جس قدر رو رو کر دعائیں ہمارے ہاں مانگی جاتی ہیں اس کی نظیر غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں نہ مل سکے گی۔ لیکن ہمارے لوگوں کے عمل کا پرنالہ وہیں گرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہمارا عمل کیا ہے؟ ہم ہر کم ترشے کو بہتر پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے خاندان کے مفاد کی بات آ جائے تو ہم برادری کے مفاد کو قربان کر دیتے ہیں اور اگر برادری کے مفاد سے اپنے مسلک کا مفاد ٹکرا جائے تو مسلک کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر ہمارا دین اور مسلک آمنے سامنے آ جائیں تو ہم لوگ مسلک کی طرف اس قدر جھک جاتے ہیں کہ دین کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
جب عمل میں اس طرح الٹی گنگا بہہ رہی ہو تو پھر جتنا مرضی رو رو کر دعائیں مانگی جائیں ان کی قبولیت کا امکان کم ہی ہو گا ۔ اس رمضان المبارک میں قومی سطح پر ہمارا جو طرزِ عمل رہا اس پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ آخر ہم کس منہ سے پروردگار سے دعائیں مانگتے ہیں۔ عوام کو دیکھیں تو بیچارے ہر پہلو سے رو دھو رہے ہوتے ہیں۔ غریب لوگوں پر رمضان المبارک ان حالات میں ایک بھاری بوجھ بن جاتا ہے۔ روزوں کی مشقت کے ساتھ اخراجات میں اضافہ جو دکھ دیتا ہے وہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ پھر عید کی تیاریاں تو غریب لوگوں کو اتنے قرض میں مبتلا کر دیتی ہیں جو بیچارے آئندہ رمضان المبارک تک قسطوں میں اتارتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو خوشحال تاجر طبقہ ہے وہ رمضان المبارک کو منافع کمانے کا ایک سیزن سمجھتا ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ حکومت کا رویہ بھی ایک طرح سے بھر پور منافقت کا اظہار ہی ہوتا ہے۔ نمائشی طور پر رمضان بازار لگا کر اپنی تصویریں چھپوائی جاتی ہیں اور اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر برس یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں بجلی کی کمی ہے‘ یہ اعلان ضرور کیا جاتا ہے کہ سحری اور افطاری میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ بندہ پوچھے کیسے نہیں ہوگی۔ جب آپ کے پاس بجلی پوری نہیں تو کہیں نہ کہیں تو لوڈشیڈنگ کرنا ہو گی‘ لیکن بیانات میں بار بار یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سحری اور افطاری کے ا وقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی‘ حالانکہ روزانہ ٹیلی وژن پر خبریں آتی ہیں کہ فلاں علاقے میں 22گھنٹوں سے اور فلا ں علاقے میں اٹھارہ گھنٹوں سے بجلی بند ہے۔
ہمارے ملک میں بربادی کی وجہ یہی ہے کہ ہماری ترجیحات بالکل الٹ ہیں اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ترجیحات کو درست کرنے کی کسی سطح پر کوئی کوشش موجود نہیں ہے۔اب دیکھیے‘ دہشت گردی کے ہاتھوں ہم لوگ کس قدر تنگ ہیں۔ اس کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ جو مارتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور جو مرتے ہیں وہ بھی مسلمان ہیں۔ تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ ترجیحات کا ہے۔
اگر مسلک کو دین پر ترجیح دی جائے گی تو پھر لامحالہ فرقے پیدا ہوں گے۔ ہمارے علما یہ تو کہتے ہیں کہ کسی دوسرے کے مذہب کو چھیڑو مت اور اپنا مذہب چھوڑ مت‘ مگر یہ نہیں بتاتے کہ جب دین اسلام ہمارے نبی پاکؐ نے مستحکم کیا تو کیا اس وقت اسلام کے اندر کوئی ایسی گنجائش موجود تھی؟ اگر اُس وقت موجود نہیں تھی تو آج علما سب مسلمانوں کو ایک دین پر متفق کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟
سب جانتے ہیں کہ مغربی دنیا کی اسلامی دنیا کے ساتھ ایک طرح سے مسلسل جنگ چل رہی ہے۔ مغرب کے پاس سب سے بڑا ہتھیار مسلمانوں کا باہمی تفرقہ ہے اور ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ جو کسی ایک گروپ میں شامل ہوتا ہے بس اسی کو درست جان کر دوسروں کو سبق سکھانے کا بیڑہ اٹھا لیتا ہے۔ہماری حالت اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ میں اکثر لوگوں کو مایوس دیکھتا ہوں‘ کیونکہ وہ بظاہر امید کھو چکے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں کبھی لوگ اپنے مسلک پر اپنے دین کو ترجیح دے کر متحد ہو پائیں گے؟ اتحاد کا راستہ تو یہی ہے۔
میں جب علامہ اقبال کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے امید کی کرن اس اعتبار سے بھی دکھائی دیتی ہے کہ اگر علامہ اقبال کی
شخصیت ہر مسلک کی ہیرو ہو سکتی ہے اور ہر مسلک کے لوگ شاعر مشرق کو اپنا سمجھ سکتے ہیں تو پھر مسلمانوں میں اتحاد ممکن ہے۔علامہ اقبال پر پروردگار کا خاص کرم معلوم ہوتا ہے کہ ہر طبقے میں ان کی پذیرائی ہے۔ ہمارے ہاں کے سنی علما سب اقبال کو اپنا کہتے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران میں علامہ اقبال کو مولوی محمد اقبال لاہوری کے طور پر جانا جاتا ہے اور ایران میں جتنی کتابیں علامہ اقبال پر شائع ہو چکی ہیں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں اقبال پر شائع ہونے والی کتابوں سے زیادہ ہے۔ ایران میں جو انقلاب آیا وہاں لوگ اس میں بھی فکر اقبال کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ہمارے بریلوی مسلک کے لوگ ہوں‘ دیو بندی یا اہل حدیث سب اقبال پر متفق ہیں‘ سب سیاسی جماعتیں اقبال کو اپنا سمجھتی ہیں۔ اور تو اور بھارت بھی علامہ اقبال کو اپنا قومی شاعر سمجھتا ہے۔ میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں کہ اگر ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے تو علامہ اقبال کی زندگی سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جو پیغام دیا اس کو اپنانا ہو گا‘ لیکن ہمارا عملی مظاہرہ اس کے بالکل الٹ دیکھنے میں آتا ہے۔
ترجیحات وہی ہیں جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی کم اہمیت کی چیزوں کو زیادہ اہمیت والی چیزوں پر مسلسل ترجیح دی جاتی ہے۔ آپ کی ذات اتنی اہم نہیں جتنا آپ کا خاندان اہم ہے‘ مگر ہم اپنے خاندان کے مقابلے میں اکثر اپنی ذات کو فوقیت دیتے ہیں۔ آپ کے خاندان کے مقابلے میں آپ کی برادری زیادہ اہم ہے‘ مگر ہم اپنی برادری کی نسبت اپنے خاندان کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ برادری کے اندر دشمنیاں‘ رقابتیں اور حسد پیدا ہوتا رہتا ہے۔آپ کی برادری کے مقابلے میں آپ کے مسلک کی اہمیت زیادہ بنتی ہے‘ بشرطیکہ آپ کا مسلک فرقہ بندی کی طرف نہیں جا رہا‘لیکن ہم برادری کے مفاد ہی کو مقدم رکھتے ہیں۔آپ کے مسلک کے مقابلے میں آپ کے دین کی اہمیت مسلمہ ہے مگر عملی طور پر ہم ہمیشہ اپنے مسلک ہی کو آگے رکھتے ہیں اور دین کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اگر یہ غلط ترجیحات کہیں موجود نہیں ہیں تو وہ ہماری مسلح افواج ہیں۔ ان کے اداروں نے جس طرح اپنے آپ کو منظم رکھا ہوا ہے اس سے ہماری قوم کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ اگر ہم علامہ اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکے تو ہمیں ابتدائی طور پر اپنی مسلح افواج سے میرٹ پر کام کرنے اور ڈسپلن کے اندر رہنے کی روش ہی سیکھ لینی چاہیے۔
اس وقت ہماری قوم کے پاس نہ تو کوئی ایسا بیانیہ موجود ہے کہ دین پر اتحاد کی صورت نکل سکے اور نہ ہی ہماری قومی زندگی میں میرٹ کی پذیرائی ہے۔ سویلین اداروں میں ڈسپلن نام کی کوئی شے موجود نہیں‘ لہٰذا ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ قومی سطح پر ہماری ترجیحات بالکل الٹی ہیں اور ان کو درست کرنے کی کوئی کوشش بھی دکھائی نہیں دیتی۔
ان حالات میں جتنا مرضی رو رو کر دعائیں کی جائیں‘ کچھ فائدہ ہونے کی توقع نہیں ہے۔