شعراء نے وقت کے بارے میں قیاس کے گھوڑے خوب دوڑائے ہیں، انہونی سی باتوں کے ذریعے سماں باندھنے کی کوشش کی ہے۔ وقت کے ٹھہر جانے کی باتیں ہمیں اردو شاعری میں بہت ملتی ہیں مگر کیا واقعی کسی نے وقت کو ٹھہرا ہوا دیکھا ہے؟ ذرا رکیے اور سوچیے۔ لیجیے، جواب سُوجھ گیا۔ جی ہاں، دنیا بھر میں تیزی سے سفر کرتا ہوا وقت پاکستان میں آکر ٹھہر سا گیا ہے۔ یہ ایسی دل خراش حقیقت ہے کہ غور کیجیے تو ذہن پل بھر میں تھک سا جاتا ہے۔ ذہن کیوں نہ تھکے؟ سوچنے کی عادت جو نہیں رہی! زندگی بسر نہیں کی جارہی، محض گزر رہی ہے۔ حالات کی روش ایسی ہے کہ ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں مگر کوئی حقیقی، جوہری فرق دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ بھی تبدیل نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے ہر چیز نے، ہر معاملے نے وقت کی دست برد سے محفوظ رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے!
دلاور فگارؔ مرحوم نے خوب کہا ہے ع
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے!
خاکسار نے 1984 ء کے اوائل سے لکھنا اور 1985ء کے اواخر سے باضابطہ لکھنا شروع کیا تھا۔ تب کی بعض تحریروں پر دوبارہ نظر پڑتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ تازگی برقرار ہے، آج بھی وہ غیر متعلق نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے آج کل ہی میں یہ سب کچھ لکھا گیا ہے۔ خاکسار کا (اور دوسرے بہت سے خاکساروں کا) اس میں کیا کمال؟ یہ تو حالات کا چمتکار ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لیتے اور لکھاریوں کے فن کو timeless بنائے ہوئے ہیں!
حالات کے جبر اور ستم کا رونا رونے والوں سے پوچھیے کہ حالات کی اِس سے بڑھ کر ''مہربانی‘‘ کیا ہوگی کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور بہت سے لکھنے والوں کے فن کو حیاتِ جاوید عطا کرتے رہتے ہیں! کسی نے پاکستان کو پچیس تیس سال پہلے دیکھا ہو تو محض تعمیرات کی حد تک تبدیلیاں پائے گا۔ باقی رہے رویّے اور طرزِ بود و باش تو جناب! ان میں کوئی بھی تبدیلی کاہے کو آنے لگی۔ پرنالے وہیں بہہ رہے ہیں جہاں بہتے رہے ہیں۔
ویسے تو خیر ملک میں ''زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ ٹائپ کے حالات نے دھونی رما رکھی ہے، آلتی پالتی مار کے ایسے بیٹھے ہیں کہ اٹھنا تو درکار کنار ہلنے کا بھی نام نہیں لیتے۔ گویا کوئی سانپ ہے کہ کنڈلی مار کے بیٹھا ہے مگر کراچی اس معاملے میں بھی ایک یگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ حالات کی روش ایسی ہے کہ بہت سے معاملات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہوئے بھی مماثل دکھائی دیتے ہیں۔ گویا ع
جس طرف آنکھ اٹھاؤں، تیری تصویراں ہے!
کئی زمانے اس بے مثال شہر میں مثال کی صورت ٹھہر گئے ہیں۔ معاملات نے ایسی پیچیدہ شکل اختیار کی ہے کہ ذہن سوچ سوچ کر ناکارہ ہوگئے ہیں۔ ذہن تو ویسے بھی کون سے زیادہ کام کے تھے مگر کراچی کو دعا دیجیے کہ انہیں فی الواقع عضوِ معطّل بناکر رکھ دیا ہے!
بہت سے لوگ امریکہ، یورپ یا جاپان وغیرہ جاکر ''سلپ‘‘ ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طور شاہ سائیں یعنی سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زبان بھی طویل العمری اور ''ضعیف البدنی‘‘ کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے پھسل پھسل جاتی ہے۔ کراچی ایسی ظالم نگری ہے کہ جب بھی اس کا ذکر زبان پر ہوتا ہے، شاہ سائیں ان تھوڑے بہت حواس میں بھی نہیں رہتے جو قدرت کی مہربانی سے ان کے پاس رہ گئے ہیں! دس بارہ دن قبل انہوں نے کراچی کی آبادی کے بارے میں غُچّہ کھایا تھا۔ عروس البلاد کی آبادی کبھی بیس کروڑ بتائی، کبھی بائیس کروڑ۔ تین چار کوششوں اور رفقائے کار کی طرف سے تصحیح کے بعد وہ دو کروڑ پر آئے! اس کے کچھ دن بعد ایک پریس کانفرنس میں شاہ سائیں کی زبان پھر پھسل گئی۔ اِس بار انہوں نے اعداد و شمار کے الٹ پھیر میں پڑنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس مرحلے کو skip کرتے ہوئے انہوں نے ایک جملے میں بات نمٹادی۔ یہ کہ ''کراچی میں امن و امان کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے۔‘‘
امن و امان کا مسئلہ نہ ہوا، محبت کی داستان ہوگئی کہ سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے! ہمیں بھارتی فلم ''جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘‘ کے لیے گایا ہوا محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا گانا ''سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا ...‘‘ یاد آگیا۔ کراچی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورت حال نے حواس کو مختل اور ذہنوں کو بے حواس کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی نے کہا ہے ع
پاؤں رکھتا ہوں اور کہیں پڑتا ہے
یہی حال شاہ سائیں اور ان کی عمر کے دوسرے بہت سے احباب کا ہے۔ حالات اور کراچی کا ذکر ہو تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جنتر منتر کی کیفیت کس طور بیان کی جائے، اس بھول بھلیّاں میں کس طور داخل ہوں اور کس طرح باہر آئیں! غالبؔ نے شاید کراچی کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہی شب ہائے ہجر کو یوں خراجِ سخن پیش کیا تھا ؎
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں!
سچ ہی تو ہے۔ جس مایا نگری میں ہر طرف دھوکا ہی دھوکا ہو، جس طلسم کدے میں قدم قدم پر معاملات کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہوں اس کی حقیقت کوئی بیان کرے تو کیسے؟ اور سمجھائے تو کس طور؟ اور سمجھائے تو تب کہ جب کچھ سمجھ میں آئے!
نائن زیرو سے گریزاں شاہ سائیں خیر سے اب 90 برس کے ہوا چاہتے ہیں۔ ان کی زبان کا پھسلنا تو سمجھ میں آتا ہے اس لیے ان پر تنقید چہ معنی دارد۔ یہاں تو جوانوں کا حال یہ ہے کہ کراچی کے حیرت کدے میں گم ہیں اور حواس میں واپس آنے کو تیار نہیں۔ ہم ان جوانوں کی بات کر رہے ہیں جو کراچی کے حیرت کدے کو ''زر کدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس سے خوب کشید کرتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ حساب کتاب کی باتیں ہونے لگی ہیں تو دوڑیں لگ گئی ہیں۔ کوئی یورپ کے لیے رختِ سفر باندھ رہا ہے تو کوئی امریکہ کے لیے۔ کسی نے دبئی اور دیگر قریبی محفوظ جنتوں میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔
کراچی پورے ملک کے لیے دودھ دینے والی گائے ہے مگر کچھ لوگ اس کی پیداوار کو شیرِ مادر سمجھ کر پینے، بلکہ ڈکارنے پر تُلے رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حالاتِ حاضرہ سے متعلق دلاور فگارؔ مرحوم کی شکایت رفع کردی جائے!
معیشت کی شہ رگ کو چوروں، اُچکوں اور کرائے کے قاتلوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ کراچی میں امن و امان کے مسئلے کو اگر شاہ سائیں نے صدیوں پرانا بتایا ہے تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ معاملہ اِتنا بگڑ چکا ہے کہ صدیوں پرانا ہی لگتا ہے! شاہ سائیں کراچی کو آج سے نہیں جانتے بلکہ یہ شہر ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ وہ شاید اپنی عمر کی روشنی میں کراچی کے مسئلے کو صدیوں پرانا کہہ گئے ہوں گے۔ اور اگر انہوں نے یہ محض تفنّنِ طبع کے طور پر کہا ہے تب بھی اس بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ عمر کے اس مرحلے میں بھی ان کی حِسِِ مزاح زندہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان میں ابھی ایک اہم حِس تو زندہ اور فعال ہے!
یہ تو ہوئی تفنّنِ طبع کی بات۔ وقت کا تقاضا سنجیدگی ہے۔ شہرِ قائد چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوا جائے تاکہ وہ محض تمسخر کا نشانہ نہ بنتا رہے بلکہ کچھ بن کر دکھانے کی پوزیشن میں بھی آئے۔ جو لوگ کراچی کو باپ کی جاگیر سمجھ کر دبا بیٹھے ہیں اور اس شہر کے وسائل کو شیرِ مادر کی طرح اپنی ہوس کے حلق میں انڈیلے جارہے ہیں ان کے گلے دبوچنے کا وقت آچکا ہے۔ اس کام میں جتنی تاخیر ہوگی خرابیاں اتنی ہی بڑھتی جائیں گی۔ اور ایسی صورت میں شاہ سائیں یا دلاور فگارؔ کا کہا درست ثابت ہوتا رہے گا!