تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     22-07-2015

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم میں

پاکستان نے شنگھائی تنظیم کی فل ممبر شپ کے لیے 2007ء میں اپلائی کیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ پاکستان اور بھارت کو ممبر شپ ایک ساتھ دی جائے گی۔ بھارت نے فل ممبر شپ کے لیے درخواست 2014ء میں دی تھی، جب 10 جولائی کو روس کے شہر اوفا میں برصغیر کے دونوں اہم ممالک ایک ساتھ ممبر بنے تو روسی لیڈر پیوٹن کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے ایس سی او اہم عالمی تنظیم بن گئی ہے اور یہ یک قطبی (Unipolar) دنیا کا اختتام ہے، مغرب کی بالادستی ختم ہو رہی ہے، اب عالمی معاملات میں ایس سی او کی رائے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
صدر پیوٹن کی رائے بڑی حد تک درست بھی ہے کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی اب ایس سی او ممالک میں رہتی ہے۔ اس کے موجودہ ممبران میں 4 نیو کلیئر پاورز ہیں۔ دنیا کا 22 فیصد تیل اس خطے میں ہے اور عالمی گیس کے 45 فیصد ذخائر ممبر ملکوں میں ہیں۔ تنظیم کے 2 ممبر ملک یعنی چین اور روس سلامتی کونسل کے دائمی رکن ہیں۔ اس تنظیم کے قد کاٹھ میں یقینا بہت اضافہ ہوا ہے۔ مجھے 10 جولائی کو ہی روسی سیٹلائٹ چینل رشیا ٹو ڈے کی عربی سروس کا ماسکو سے فون آیا کہ آج کا دن انڈیا، پاکستان اور شنگھائی تنظیم تینوں کے لیے اہم ہے، لہٰذا ہم آج شام اسی حوالے سے خصوصی پروگرام کر رہے ہیں، آپ بھی اس میں شریک ہوں تو ہمیں خوشی ہو گی۔ میں اہلاً و سہلاً کہہ کر سٹوڈیو کی جانب روانہ ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ عربی سروس مڈل ایسٹ کے سامعین سے مخاطب تھی۔ پروگرام کے شروع میں اینکر نے تمہیدی جملوں میں یہ کہا کہ امریکہ نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مڈل ایسٹ کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ عراق، شام اور لیبیا اب پہچانے نہیں جاتے، لہٰذا امریکہ کو اس بات کی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اکیلا دنیا کی تقدیر کے فیصلے کرے۔ شنگھائی تنظیم برائے تعاون دنیا میں طاقت کے بگڑے ہوئے توازن کو درست کرے گی اور امن اور سکیورٹی میں اضافہ کرے گی۔
مجھ سے پہلا سوال جو کیا گیا، وہ رسمی سا تھا کہ پاکستان آج کی تازہ ڈویلپمنٹ کو کیسے دیکھتا ہے۔ میرا جواب بھی سفارتکاروں والا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ امر خوشی کا باعث ہے کہ ہماری علاقائی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دوسرا سوال ذرا ٹیڑھا تھا کہ کیا پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات اس تنظیم پر منفی اثرات تو نہیں ڈالیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ اس تنظیم میں دو طرفہ تنازعات پر بحث ہی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی اینکر نے یہ کہہ کر میرا کام آسان کر دیا کہ صدر پیوٹن سے جب یہی سوال کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہمارا فورم پاکستان اور بھارت کے باہمی تنائو کو کم بھی تو کر سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے صدر پیوٹن کی رائے سے مکمل اتفاق ہے اور اوفا میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات اس امر کا واضح ثبوت ہے۔ ہماری حکومت نے ایس سی او کی ممبر شپ کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کا عالمی امور میں کیا رول ہو سکتا ہے، اس کا سرسری 
جائزہ ہی ممکن ہے کہ کالم کو اپنی تنگئی دامان کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ پاکستان کی فارن پالیسی اس وقت ایک انگڑائی لے رہی ہے۔ امریکہ افغانستان سے جلد یا بدیر چلا جائے گا ویسے بھی اس کی نگاہِ کرم ایک عشرے سے بھارت کی طرف زیادہ ہے اور یہ محبت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال کا تقاضا تھا کہ ہم متبادل دوست ڈھونڈیں۔ ذہنی طور پر یہ فیصلہ ہم نے چند سال پہلے کر لیا تھا مگر انتہا پسندی کے خلاف ہماری دو ٹوک پالیسی نے دنیا کو پاکستان کے بارے میں نیا تصور دیا ہے۔ پہلے اکثر ممالک کا خیال تھا کہ پاکستان دہرا رول ادا کر رہا ہے یعنی ہیرو والا بھی اور ولن والا بھی، لیکن اب یہ تاثر خاصی حد تک زائل ہو گیا ہے۔ شنگھائی تنظیم میں ہماری فل ممبر شپ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب عالمی دھارے میں پھر شامل ہو گیا ہے۔
بعض مبصرین کی یہ رائے ہے کہ ایس سی او نیٹو کے مقابلے کی تنظیم بنے گی یا یورپی یونین کے نقش قدم پر چل کر اقتصادی تعاون کے فروغ کا ذریعہ بنے گی۔ اگر آپ میری فرینک رائے پوچھتے ہیں تو مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں۔ نیٹو ایک عالمی فوجی تنظیم ہے۔ عالمی فوجی تنظیم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ممبر ممالک کے اہداف ایک ہوں۔ اب بھلا انڈیا اور پاکستان کے اہداف ایک ہو سکتے ہیں؟ کیا انڈیا اور چائنا کے فوجی مقاصد یکسو ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا مجھے تو ایس سی او میں نیٹو جیسا فوجی بلاک بننے کا امکان دور دور نظر نہیں آتا۔ کسی کو خوش فہمی ہے تو رہے، اب رہی یورپی یونین کی بات تو وہ ایک اقتصادی بلاک ہے۔ کامن مارکیٹ ہے۔ ممبر ممالک کے لوگ بلا روک ٹوک دوسرے ممبر ممالک میں جا سکتے ہیں، وہاں کام بھی کر سکتے ہیں۔ لیبر اور سرمایہ کی حدود پوری مارکیٹ تک ہیں۔ تجارتی سامان کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں انڈیا اور پاکستان کے بارڈر شہریوں اور تجارتی سامان کے لیے مکمل طور پر سو فٹ ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا ایس سی او میں نہ نیٹو بننے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی یورپی یونین بننے کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی شنگھائی تنظیم کے اہداف کیا ہوں گے اور ممکن تعاون کی شکل کیا ہو گی؟ اگرچہ داعش کا مل کر مقابلہ کرنے کی بات اوفا میں ضرور ہوئی لیکن میرا خیال ہے کہ ایس سی او کا فوکس افغانستان اور سنٹرل ایشیا پر رہے گا۔ اس خطے میں اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے امن اور سکیورٹی از حد اہم ہیں۔ سنٹرل ایشیا سے انڈیا تک گیس پائپ لائن پُرامن افغانستان کے بغیر ممکن نہیں اور یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔ تجارت اور صنعت کا فروغ ہو گا تو انتہا پسندی کم ہو گی لوگوں کو روزگار ملے گا۔
اس خطے کا دوسرا بڑا مسئلہ نارکوٹکس کی پیداوار اور سمگلنگ ہے۔ روس، یورپ اور امریکہ تک منشیات یہاں سے جاتی ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ کو روکنے اور دہشت گردوں کا مل کر مقابلہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کا آپس میں تعاون ضروری ہے۔ جب تجارت فروغ پاتی ہے تو لوگ خود معتدل سوچ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تجارت خوش حالی لاتی ہے۔ انڈیا اور چائنا کے تعلقات تجارت کے فروغ سے بہتر ہوئے ہیں۔ شاید ایس سی او کے طفیل انڈیا اور پاکستان اسی نہج پر چل پڑیں۔ آج کل گلوبل ولیج میں کوئی ملک تنہا نہیں رہ سکتا۔ علاقائی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔ آسیان اور نافٹا (NAFTA) کے ممبر ممالک علاقائی تعاون سے مستفید ہوئے ہیں۔ نیو کلیئر معاہدہ ہو جانے کی صورت میں ایران بھی ایس سی او کا فل ممبر بن جائے گا۔ اس صورت میں اس تنظیم کا قد کاٹھ مزید بڑھ جائے گا۔
پاکستان کا یہ صائب فیصلہ ہے کہ سات سمندر پار کے ممالک سے دوستی اور تعاون سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنے خطے کے ممالک سے تعاون بڑھایا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نارتھ امریکہ اور یورپ کو نظر انداز کر دیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک جنگ، افغانستان میں نیو ٹرل مگر مثبت رول اور پاک چائنا راہداری کے حوالے سے پاکستان کو مستقبل کے اہم ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایس سی او کی فل ممبر شپ ہماری ترقی اور امن کا زینہ بن سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved