تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     23-07-2015

مک مکا

وزیراعظم کی میڈیا ٹیم ‘ٹیکنالوجی سے بہت پیچھے رہ گئی۔جب تک اخبارات تھے ‘ اخباری دفتروں میں سیف الرحمن کا ایک پیرا‘ سارا پریس ''چھاپ‘‘ دیتا تھا۔ میاں صاحب بھی خوش۔ مالکان بھی خوش۔ اخبار نویس بھی خوش اور رہ گئے اخباربین تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ جب ٹی وی چینلزآئے‘ تو انہوں نے ایک دو سال کی آزادی استعمال کر کے ڈکاریں لینا شروع کر دیں۔ لندن سے شروع ہونے والے ایک اردو چینل کو آزادی کی زیادہ ہی مستی چڑھ گئی‘ تو اس نے پنجاب کی حکومت کے خلاف تیور دکھانا شروع کر دیئے۔ حکومت کسی کی بھی ہو بہرحال وہ حکومت ہوتی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے جب دیکھا کہ ایک چینل کو پاکستان میں آزادی اظہار کا مزہ نہیں آ رہا ‘ تو اس کی آنکھیں اور لال ہو گئیں اور حکومت پنجاب نے آنکھوں کی لالی بڑھانے کے لئے دیسی نسخہ استعمال کیا۔ پولیس کے ذریعے کیبل آپریٹرز کو چینل کا نام بتا کر اظہار محبت کا پیغام بھیج دیا گیا اور پھر کیا ہوا؟ پورے پنجاب میں کیبل آپریٹرز کی سروس میں سے یہ چینل غائب کر دیا گیا۔ خود مجھے یاد ہے کہ کیبل آپریٹرز بھی خوب سٹپٹائے اور چینل کے امیرکبیر مالکان نے پہلے ٹیلیفونوں سے کام چلانے کی کوشش کی۔ کوئی لفٹ نہیں ملی۔ خودتشریف لا کر ملاقاتوں کی درخواستیں کیں۔ اس پر بھی کام نہ چلا اور آخرکار مختلف سفارشوں کے بعد ملاقات ہوئی اور نیک چلنی کی ضمانت پر''آزادی‘‘ بحال ہو گئی۔ دیسی حکومت کا دبدبہ ‘ولایتی چینل پر ایسا بیٹھا کہ بڑے عرصے تک حکومتوں نے چین کی بانسری بجائی۔ میاں برادران نے چھوٹی چھوٹی شرارتوں کے جواب میں کبھی ٹھاپ‘ کبھی تازہ تازہ ''کتاب‘‘ کے کڑکڑاتے ورق استعمال کئے۔ میڈیا کی مستی میںدھت سرپھروں کے لئے جاب‘ مع سرکاری ڈرائیور دینا شروع کر دی۔ لیکن اتنا ''چارہ‘‘ فراہم کرنے کے بعد بھی ‘ ان دنوں ٹیلیویژن چینلز پر میاں صاحب کی وہ درگت بنائی جا رہی ہے کہ میرا خیال ہے ‘ کم ازکم شہبازشریف کی نیندیں خراب ضرور ہو رہی ہیں۔ انہوں نے لندن میں پناہ لے کر‘ چھ سات دن تو آرام کے گزار لئے‘ مگر واپسی کے بعد اب یقینا اپنے ہاتھ دکھائیں گے اور میڈیا ٹیم کی وہ درگت بنے گی‘ جو ٹی وی چینلز میاں صاحب کی بنا رہے ہیں۔ 
ٹی وی چینلز بھی حاصل کردہ آزادیوں کے مزے لے رہے ہیں اور دوسری طرف سے انہیں ریٹنگ کا مسئلہ بھی درپیش ہے جو عوام کے سامنے ہر وقت رونما ہونے والے واقعات کو نظرانداز کرنے سے بگڑنے لگتی ہے۔ یعنی جو چینل حکومت کی چاپلوسی کرتے ہوئے عوامی مسائل کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے‘ لوگ اسے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ عوام کی طاقت ‘ حکومتی طاقت سے زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی جتنی جان ریٹنگ سے جاتی ہے‘ وہ حکومت کے چھاپوں‘ گرفتاریوں اور ریمانڈز سے بھی نہیں جاتی۔ ایم کیو ایم نے سارے بھرم کھول دیئے۔ اس کے سارے کارکنوں اور فدائیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے ہر وہ طریقہ آزمایا جا رہا ہے‘ جو جاگیردارانہ حکومتی مشینری استعمال کرتی ہے۔ نصف شب‘ یا علی الصباح‘ اچانک گھروں پہ چھاپے مار کے مکینوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کو پولیس کی ہنرمندی پراعتبار نہیں رہ گیا۔ بندہ سیدھا عدالت سے رینجرز کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اب ایک ہفتے یا پندرہ دن کا ریمانڈ آئوٹ آف فیشن ہو گیا ہے۔عدالت جاتے ہی بندے کو ترُت پولیس کے ہاتھوں سے نکال کر 19دنو ں کے لئے رینجرز کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ مشاہدہ تو یہ ہے کہ بندے کا جو حال پولیس ایک ہفتے یا پندرہ دن کے ریمانڈ میں کیا کرتی تھی‘ رینجرز کے ریمانڈ میں ایک ہی دن کے اندر ہو جاتا ہے۔ مزیدخاطرمدارت کی گنجائش کے لئے میزبانی کا عرصہ بہرحال پورا کیا جاتا ہے۔ہنرمندی کے جدیدطورطریقوں نے عوام کو متاثر کرنا بہرحال شروع کر دیا ہے۔ جس ایم کیو ایم کے بندے کی کبھی کوئی چٹکی لیتا تھا اور وہ اسے جواب میں ''چٹکا‘‘ بنا کر ٹھنڈا کر دیتی تھی‘ اب خود ٹھنڈی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جو پارٹی کبھی کراچی اور حیدر آباد کے بازاروں میں ہڑتال کا لفظ سرگوشی میں بھی کہہ دیتی تھی ‘ تو لوگ صبح ہونے کا انتظار نہیں کرتے تھے۔ تاجر ترُنت آرائشنگ زیبائشنگ اور روشنیاں لپیٹ کے تالے لگاتے اور تیزی سے گھروں کی راہ لیتے اور جاتے جاتے ‘مڑ مڑ کے دیکھتے بھی رہتے کہ ایم کیو ایم کا کوئی فدائی تعاقب تو نہیں کر رہا؟ اب حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اپنے فدائیوں کے اغوا‘ بروقت مرمت اور ''تسلی بخش ریمانڈ‘‘ کی ہر شرط پوری ہونے پر ہڑتال کا نام ہی بھول گئی ہے۔ ہڑتال کا نام کراچی والے بھی فراموش کر چکے ہیں۔ اب ان کے سامنے کھڑے ہو کر بھی کوئی ہڑتال کا نعرہ لگاتا ہے‘ تو وہ ہنس کر چائے نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ جو اخبار والے خبروں کی کاپی روک کر‘ رات گئے تک کسی بھائی کے ٹیلیفون کا انتظار کیا کرتے تھے‘ اب بے فکری سے بروقت اپنی کاپیاں تیار کر کے اس اطمینان کے ساتھ پریس بھیج دیتے ہیںکہ اب کوئی بھائی ٹیلیفون نہیں کرے گا۔ بھائیوں نے بھی اب ٹیلیفون کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ انہیں علم ہے کہ اب ہمارا فون جانے پر صحافتی کارکنوں کے ہاتھ پیر نہیں کانپیں گے اور نہ ہی اب وہ اپنے بااثر سرپرستوں یا شہر کے غنڈوں کو لرزتی ہوئی آواز میں فون کر کے تحفظ کی درخواستیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پنجابی‘ پختون اور سندھی ‘ ایم کیو ایم کے لیڈروں کو فون کر کے پوچھتے ہیں کہ ''کوئی کام ہے ؟تو ہمیں بتایئے۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ دھرنے کا ہتھیار عمران خان نے کامیابی سے استعمال کر کے‘ اپنی اجارہ داری کا ثبوت دے دیا ہے۔ عمران خان کو دھرنے کے لئے کسی سے مدد کی درخواست نہیں کرنا پڑتی۔ وہ براہ راست عوام سے اپیل کر کے‘ دھرنا اتنی جلدی تیار کر لیتے ہیں‘ جیسے گوجرانوالہ کے تکا فروش‘ چڑے تیار کرتے ہیں۔ دھرنوں کی قسط نمبر 2 کے لئے اب عمران خان کو طاہرالقادری کی خدمات کی بھی شاید ضرورت نہ رہے‘ کیونکہ میاں صاحبان نے دھرنوں کے لئے عوام میں اتنی دلچسپی اور دلکشی پیدا کر دی ہے کہ عمران خان اس کی مارکیٹنگ بڑی سہولت سے کر سکتے ہیں۔ ان کا صرف اتنا کہنا کافی ہوا کرے گا کہ میاں صاحب انتخابی مہمات کے دوران آپ کو جو سبزباغ دکھایا کرتے تھے‘ و ہ سارے سبز باغ اب سیلابوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ میاں صاحبان کا خاندان گزشتہ تیس سال سے پنجاب پر حکومت کر رہا ہے۔ اس میں سے سات سال کا عرصہ انہوں نے سعودی عرب میں گزارا اور واپس آنے کے بعد انتخابات کا انتظار کیا ۔تیسری بار انتخابی نتائج کی ''مرصع کاری‘‘ نے انہیں پھر وفاقی حکومت پر لا بٹھایا۔ہمارے عوام تو معصوم‘ بھولے اور کچلی ہوئی مخلوق خدا ہیں۔ انہیں صدیوں سے حکمرانوں کی گالیاں ‘ چھترول اور سرکاری اہلکاروں کی ''لترول ‘‘کے نشے پر لگا دیا گیا ہے کہ نہ وہ قدرت کے کسی ظلم سے بچنے کی جدوجہدکرتے ہیں نہ وہ حکمرانوں کے مظالم پر آہ بھرتے ہیں۔ بھیڑوں کی طرح خاموش یہ مخلوق ہر ستم سہہ کر خاموش اور آبدیدہ رہتی ہے۔ کسی سے کچھ مانگتی نہیں۔ ہر زمانے کا اسحق ڈار‘ ان کی آخری حد تک پہنچی ہوئی غریبی کی انتڑیاں نچوڑ کر براستہ دبئی ‘ یورپ کے امیر ملکوں میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ میاں صاحبان کے گزشتہ تیس سالہ دور حکومت میں‘ جو کچھ ان کے ساتھ ہوتا رہا‘اس کی وجہ سے اب وہ پکارنا‘آہیں بھرنا اور منت ترلے کرنا بھول چکے ہیں۔ ان کے لئے ہر الیکشن اور لیڈروں کی ہر انتخابی تقریر اب بے معنی ہو گئی ہے۔ ہر قدرتی آفت کے موقع پر میاں صاحبان 
سمیت حکمران خاندان کا ہر فرد یہی کہتا ہے کہ میں آپ کا ساتھ اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک سیلاب کے پانی کا ایک ایک قطرہ سمندر تک نہیں پہنچا دوں گا۔ لیکن ہر سیلاب کے پہلے قطرے پر میاں صاحبان شڑاپ سے بیرون ملک جا بیٹھتے ہیں اور جب سیلاب ‘عوام کے گھر گرا دیتا ہے‘ فصلیں اجاڑ دیتا ہے اور مردے بہا لے جاتا ہے‘ تو حکمران واپس تشریف لا کر ان کے گندے آنسو پونچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ''جتنا بھی آپ کا نقصان ہوا‘ اسے ہم پورا کریں گے۔‘‘ مگر عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب وہ اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے رائیونڈ جائیں گے‘ تو وہاں پولیس کے 6ہزار سپاہی ان غریبوں کے راستے میں حائل جائیں گے۔ میاں صاحبان کا بار بار بیچا گیا یہ سودا اگر عمران خان نے ٹھیک سے دھرنے میں لگا لیا‘ تو مک مکا کرنے والے تمام حکمرانوں کا مک مکا ہو جائے گا۔ غضب خدا کا‘ یہی خاندان تیس سال سے حکمران چلا آ رہا ہے۔ اس کی حکمرانی کے طور طریقے حسنی مبارک سے بھی گئے گزرے ہیں جسے قاہرہ کے ایک چوک میں دیئے گئے دھرنے کی ایک لہر نے اڑا کے پھینک دیا تھا۔ کیا عمران خان یہ بھی نہیں کر سکے گا؟ کھیتی تیار پڑی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved