تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     23-07-2015

ہم ذات پات کا زہرپھر کیوں پئیں؟

تعجب ہے کہ بی جے پی سرکار کی وزراء کابینہ نے قوم کے خلاف ایسا فیصلہ کیسے کر لیا ؟ذات کی بنیاد پر گنتی کو کانگریس نے بیچ میں بند کر دیا تھالیکن اس گنتی کے جو ادھ چکرے آنکڑے (نامکمل اعدادو شمار) اکٹھے ہوئے ہیں ‘سرکار انہیں عام کرنے پر تیار ہو گئی ہے ۔اس نے کہا ہے کہ سرکار انہیں اگلے سال تک شائع کرے گی ۔تب تک صوبائی سرکاروں کی رپورٹ بھی اس کے پاس آ جائے گی اور جو آنکڑے اس کے پاس ابھی ہیں ان کی تجرباتی تفصیل بھی تیار ہو جائے گی ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی سرکار ذات واد لیڈروں کے دباؤ میں آ گئی ہے ۔قوم پرستی پر ذات پرستی کیسے اچانک سوار ہو گئی؟ اس کا سبب کیا ہو سکتا ہے ؟
کچھ اخباروں کا اندازہ ہے کہ یہ اعلان بہار کے انتخابات کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے۔بہار میں ذات پات کا بول بالا ہے ۔بی جے پی کے خلاف یہ پرچار کیا جائے گا کہ یہ ذات پات کے آنکڑوں کو اس لئے چھپا رہی ہے کہ یہ بڑی ذات والوں کی پارٹی ہے ۔یہ پچھڑے ‘دلتوں اور آدی واسیوں کا بھلا نہیں چاہتی ۔اس الزام کو کاٹنے کیلئے ہی نریندر مودی کی ذات کا ڈھول پیٹاجا رہا ہے اور ذات کی گنتی کو ظاہر کرنے کی بات کہی گئی ہے۔یہ مثال ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ وزن دار ایک اور مدّہ ہے ۔وہ ہے ذات وادی لیڈروں کو پٹانا تاکہ وہ راجیہ سبھا میں لینڈ اکیوزیشن بل پاس کروا سکیں ۔اگر بی جے پی سرکار کا یہ صرف چناوی پینترا ہے تو اس پر کوئی تنقید کیسے کر سکتا ہے ؟لیکن جس ذات پات کی گنتی کو بند کرنے کی ہمت کانگریس سرکار نے کی ‘اگر بی جے پی سرکار نے اسے سرے چڑھا دیا تو اس کے ہاتھوں ملک کا اتنا خوفناک نقصان ہو جائے گا کہ اسکی بھرپائی (تلافی) یہ ملک کئی دہائیوں تک نہیں کر پائے گا ۔یہ بھی مانا جائے گا کہ بھاجپائی لیڈر کانگریسیوں سے بھی زیادہ دبو نکلے۔
یہ ذات پات کی گنتی شروع کیسے ہوئی ‘کیا ہمارے لیڈروں کو پتا ہے؟ اسے انگریز سرکار نے شروع کیا اور 1857ء کی خود مختاری (غدر یا جنگ آزادی) کی لڑائی کے خوف سے کی ۔اس لڑائی میں ملک کے قریب قریب سبھی ذات والوں اور سبھی مذاہب کے لوگوں نے ایک جُٹ ہوکر اپنی سانسیں جھونک دی تھیں۔ عوام کے اس اتحاد کو ختم کرنے کے طریقے سوچے جانے لگے ۔بھارت کو ذات پات اور مذاہب کی بنیاد پر بانٹنے کی سازش شروع ہوئی ۔1871ء میں بنی‘ ہنٹر رپورٹ ہی1905 ء میں بنگ کے سبب ختم ہونے کا سبب بنی ‘جو 1947 ء میں بھارت کے حصے ہونے کی شروعات تھی۔ انگریز سرکار ذریعے کروائی جا رہی ذات پات کی گنتی اتنی ملک کے خلاف تھی کہ مہاتما گاندھی کی کانگریس نے 11 جنوری 1931 کو 'یوم بائیکاٹ ذات پات ‘اعلان کیا تھا۔ کانگریس کی زبردست مخالفت کے باوجودہی انگریز سرکار نے 1931 ء کے بعد سے ذات پات کی گنتی بند کر دی تھی لیکن سونیا گاندھی کی کانگریس نے 2010 ء میں اسے پھر شروع کر دیا۔ 11مئی 2010ء کو'بھاسکر‘ میں چھپے میرے ایک کالم 'میری ذات ہندوستانی ‘سے متاثر ہو کر جو تحریک چلی‘ اس کے سبب سونیاجی نے اس ذات پات کی گنتی کو ملتوی کر دیا تھا ۔اب 
مودی اس غلطی کو پھردہرا رہے ہیں ۔
اس ذات پات کی گنتی کو اُس وقت کے مردم شماری کمشنر ڈاکٹر جے ایچ ہٹن بھی غلط مانتے تھے ۔ڈاکٹر ہٹن یوں تو تھے‘ انگریز اور سرکاری ملازم مگر وہ دانشمند بھی تھے ۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ہر ذات پات کی گنتی کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ درجنوں سے شروع ہو کر 1931 ء تک آتے آتے وہ ہزاروں میں چلی گئی ہیں ۔تازہ آنکڑے کے مطابق بھارت میں ذات کی تعدا د 46 لاکھ ہو گئی ہے ۔ذات ‘نائب ذات ‘گوتر اور نام لاتعداد ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر ہٹن نے 1931 ء میں لکھا تھا کہ ہر ذات کی گنتی کے دوران لاکھوں لوگ اپنی ذات بدل لیتے ہیں ۔جو پہلے اپنی ذات بنیا لکھتے تھے ‘اب وہ راجپوت لکھاتے ہیں ‘جو راجپوت لکھاتے تھے ‘وہ اب خود برہمن لکھاتے ہیں ۔جنہوں نے خود کو کبھی برہمن لکھوایا‘اب وہ خود کو شودر لکھوا رہے ہیں اور کئی شودر ذاتیں اپنے آپ کو برہمن لکھوا رہی ہیں اور اس کے لئے وہ سبب یہی بتا رہی ہیں کہ وہ تو فلاں فلاں رِشی کی اولاد ہیں ۔ڈاکٹر ہٹن نے کئی ٹھوس دلائل دے کربتایا کہ بہار کے ایک ضلع میں جو ذات خود کو برہمن بتاتی ہے ‘وہی ذات دوسرے ضلع میں شودر کے طور پر جانی جاتی ہے ۔کسی بھی آدمی کی ذات کو طے کرنے کاکوئی آلاتی یا سائنسی پیمانہ نہیں ہے ۔جو شخص جو بھی دعویٰ کرے ‘اسے ماننے کیلئے آپ مجبور ہیں ۔ایک ہی نسل آپ کو راجپوتوں‘ جاٹوں‘ گوجروں اور آہیروں میں مل جائے گا ۔آج بھی میرے کئی برہمن‘ اور نائی دوستوں کی ذات بالکل ایک جیسی تھی۔ ڈاکٹر ہٹن نے اس ذات پات کی گنتی کو بنا سر اور بنا پیر کے بتایا جس کی بنا پر انگریز سرکار نے ذات پات کی گنتی موقوف کردی۔ یہ گاندھی ‘نہرو اور سبھاش کیلئے بڑا ہی راحت کا مضمون تھا ۔
آزادی کے بعدسبھی سرکاروں نے اسی پالیسی کو چلایا۔ انہوں نے کسی بھی ذات پات کی گنتی کو نہیں جوڑا لیکن 2010ء میں کانگریس کی عقل گھوم گئی ۔جلد بازی میں لیڈر بنے کانگریسیوں کے دما غ میں کچھ 'ماہروں ‘ نے یہ بات بٹھا دی کہ ذات پات کی گنتی کے آنکڑے اکٹھے ہو جائیں توان سے غریبی دور کرنے میں مدد مل جائے گی اور کانگریس تھوک بند ووٹ بھی کباڑ لے گی ۔اس تجویز نے لیڈروں کی عقل چُرالی۔انہوں نے یہ سوال بھی خود سے نہیں کیا کہ غریبی مٹانی ہے توغریبی کے آنکڑے اکٹھے کر و۔غریبی کے اسباب معلوم کرو‘ اس کا حل ڈھونڈو۔اگر آپ ملک کے غریبوں کے آنکڑے اکٹھے کریں گے تو ان میں سے کون چھوٹ جائے ؟وہ سبھی پچھڑے ‘دلت‘ آدی واسی ‘مسلمان ‘عیسائی آ جائیں گے ‘جو غریب ہیں ۔ہاں‘ ان میں وہ ضرور نہیں آ پائیں گے ‘جو ان طبقوں کی لیڈر گری کر رہے ہیں ۔انہیں سپریم کورٹ نے ذات کی 'ملائی دار پرتیں‘ کہا ہے۔میں انہیں مالداروں کا مالدار‘دبنگوں کا دبنگ ‘بھج بَلیوں کا بھج بَلی کہتا ہوں ۔وہ ایسے پچھڑے اور دلت ہیں ‘جن کے بڑے بڑے برہمن ‘راجپوت اور بنیے پانی بھریں ۔یہی لوگ بار بار ذات پات کی گنتی کی مانگ کرتے ہیں تاکہ انہیں تھوک بند ووٹ کباڑنے میں آسانی ہو ۔انہیں ملک کے کروڑوں محروموں کی اتنی ہی فکر ہے ‘ جتنی سونار لیڈروں کو ہے۔ اگر ان کو سچ مچ فکر ہوتی تو وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیاکی طرح 'ذات پات ‘ کو توڑنے کا نعرہ لگاتے ۔اپنے کھانے پینے اور لباس وغیرہ میں سوناروں کی نقل نہیں کرتے ۔بد عنوانی سے آزاد رہتے ۔
نوکریوں کی بے عزتی بھری خیرات کو ٹھوکر لگاتے اور محروموں کے بچوں کیلئے ایسی مفت تعلیم کا انتظام کرتے کہ وہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی بدولت بڑی بڑی نوکریاں حاصل کرتے۔ لیکن ان لیڈروں کی اولیت محروم لوگوں کا فائدہ کم ‘اپنے مفاد کہیں زیادہ ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ذات پات کی گنتی کا اثر کیا ہوگا ؟کوئی ہمیں سمجھائے کہ ان آنکڑوں سے غریبی دور کیسے ہوگی؟ مجھے ڈر ہے کہ ذات پات کی گنتی زہر بن کے بھارت کے نس نس میں پھیل جائے گی۔ آدمی کی ذاتی پہچان ختم ہو جائے گی۔ وہ مویشیوں کی طرح اپنے ذات کے جھنڈ کے نام سے پہچاناجائے گا۔اگر بھارت کوعظیم اور طاقتور ملک بننا ہے تواسکی بنیاد ذات یا نسل کبھی نہیں ہو سکتی ۔امبیدکر نے 'جاتی پرتھا کا سمول ناش‘(ذات پات کی اونچ نیچ کی روایات کامکمل خاتمہ) کتاب یونہی نہیں لکھی تھی۔آج ضرورت ہے اس بات کی۔ یہ توقع لیڈروں کے بجائے ہر بھارتی کوخود کرنی ہوگی ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved