صرف تین دنوں میں موت کے جبڑوں نے کراچی کے تین ہزار سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ یہ وہ قیامت کا سماں تھا جس کا کراچی سے دور بیٹھے لوگ اندازہ نہیں کر سکیں گے۔ ہر طرف کہرام مچا تھا۔ جدھر دیکھو انسانی لاشوں کے ڈھیر ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ لاشیں وہ تھیں جو کیمرے کی آنکھ سے دیکھی جا رہی تھیں لیکن کیمرے کی آنکھ سے دور کراچی کی ہر گلی اور ہر محلے میں انسانی لاشیں گور وکفن کے انتظار میں برف کے بلاکوں کے درمیان رکھی تھیں۔ زمین کی تہہ میں جانے کیلئے کئی کئی گھنٹوں سے انتظار میں پڑی تھیں ۔ ملک کی ہر صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک ہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟ لوڈ شیڈنگ پہلے بھی تھی، گرمی کا بھونچال کراچی میں پہلے بھی آیا کرتا تھا لیکن یہ اچانک سانس لینے میںاس قدر دشواری کیوں ہونے لگی ؟ مرکز اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے اس کی تحقیق اور تین ہزار سے زائد ہلاکتوں کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کر دی، جس نے ان اموات کے بارے میں بارہ جولائی کو اپنی تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اس قیامت صغریٰ کی اصل وجہ بھارتی علاقے راجستھان میں لگائے گئے کوئلے کے پاور پلانٹس ہیں ۔ کراچی کی ہلاکتوں کا سبب جاننے کیلئے قائم کی گئی کمیٹی میں محکمہ موسمیات، صحت، پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے، ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن اور دیگر محکموں کے نمائندے شامل تھے جنہوں نے اپنی بے لاگ اور تحقیقی رپورٹ حکومت کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ راجستھان میں گرال کے
مقام پر کول پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی حرارت نے کراچی کے شہریوں کو ہزاروں کی تعداد میں موت کی نیند سلادیا ہے۔ اس کول پاور پلانٹ سے جو سندھ سے چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر راجستھان میں بجلی پیدا کر رہا ہے، نکلنے والے دھویں کا رخ سندھ کی جانب ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا جس سے یہ اموات ہوئیں۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ کراچی اور سندھ میں سبزہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کول پاور پلانٹس یہاں کی فضا میں آکسیجن کی کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ رپورٹ میں حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ اگر جلد ہی اس مسئلہ کو سفارتی سطح پر بھارت کے ساتھ نہ اٹھایا گیا تو گزرنے والے ہر دن کے ساتھ کراچی اور سندھ میں مشکلات بڑھتی جائیں گی۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چند سالوں سے تھر اورارد گرد کے علا قوں میں مور کی جو نسل تباہ ہو رہی ہے اس کی اصل وجہ بھی ملحقہ بھارتی راجستھان کے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس ہی ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والا پتھروں کا زہریلا کوئلہ اور اس کے جلنے سے اٹھنے والی حرارت اور گیسیں ان نایاب پرندوں کی ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہیں۔ کراچی میں سانس بند کرنے والی گرمی کی حالیہ لہر سے ہونے والی سینکڑوں اموات کے بارے میں جاری کی گئی یہ تحقیقی رپورٹ جہاں سب کیلئے چونکا دینے والی ہے وہاں یہ سوچنے پر بھی مجبور کر رہی
ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے اسی طرح کے پتھریلے کوئلے کا پاور پلانٹ پنجاب حکومت ساہیوال اور لاہور کی بی آر بی نہر کے کنارے لگانے جا رہی ہے۔ لاہور کے جلو موڑ کے پاس بی آر بی کے کنارے لگائے جانے والے کوئلے کے مجوزہ پاور پلانٹ کے خلاف کچھ لوگوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے، لیکن ساہیوال کے کول پاور پلانٹ پر کام جاری ہے۔ حکومت کے سات سے زائد محکموں کی جانب سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے بعد سب سے پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ راجستھان کے ضلع بارمر کی تحصیل گرال کے قریب واقع گائوں تھمبلی میں فائرڈ کول سے کام کرنے والے یہ دو پاور پلانٹ 235 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ساہیوال میں قادر آباد کے مقام پر تعمیر کئے جانے والے فائرڈ کول کے دو پاور پلانٹوں میں سے ہر ایک 1320 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اگر دو تین
سو کلومیٹر دور راجستھان میں چلنے والے کوئلہ کی حرارت سے کراچی میں تین ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بن سکتے ہیں تو قادر آباد ساہیوال میں بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال میں آنے والے کوئلے کی مقدار کا تناسب تو اس سے6 گنا زیا دہ ہو گا ۔اس کے علاوہ ساہیوال اور اس کے ارد گرد اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر اور سمندری گوجرہ کی زمینیں سب سے زیا دہ زر خیز سمجھی جا تی ہیں؟ اگر راجستھان کی بات کریں تو بھارت نے صورت گڑھ، رام گڑھ، تھمبالی، کوٹہ، گرھا، دھول پور اور باران میں سولربجلی گھر، اٹامک سمیت کوئلے اور تھرمل بجلی گھروں کی بھر مار کر دی ہے۔ اس سلسلے میں بھارت بھر میں پھیلے ہوئے کول پاور پلانٹس سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ورلڈ بینک کے ماہرین ماحولیات نے امیت بھنڈاری کی وساطت سے یکم جون کو ایک خوفناک رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ''انڈین کول فائرڈ پلانٹس کی وجہ سے اب تک1,15000 بھارتی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔امیت بھنڈاری کے مطا بق اسی طرح کی ایک رپورٹ ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے بھی بھارت کے کول پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی ما حولیاتی پیچیدگیوں کے بارے میں تیار کی ہے۔
کیا ساہیوال میں کول پاور پلانٹ لگانے کیلئے محکمہ ماحولیات سے اس کی باقاعدہ اجا زت حاصل کر لی گئی ہے؟ اطلاع کے مطابق محکمہ ماحولیات سے ساہیوال کے اس کول پاور پلانٹ کیلئے اجازت نامہ حاصل نہیں کیا گیا اور اگر کسی وقت یہ اجا زت نامہ حاصل کر بھی لیا جاتا ہے تو پنجاب حکومت کے محکمہ ماحولیات کا جاری کردہ اجا زت نامہ پبلک کرنا ہو گا تاکہ ماہرین اور علاقے کے لوگ اس پر اپنا کوئی بھی اعتراض کر سکیں اور اس کے خلاف اپیل دائر کر سکیں۔ پنجاب میں اس سلسلے میں واپڈا کی طرز پر بجلی اور انرجی کا پی پی ڈی سی ایل کے نام سے ایک علیحدہ بورڈ قائم کیا گیا ہے جو اس کول پاور پلانٹ پر کام کی رفتار کا جائزہ لے گا۔ جو حیران کن معلومات مل رہی ہیں ان کے مطا بق اس کول پاور پلانٹ کیلئے تھر کا کوئلہ استعمال نہیں ہو گا بلکہ یہ ''امپورٹ‘‘ کیا جائے گا ۔اس کوئلے کی سپلائی کا ٹھیکہ کس کو دیا جا رہا ہے ، اس کا جلد پتہ چلنے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بجلی اس وقت پاکستان کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے اور پاکستان میں تو ہر حکومت کیلئے اگر کوئی درد سر کہہ لیںتو وہ اسی بجلی کے ایک کوزے میں بند ہے ۔حکمران جماعت کی کوشش ہے کہ اگلے دو سالوں میں بجلی کی کمی پر اس حد تک قابو پالیا جائے کہ شہروں میں دو یا تین گھنٹے اور دیہات میںپانچ سے سات گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ رہ جائے، لیکن یہ سودا انسانی جانوں اور ان کی غذائی ضررویات کی قیمت پر کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہئے ۔یہ امر ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کوئلے کے زہریلے دھویں اور اس سے اٹھنے والی قیامت کی حرارت سے انسانی جانوں کے ساتھ مال مویشی اور دوسرے جانداروں کی خوراک بھی متا ثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ بنی نوع انسان کی زندگیوں سے کھیل کر حاصل کی جانے والی بجلی کسی بھی طور پر نہ قبول نہیں جا سکتی اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اس کی اجا زت دے سکتا ہے!!