مشکل گھڑی میں سیلاب متاثرین کے
ساتھ کھڑے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مشکل گھڑی میں سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘، اسی لیے ڈیڑھ دو ہفتے کے لیے سعودیہ شریف چلے گئے تھے کیونکہ ذرا دور جا کر سیلاب زدگان کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے کھڑا ہوا جا سکتا ہے بلکہ شہباز صاحب تو اس عرصے میں لندن جا کر اُن سے بھی اچھی طرح سے ان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے‘ سو انہیں بڑی مشکل سے بٹھایا گیا کہ اس وقت تک ان غریبوں کے گھر وغیرہ بھی مکمل طور پر بیٹھ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے‘‘ ویسے بھی‘ جب سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے‘ سارا کام ہی جنگی بنیادوں پر ہو رہا ہے جو کہ عزیز القدر اسحق ڈار کے کام سے ہی ظاہر ہے کہ کس بے جگری سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں اور عوام کو پسپا کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
سیلاب متاثرین کی تکلیف میری تکلیف ہے‘ تنہا نہیں چھوڑیں گے... شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سیلاب متاثرین کی تکلیف میری تکلیف ہے‘ تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اگرچہ تکلیفیں پہلے ہی اس قدر جمع ہو چکی ہیں جن میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی تکلیف سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے اور اسے طرح طرح کی دوائوں سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں روزانہ کا یہ بیان بھی شامل ہے کہ اتنے دنوں میں اسے ختم کردیں گے لیکن اب تو صورت حال یہ ہے کہ لوگ مظاہروں اور توڑ پھوڑ کے بعد آرام سے بیٹھ جاتے ہیں‘ اس لیے ایسے باصبر عوام کو تنہا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جن میں اب سیلاب متاثرین بھی شامل ہو گئے ہیں جبکہ میں لندن میں بھی اپنے آپ کو ان کے ساتھ ہی محسوس کرتا رہا ہوں اور بھائی صاحب بھی غورو فکر میں ہی ڈوبے رہے ہیں کہ اکیلے عوام کا ڈوبنا ہمیں ہرگز پسند نہیں ہے کیونکہ ہمارا جینا مرنا انہی کے ساتھ ہے اور اگر اب وہ ڈوب ڈوب کر مر رہے ہیں تو مرنا تو آخر سب ہی نے ہے کہ موت سے کس کو رُستگاری ہے‘ آج تم کل ہماری باری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صوبائی کابینہ برائے فلڈ کو ہدایات جاری کر رہے تھے۔
ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ گئے
ہیں... مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ گئے ہیں‘‘ اور خاکسار تک مسلسل پہنچتے رہتے ہیں جو کہ خاص الخاص ہونے کے باوجود عوام ہی سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ جب ان ثمرات کے پہنچنے میں کچھ دیر سویر ہو جائے تو کسی نہ کسی طرح واویلا مچانے کے بعد اللہ کا نام لے کر ان ثمرات سے جھولی بھر لیتا ہے کہ آخر خدا پتھر میں چھپے کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے‘ میں تو ایک حاجت مند اور عاجز و مسکین آدمی ہوں اور یہ میرے عجز ہی کی برکات ہیں کہ ثمرات ماشاء اللہ سنبھالے نہیں سنبھلتے‘ غرض خداوند تعالیٰ کی کیا قدرت بیان کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو اقتصادی اور تجارتی لحاظ سے خطے میں تسلیم کر لیا گیا ہے‘‘ اگرچہ خاکسار کو دیر سے ہی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن تسلیم کروانے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے جس سے بہرہ ور ہو کر ہی آئے دن ثمرات سمیٹنے میں لگا رہتا ہوں‘ اللہ تبارک و تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائے‘ آمین ثم آمین۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسمٰعیل خان کے پریس سیکرٹری سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہم کرپشن کے خلاف فریادی
بنیں گے... سید خورشید علی شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''ہم کرپشن کے خلاف فریادی بنیں گے‘‘ جیسا کہ اپنے دور میں یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور رحمن ملک وغیرہ جملہ معززین کرپشن کے خلاف فریادی بنے رہے اور اسی آہ و فریاد میں ہی ساری مدت گزار دی اور اب بھی یہی حضرات اس کارِ خیر میں حصہ لیں گے اور زنجیرِ عدل زور شور سے کھڑکایا کریں گے جو ہمارے شہنشاہوں نے محل کے باہر لٹکا رکھی ہے۔ جبکہ مفاہمت بھی فریاد ہی کا ایک طریقہ ہے جس میں کرپشن کیسز سے پناہ مانگی جا رہی ہے اور گیلانی صاحب کے علاوہ بھی کافی جگہوں پر کارگر ثابت ہو رہی ہے؛ چنانچہ جوں جوں یہ مقدمات ختم ہوتے جائیں گے توں توں فریاد بھی کم ہوتی جائے گی اور کسی اگلے موقع کے لیے اٹھا رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپٹ افسران اور ٹھیکیداروں کے خلاف مقدمات درج کرائیں گے‘‘ کیونکہ ایسے سیاسی عناصر کے معاملات کو خدا پر چھوڑ دیا گیا ہے اور دونوں پارٹیاں اس مؤقف پر ثابت قدمی سے قائم ہیں تاکہ جمہوریت اسی زور و شور سے چلتی رہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
119۔ایچ ماڈل ٹائون‘ 15 جولائی 2015ء
مکرمی جناب ظفر اقبال صاحب‘ السلام علیکم۔ سب سے پہلے آپ کو اور اہلِ خانہ کو عید مبارک۔ آپ کا آج کا مطلع پڑھتے ہی طبیعت رواں ہو گئی۔ آپ کی شاعری میں ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی شاعری موزوں طبیعت والے لوگوں کو Inspire کرتی ہے؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ شاعروں کے شاعر ہیں۔ لیجیے‘ اب سنیے:
وہ جاگے ہوں کہ سوتے، کھا رہے ہیں
اِدھر ہم صرف غوطے کھا رہے ہیں
وطن کو پہلے دادا لوٹتے تھے
اب ان کے بیٹے پوتے کھا رہے ہیں
بڑھاپے میں توانائی کی خاطر
وہ اب بیلوں کے فوطے کھا رہے ہیں
ظفرؔ بکروں کے دھوکے میں یہ گاہک
مزے لے لے کے کھوتے کھا رہے ہیں
(مظفر بخاری)
آج کا مقطع
کہتا ہوں ظفرؔ شعر تو سہتا ہوں بدن پر
تنہائی وہی‘ قافیہ پیمائی وہی ہے