تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-07-2015

گراں گوشیوں نے مار دیا

حکمران بہت گراں گوش ہو گئے۔ ان کی کھالیں بہت موٹی ہو گئیں۔ اتنی اور اس قدر ڈھٹائی؟ خطرہ ہے کہ حادثہ ہو جائے گا۔ 
دو چیزوں کو ہم خلط ملط کرتے رہے۔ ایک مہاجروں کی شکایات اور ان کے حقوق ہیں، انسانوں کے کسی بھی دوسرے گروہ کی طرح جو مقدس ہیں۔ دوسری نفرت کی شدت میں بنائی گئی ایم کیو ایم کی حکمتِ عملی ہے۔ بھارت کے ساتھ مراسم اور بھتہ خوری کے علاوہ فہیم کمانڈو، اجمل پہاڑی اور صولت مرزا ایسے کردار ہیں۔ فاروق ستار کیسی ہی تاویل کریں، حقیقت یہ ہے کہ 1995ء ہو یا 2015ء، دہشت گردی کے خلاف جب بھی سخت کارروائی ہوئی، امن قائم ہو گیا۔ 
سب جانتے ہیں کہ رینجرز کی یلغار فقط ایم کیو ایم کے خلاف نہیں۔ دو ماہ پہلے تک ستّر فیصد چھاپے پیپلز امن کمیٹی والوں پر مارے گئے۔ لیاری میں 200 سفاک قاتلوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ طالبان ہدف تھے اور مذہبی فرقہ پرست۔ پیپلز امن کمیٹی والے دھرنا دے سکتے ہیں اور نہ طالبان۔ پریس کانفرنس نہیں کر سکتے۔ ان کے لیڈر ٹی وی مذاکروں میں مدعو نہیںکیے جاتے۔ ان میں سے کسی کا میڈیا سیل ہے اور نہ الطاف حسین ایسا کوئی لیڈر۔ وہ ہنگامہ برپا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔
مکرّر عرض ہے، متحدہ کی غلط ترجیحات اور اندازِ کار کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مہاجروں کے حقوق اور ان کی امنگوں کو پامال کیا جائے۔ دوسری طرف عسکری قیادت اور وفاقی حکومت، میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام آدمی اگر محسوس کرے کہ ملک خطرے میں ہے تو اس کا ردّعمل کیا ہو گا۔ حب الوطنی ایک طوفانی جذبہ ہے، جس پہ بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے رہنما پوری قوم کو نظر انداز کر کے فقط اپنے حامیوں کی بات کرتے ہیں‘ تو وہ تاریخ کی تشکیل کرنے والی سب سے بڑی حقیقت کو بھلا دیتے ہیں۔ پوری قوم کے مقابل وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ خود شکنی کا نسخہ ہے۔ صرف وہی کیا، کتنے ہی گروہ جس میں مبتلا ہیں۔ اجتماعی حیات کا کوئی سلیقہ ہم میں نہیں۔
بار بار دہرایا جاتا ہے اور بار بار مبصرینِ کرام بھول جاتے ہیں کہ بنیادی المیہ حکمرانوں کا احمقانہ بلکہ مجرمانہ اندازِ فکر ہے۔ انہیں پروا ہی نہیں کہ اقتدار ایک امانت ہے۔ لوٹ مار اگر عام ہو۔ اگر لانچوں میں روپیہ بھر کے لے جایا جائے۔ تہہ خانوں سے اربوں روپے اگر برآمد ہوں۔ اگر خود حکمران بھتہ خوری کے لیے گروہ بنائیں؟ اگر وزیرِ اعظم اور اس کا خاندان سمندر پار سرمایہ منتقل کرتا رہے۔ اگر ملک کا وزیرِ خزانہ ایک ایسا شخص ہو‘ جو برسرِ عدالت منی لانـڈرنگ کی خدمات مہیا کرنے کا اعتراف کر چکا ہو؟ بڑے کاروباری اگر زیادہ سے زیادہ ایک تہائی ٹیکس ادا کریں اور سارا بوجھ عام آدمی پر ڈال دیا جائے؟ خوشنما اعلانات کے برعکس، اگر کارندہ پولیس کو جوں کا توں رکھنے کا عزم ہو۔ اگر عدالتیں پچاس پچاس برس تک مقدمات گھسیٹتی رہیں۔ اگر پٹوار کا مطلب ہی رشوت خوری ہو۔ ہر سائل سرکاری دفتر سے اگر خوفزدہ ہو؟ سرکاری مناصب پر تقرر کی بنیاد اگر ذاتی مفاد کے سوا کچھ نہ ہو؟ وزیرِ اعظم اگر اپنے ذاتی کاروبار کے لیے 
اولاد کے ہمراہ بیرونِ ملک سرکاری دورے کریں؛ حتیٰ کہ دشمن ملک میں صنعت کاروں سے گھل مل جائیں؟
تاریخی تجربہ یہ ہے کہ کاروبارِ حکومت کے استوار رہنے کا انحصار احتساب پر ہوتا ہے۔ اگر ایک وزیرِ اعظم سونے کا ایک ہار چرا لے جائے اور اعتراف کے باوجود سزا کے خو ف سے بے نیاز ہو؟ اگر چند ہفتوں میں دسیوں ارب روپے ضائع کر دینے والا ایک دوسرا وزیرِ اعظم دندناتا پھر ے؟ اگر انسدادِ دہشت گردی کے آلات میں رشوت ستانی کا مرتکب سابق وزیرِداخلہ رنگ برنگی ٹائیوں کی نمائش کرتا پھرے؟
صبح سویرے مسرّت بیگم نے پیغام دیا کہ چترال میں سیلاب سے پہنچنے والا نقصان درحقیقت بہت زیادہ ہے۔ تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر وہ قومی اسمبلی کی رکن ہیں اور ان کا تعلق سوات کے شاہی خاندان سے ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے ایم این اے افتخارالدین سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ جناب افتخار نے جو کچھ بتایا، وہ لرزا دینے والا تھا۔ گلیشیئر پگھلنے سے، جس کی پیش گوئی نہ کی جا سکی، مرکزی شہر میں پانی کی فراہمی کا نظام تباہ ہو چکا۔ پختون خوا کے 22 فیصد رقبے کو محیط چھوٹی بڑی وادیوں میں 6 بڑے اور درجنوں چھوٹے پل تباہ ہو گئے۔ آبادیاں ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئیں۔ اندیشہ ہے کہ آبپاشی کا نظام برباد ہونے سے فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ ہزاروں لوگ زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ پچھلے سیلاب میں پختون خوا کے وزیرِ اعلیٰ نے جو وعدے کیے تھے، وہ بھلا دیے گئے۔ فقط دس فیصد فنڈز ہی جاری ہو سکے۔ بعد ازاں باقی سرمایہ دوسرے منصوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا: کپتان نے اپنے عہد کا پاس کیا اور نہ مرکزی حکومت کو برباد ہونے والوں کی فکر ہے۔ ''چترال ایک دور دراز مقام ہے‘‘ مضطرب آدمی نے کہا: ''کوئی دوسرا حادثہ برپا ہو گا اور چترالی بھلا دیے جائیں گے‘‘۔
زندگی اسی طرح روتی، سسکتی اور فریاد کرتی رہے گی؟ فوری طور پر یہی سوجھا کہ اپنے دفتر کو چوکنا کروں۔ ٹی وی پر مصیبت زدوں کا حال بلند آواز سے بار بار سنایا جائے۔ پھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو پیغام بھیجا کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کی مدد سے مجروح خطے کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ کپتان سے بھی تقاضا کیا جا سکتا ہے لیکن مرکزی حکومت میں وہ کون ہے، جس سے گزارش کی جائے۔ 
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اپنے ہم نفس آصف زرداری کی طرح وزیرِ اعظم بیرونِ ملک براجمان رہے۔ کاروبارِ حکومت معمول کے نظم و نسق کا نام ہے۔ سرخ سگنل کوئی عبور نہ کر سکے کہ ٹریفک رواں رہے۔ پولیس، سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں نظامِ عدل کا نام ہے۔ حکمرانوں کے سوا یہ بات سبھی کو معلوم ہے۔ اس قدر سفاکی اور بے نیازی ان میں ہے۔ اٹھارہ کروڑ کا ملک کجا، ایسی غیر ذمہ داری کے ساتھ تو کریانے کی ایک دکان چلائی نہیں جا سکتی۔
سیلاب ہر برس آتے ہیں اور ہر بار وہی بے حسی۔ نواز شریف دورے پر دورہ کریں گے۔ خاک نشینوں کے ساتھ تصاویر اتروائیں گے۔ افتادگانِ خاک کی حمایت میں لچھے دار تقاریر کریں گے۔ چھوٹے میاں صاحب لانگ شوز چڑھائے پانی میں گھس جائیں گے۔ وہ منصوبے پر منصوبے کا اعلان کریں گے، ٹی وی اور اخبارات میں جن کی تشہیر پر کروڑوں روپے لٹائے جائیں گے۔ کچھ افسروں کو وہ معطل فرما دیں گے۔ تباہی کی روک تھام کا مستقل انتظام مگر نہ ہو گا۔ یہ ان کا دردِ سر ہی نہیں۔ ان کا دردِ سر میٹرو بس ہے، دانش سکول ہے، پل ہیں اور چمکتی دمکتی موٹر ویز، جو تاریخ میں یاد رکھی جائیں۔ نہایت رنج کے ساتھ میں نے سوچا: سیلاب سے صرف لاڑکانہ میں اس قدر نقصان ہوتا ہے کہ اتنا روپیہ اگر سدّباب پہ صرف کیا جائے تو پورا ملک محفوظ ہو جائے۔ 
ہر سال خلقِ خدا برباد ہوتی ہے۔ ہر سال وعدوں اور تصویروں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک پامال سا شعر یہ ہے: 'ظلم رہے اور امن بھی ہو‘ 'کیا ممکن ہے، تم ہی کہو‘ حکمران بہت گراں گوش ہو گئے۔ ان کی کھالیں بہت موٹی ہو گئیں۔ اتنی اور اس قدر ڈھٹائی؟ خطرہ ہے کہ حادثہ ہو جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved