تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-07-2015

پہلے کتا نکالیے!

سَر پر سورج ہی ستم ڈھانے پر نہیں تلا ہوا بلکہ سیاسی صورت حال بھی بہت کچھ جلا ڈالنے پر بضد ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کان مروڑنے سے ایک قدم آگے جاکر اب پیچ کسنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ 
مبینہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کے آغاز نے صورت حال کو انتہائی دھماکا خیز بنادیا ہے۔ پیپلز پارٹی زیادہ پریشان ہے۔ کیوں نہ ہو؟ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں نے جنہیں آگے کر رکھا تھا ان میں سے بیشتر دھر لیے گئے ہیں اور جنہیں دھر لیا جاتا ہے وہ کوئی گونگے تو ہوتے نہیں کہ بول ہی نہ پائیں۔ دو چار سخت ہاتھ پڑتے ہیں تو زبان کھل جاتی ہے اور جب وہ بولنے پر آتے ہیں تو سبھی کچھ بیان کر بیٹھتے ہیں کیونکہ خاموش رہنے کی صورت میں اپنی گردن پھنس رہی ہوتی ہے۔ کون ہے جو خاموش رہ کر اپنی گردن پھنسائے اور دوسروں کو بچ نکلنے کا موقع فراہم کرے؟ بہت سے بڑوں کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والے ایک مدت تک قابل رشک حد تک پُرتعیش زندگی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں مگر جب احتساب کا شکنجہ کسا جاتا ہے تو وہ اپنی گردن بچانے کے لیے زبان ہلانے سے گریز نہیں کرتے۔ آپ اگر اسے بے وفائی کہیں گے تو ان لوگوں کے اعمال کو کیا کہیں گے جن کے لیے یہ لوگ بہت کچھ الٹا سیدھا کر رہے ہوتے ہیں! برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ برائی میں ساجھے دار بننے والے وقت پڑنے پر ایک دوسرے کو پہچاننے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر انسان مبتلائے حیرت ہو۔ 
پیپلز پارٹی کی وکٹیں تیزی سے گرتی جارہی ہیں۔ صمصام بخاری گئے تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی نکلنے کے لیے پَر تولنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں سرجری کی ضرورت ہو وہاں ہومیوپیتھی کی گولیاں کام نہیں آتیں۔ اور یہ کہ وہ ڈاکٹر ہیں اس لیے انہیں معلوم ہے کہ کب اور کہاں سرجری کی ضرورت ہے۔ 
گویا گھر کے بھیدی لنکا ڈھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ خیر، گھر کے بھیدی ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ لنکا ڈھائیں۔ ہماری سیاست جس ڈگر پر چلتی رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ لنکائیں بنائی اور ڈھائی جاتی رہیں گی۔ جہاں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہو وہاں کوئی کسی سے وفا کی امید کیوں رکھے گا؟ بے ایمانی کے کام میں کسی کو کسی سے ایمانداری کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔ ایسا تو فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے دھندے والے آپس میں بہت ایماندار ہوتے ہیں اور بیشتر سودے محض زبان کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یعنی فلموں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ برے دھندے والوں میں تو ایمانداری پائی جاتی ہے، عام آدمی میں ایمانداری کا فقدان ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ برائی کے ہر کام میں لوگ ایک دوسرے کا ساتھ اسی وقت تک دیتے رہتے ہیں جب تک خود ان کی گردن محفوظ رہتی ہے۔ جب اپنی جان پر بن آئے تو کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ آن کی آن میں ''ایمانداری‘‘ کے غبارے سے ساری ہوا نکل جاتی ہے! 
سرکاری زمینوں پر قبضے اور انہیں پلاٹس میں تقسیم کرکے فروخت کرنے یعنی چائنا کٹنگ کا الزام بھی سامنے آیا ہے۔ کون کس حد تک ملوث ہے یا رہا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے عین نیچے ہوتا رہا مگر جب تک ''مفاہمت‘‘ تھی تب تک پوچھ گچھ نہ تھی، احتساب نہ تھا۔ سرکاری املاک ڈکارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بہت سے مقامات پر تجاوزات اس حد تک بڑھ گئیں کہ عوام بھی مشکلات محسوس کرنے لگے۔ مگر ماحول ایسا تھا کہ کوئی کچھ بولنے کی ہمت اپنے اندر نہ پاتا تھا۔ اب احتساب کی چھڑی گھومی ہے تو بہت سی زبانوں پر پڑے ہوئے تالے بھی کھل گئے ہیں۔ جنہوں نے کرپشن کی گنگا میں اشنان کیا ہے وہ اگرچہ اب بھی احتساب کی سُولی لٹکائے جانے کی منزل سے دور ہیں مگر حالات کی روش کچھ ایسی ہے کہ ان کا نمبر آنے میں بھی شاید زیادہ دیر نہ لگے۔ فی الحال ان کی گردنیں ناپی جارہی ہیں جو فرنٹ پر تھے اور اپنے اپنے آقاؤں کے کہنے پر ''اِس کی ٹوپی اُس کے سَر، اُس کی ٹوپی اِس کے سَر‘‘ کر رہے تھے! 
ویسے تو خیر پورے ملک ہی میں اندھی مچی ہوئی ہے اور کرپشن کا بازار گرم ہے مگر سندھ کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں صرف کرپشن ہے۔ دوسرے صوبوں میں چند ایک منصوبے مکمل بھی کردیئے جاتے ہیں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف ملے مگر یہاں عالم یہ ہے کہ یار لوگ سبھی کچھ ڈکار جانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ جو سرکاری فنڈز مختص اور استعمال کرنے کا اختیار رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو کچھ بھی نہ ملے۔ کرپشن کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر محکمے میں اپنی پسند کے بندے بھرتی کردو اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں کہ آدھے سے زیادہ بجٹ تو ان کی تنخواہیں ادا کرنے ہی پر صرف ہوجائے۔ کئی محکموں اور اداروں کو اس صورت حال نے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ کراچی میں واٹر بورڈ اس کی بہت واضح مثال ہے۔ ویسے تو بلدیۂ عظمٰی کراچی کے بیشتر محکموں اور شعبوں میں غیر ضروری بھرتیاں کی جاتی رہیں مگر واٹر بورڈ کا دستور ہی نرالا رہا ہے۔ پے در پے یعنی غیر ضروری بھرتیوں نے اس ادارے کو کسی کام نہیں رہنے دیا۔ 
سندھ حکومت کے بیشتر محکموں کا یہی حال ہے۔ بلدیات اور تعلیم سمیت کئی محکمے اوور ریکروٹمنٹ کا شکار ہیں مگر اصلاح احوال پر خاطر خواہ توجہ کبھی نہیں دی گئی۔ اور سوال صرف زائد ملازمین کا بھی نہیںِ بلکہ گھوسٹ ملازمین کا ہے۔ یعنی ہزاروں ملازمین محض دستاویز میں موجود ہیں اور کچھ کئے بغیر تنخواہیں بٹور رہے ہیں یا پھر اُن کے نام پر فنڈز کی بندر بانٹ ہوتی رہی ہے۔ اب گھوسٹ ملازمین سے گلو خلاصی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ چلیے، اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ جو باضابطہ ملازمین ہیں ان سے کام لینے کا مرحلہ کب آئے گا؟ کام نہ کرنے کی عادت کیونکر چھڑائی جاسکے گی؟ 
ہر پارٹی میں طرح طرح کے کرپٹ عناصر موجود ہیں اور یہ وہ فصلی بٹیر ہیں جو ہوا کا رخ بدلتے ہی پارٹی بدلنے کا سوچنے لگتے ہیں۔ اور جو کچھ یہ سوچتے ہیں اس پر عمل میں تاخیر سے کام نہیں لیتے۔ چار سال قبل جب ''فرشتوں‘‘ نے تحریک انصاف کے مردے میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی تھی تب مختلف جماعتوں سے ''کمک‘‘ آئی تھی! ابتداء سے تحریک انصاف کا ساتھ دینے والوں نے اعتراض بھی کیا کہ موسم کی طرح بدل جانے والوں اور کرپشن کے نالے میں ڈبکیاں لگانے والوں کو قبول نہ کیا جائے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج تحریک انصاف اندرونی کشمکش سے دوچار ہے۔ اختلافات بڑھتے ہی جارہے ہیں، دراڑیں پڑتی جارہی ہیں، بدگمانیوں کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ 
شنید ہے کہ ایک اور کنگز پارٹی تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طریقہ اب بھی وہی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے لوگ لیے جائیں گے۔ بہت سے کرپٹ اور ناکارہ سیاسی عناصر اس عمل کے ذریعے آسانی سے کھپ جاتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے کچھ بھی کہیں اور کہتے رہیں، کون سنتا ہے؟ جن کی نظر ایجنڈے پر ہوتی ہے وہ تحفظات ظاہر کرنے والوں سے خود کو دور اور محفوظ رکھتے ہیں! 
تقریباً ہر سیاسی جماعت کو اس وقت تطہیر اور بھل صفائی کی ضرورت ہے۔ مگر یہ عمل پوری ایمانداری سے ہونا چاہیے۔ اگر اس کام میں ریاستی ادارے بھی کوئی کردار ادا کریں تو کچھ ہرج نہیں۔ جن سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں اقتدار رہا ہے یا رہتا ہے ان کے سرکردہ عہدیداروں کی کرپشن ختم ہونی چاہیے۔ گڈ گورننس کی یہی ایک قابل عمل صورت ہے۔ مگر بھل صفائی ایسی ہو کہ اندر کوئی گند باقی نہ رہے ورنہ پانی کا بہاؤ پھر متاثر ہوگا اور ٹھہراؤ کے نتیجے میں کرپشن، نا اہلی اور بے عملی کی کائی جمتی جائے گی۔ اگر سیاست کے کنویں کو پاک کرنا مقصود ہے تو پہلے اس میں سے مرا ہوا کتا نکالنا ہوگا۔ کتا نکالنے کے بعد ہی کنویں کو پاک کرنا ممکن ہوسکے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved