتے رہتے۔ دوران دعا ہماری کھسر پھسر شروع ہو جاتی۔ اٹھے ہوئے ہاتھ اشاروں میں لگ جاتے۔ تب ابا جی گھور کر کھانستے، ہمارے کہنیاں مارنے میں مصروف بازو دوبارہ ایستادہ ہو جاتے، دوبارہ دعا شروع کر دی جاتی۔ مشینی انداز میں بغیر سنے اور سمجھے آمین، آمین کا بلند ورد شروع ہو جاتا، جونہی دعا ختم ہوتی ہم گیٹ کے پاس کھڑے قلفیوں، آلو چھولے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی ریڑھیوں کی طرف لپک پڑتے۔ ہماری جیب میں پڑے تیس چالیس روپے اس بری طرح کودتے تھے کہ چین نہیں لینے دیتے تھے۔ تمام تر الا بلا کھانے کے باوجود یہ پیسے ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔
صبح جب میں اور اسد اٹھے گھر میں اتنی خاموشی تھی کہ عید کا تصور ہی نہیں آ رہا تھا۔ میں اور اسد دس منٹ میں نہا کر تیار ہو گئے۔ انعم سوئی ہوئی تھی۔ کپڑے پہن کر میں نے اور اسد نے عود کا عطر لگایا۔ اسی دوران میرے مرحوم بھائی کے دونوں بیٹے جہانزیب اور اورنگزیب آ گئے اور ہم عید کی نماز کے لیے روانہ ہو گئے۔ مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ عید کی صبح تقریباً اسی وقت شروع ہو جاتی تھی جس وقت ایک دن قبل ہم سحری بند کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ سردیوں کی عید ہوتی تھی، چولہے پر پانی کے دیگچے دھرے ہوتے تھے، نلکے سے آدھی بالٹی تازہ پانی کی بھری جاتی اور ایک دیگچے میں سے آدھا پانی ڈال کر پانی گرم کیا جاتا اور ایک بچے کو غسل خانے میں بھیج دیا جاتا۔ چھوٹے بچوں کو (یہ سعادت صرف مجھے ہی حاصل تھی) کمرے کے ایک طرف چارپائی کھڑی کر کے اس پر چادر ڈال کر بنائے گئے عارضی غسل خانے میں دھکیل دیا جاتا۔ صابن مل مل کر خوب اہتمام سے نہایا جاتا۔ تیار ہونے والا بچہ نیچے بڑے کمرے میں چلا جاتا۔ چچا اور تایا مع 
بچوں کے وہیں آ جاتے۔ تایا عبدالعزیز کی قیادت میں یہ قافلہ گھر سے روانہ ہوتا۔ تیمور روڈ پر جا کر دو تانگے پکڑے جاتے۔ بھائو تائو ہوتا اور دولت گیٹ کے پاس عام خاص باغ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ تایا جی سارا راستہ بلند آواز میں تکبیرات کہتے اور ہم سب ان کی تقلید کرتے۔ راستے میں کپڑے کے نہایت ہی فضول اور واہیات (یہ میرا اب خیال ہے) بے ڈھنگے سے گھوڑے پر رال ٹپکتی، دہلی گیٹ پر پان والے کی دکان پر رونق دیکھ کر دل للچاتا۔ لکڑی کی گھومنے والی ٹٹیری پر حیرت بھری نگاہ ڈالتا لیکن عید والے دن سب سے زیادہ انتظار کھوئے والی اس مٹھائی کا ہوتا تھا جس کو مختلف پھلوں کی شکل میں تیار کیا جاتا تھا اور ایک چھابڑی میں سجا کر رکھا ہوتا تھا۔ نمازِ عید کے بعد پہلی خریداری یہی کھوئے کی مٹھائی ہوتی تھی۔ یہ مٹھائی میں نے کھائی ہے اور میری بیٹیوں نے بھی۔ کل رات بڑی بیٹی سے امریکہ بات ہو رہی تھی تو وہ پوچھنے لگی کہ کیا عید کی نماز کے بعد وہاں اب بھی کھوئے والی مٹھائی ملتی ہے؟ میں نے کہا، نہیں اب نہیں ملتی۔ میری بیٹی ہنسی اور کہنے لگی، شکر ہے نہیں ملتی وگرنہ میں یہاں آپ لوگوں سے بڑا جیلسی محسوس کرتی۔ میں نے شکر ادا کیا کہ ابھی تو اس نے میری بچپن کی عید کو دیکھا ہی نہیں وگرنہ وہ اور زیادہ حسد محسوس کرتی کہ اس نے کتنی بے کیف عیدیں منائی ہیں۔
عام خاص باغ سے واپسی اس طرح ہوتی کہ ہم عید کی نماز کے بعد پیدل چل کر سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر اپنی پھوپھی کے گھر آتے۔ وہاں سویّوں کی کھیر کھائی جاتی۔ ابا جی، تایا جی اور چچا ان کے بچوں اور وہ ہمیں عیدی دیتیں۔ وہاں سے نکل کر پھر تانگے لیے جاتے اور واپس گھر کو چل پڑتے۔ واپسی پر تانگے سے اتر کر ہم گھر نہیں جاتے تھے بلکہ وہیں سے عید منانا شروع کر دیتے تھے پہلا حملہ چاچا سولی کے 
پھٹے پر لگے میٹھے پانوں پر ہوتا تھا۔ لالچ میں بڑے سائز کا پان لگوایا جاتا۔ چاچا سولی منع بھی کرتا مگر لالچ کا کوئی علاج نہیں۔ ہم بڑا پان لگواتے، تھوڑی دیر بعد ہی ان کا مال و متاع باچھوں سے بہنا شروع ہو جاتا اور ہم اسے کُرتے کے کف سے صاف کرنا شروع کر دیتے۔ ہر بار عید کے نئے کپڑے پان کے طفیل ناقابلِ استعمال ہو جاتے مگر میٹھے پان کا تصور اگلے سال پھر یہی کچھ کرواتا۔ اس کے بعد خواہشات کی ایک لمبی فہرست اور قطار تھی۔ تخملنگاں کا شربت، غلام رسول کے دال مونگ، آگ والا چورن، چاچا پاری کا سوہن حلوہ، لالہ مشتاق کا فالودہ، میٹھے انڈوں والی ڈبی جس پر مرغی کی تصویر ہوتی تھی، ریاض کی دکان پر لگی ہوئی لاٹری، گلی کی نکڑ پر کھڑا ہوا گٹے والا، چینی کے رنگدار لچھے بنانے والی ریڑھی جس پر ایک طرف سے چینی اور رنگ ڈالا جاتا تھا اور اوپر پھولے پھولے لچھے بن جاتے تھے، شہزادی گل بکائولی اور بارہ من کی دھوبن والی فلم جسے تین لوگ بیک وقت منہ چپکائے ایک ڈبے میں دیکھ سکتے تھے، اوپر نیچے گھومنے والی ڈولیاں اور دائرے میں گھومنے والے کرسی نما جھولے۔ ساری حسرتیں پوری کر کے شام کو جب ہم واپس گھر پہنچتے تو جیب خالی ہوتی تھی اور تھکاوٹ کے مارے برا حال ہوتا تھا۔ ماں جی نے تقریباً ایک تہائی عیدی پہلے ہی اگلے روز کے لیے بچا رکھی ہوتی تھی جو اگلی صبح مل جاتی تھی۔ خواہشات کا لیول بھی تھوڑا نیچے آ چکا ہوتا تھا اور ''دوائے دل‘‘بیچنے والوں میں سے کئی ایک اپنی دکان بڑھا چکے ہوتے تھے۔ اگلے روز میدان خاصا خالی ہو چکا ہوتا تھا۔ گزشتہ روز کے مقابلے میں آدھی رقم بھی کافی ثابت ہوتی۔
عید کی نماز کے بعد ہم تینوں نے ٹٹیرا پیک کھول کر اس میں پھیونیاں ڈالیں اور ناشتہ کیا۔ کبھی میری اہلیہ اتنا اہتمام کرتی تھی کہ گھر میں واقعی لگتا تھا کہ عید ہے۔ سویّوں کی کھیر، فروٹ چاٹ، مسالے دار چنے، دہی بھلے، کباب اور کیک۔ نہ میری عید ایسی رہی جیسی میرے بچپن میں تھی اور نہ میرے بچوں کی عید ایسی رہی جیسی ان کے بچپن میں تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved