تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-07-2015

ہم کہ ٹھہرے ’’شاپنگ گزیدہ‘‘ !

ایک بار پھر عید آئی اور گزر گئی۔ اور حسب سابق جیب اور دل پر قیامت بھی گزر گئی! ثواب کمانے کے مہینے میں لوگ منافع کمانے کے لیے کوشاں رہے۔
ایک زمانے سے کراچی کی رونقیں ماند پڑی ہوئی تھیں۔ امن و امان کا مسئلہ تھا۔ لوگ ڈرے ہوئے تھے۔ قدم قدم پر لُٹ جانے کا خوف لاحق رہتا تھا۔ لوگ دن بھر کے کام کاج کے بعد شام کو خیریت سے گھر پہنچنے پر سکون کا سانس لیتے تھے۔ ایسے میں زندگی کے بہت سے پہلو تشنہ رہ گئے تھے۔ مثلاً لوگ خوشی کے موقع پر بھی خوشی محسوس نہیں کر پاتے تھے۔ دہشت گردوں نے اپنی دکان پوری شان سے کھول رکھی تھی اور ہر وہ چیز بیچنے پر بضد تھے جس سے کاروبارِ حیات ماند پڑتا جائے اور بالآخر پورا میلہ خسارے کی نذر ہوجائے! یہ دکان چل بھی پڑی تھی۔ اور جب دہشت کی دکان چلتی ہے تو دوسرے تمام کاروبار بند ہوجاتے ہیں یا ٹھپ پڑ جاتے ہیں۔ کراچی میں بھی یہی ہوا تھا۔ چار پانچ برس سے اہل کراچی سکون اور بے فکری سے جینے کے قابل نہ تھے۔ قتل و غارت اور لُوٹ مار کے باعث خوف یہ عالم تھا کہ لوگ خود کو زندہ سمجھنے سے بھی کترانے لگے تھے! 
جب زندہ رہنے ہی میں دلچسپی نہ لی جارہی ہو تو اور کسی بھی کام میں کیا دلچسپی لی جاسکتی ہے؟ اہل کراچی پَژمردہ سے جی رہے تھے۔ دن کو رات اور رات کو دن کرنا ہی زندگی ٹھہر گیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ملک چلانے والوں کو کچھ خیال آیا کہ ادھ مُوا شہر کہیں داغِ مفارقت نہ دے جائے۔ سر جوڑ کر بیٹھنے والوں نے شہر قائد کے لیے سنجیدگی سے کچھ سوچا۔ اور جو سوچا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ 
کراچی کا امن پلٹ آیا ہے۔ فضاء میں اعتماد کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ لوگ گھومنے پھرنے میں خوف محسوس کرنے کی کیفیت سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اب کے رمضان کے دوسرے نصف کے دوران اہل کراچی نے جی بھر کے سیر بھی کی اور ڈٹ کر خریداری بھی کرتے رہے۔ من چاہی چیز بہت دیر تک ترسنے کے بعد ملے تو اسے پاکر خوشی کے مارے حواس ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ کچھ کچھ ایسی ہی حالت کراچی میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹنے اور امن بحال ہونے پر اہل کراچی کی بھی ہوئی۔ شہریوں کا اعتماد بحال ہوا تو شہر میں سبھی کچھ بحال ہوگیا۔ زندگی انگڑائی لیتی ہوئی بیدار ہوئی۔ 
دہشت اور بے یقینی کی دکان بند ہوئی تو معیشت کی دکان کھل گئی۔ رفتہ رفتہ سب کچھ معمول پر آنے لگا۔ خوشی کے ہر موقع پر بھرپور انداز سے خوشی منانے کی خواہش بھی انگڑائی لیتی ہوئی بیدار ہوگئی۔ شہر کا سکون واپس آیا تو لوگ پرسکون دکھائی دینے کے جنون میں جوش و خروش کی حدوں سے گزر گئے! کھل کر خوشی منانے کا ایسا نشا طاری ہوا کہ کسی اور بات کا ہوش ہی نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ رمضان کے آخری پندرہ دنوں میں 70 ارب روپے کی ریکارڈ خریداری کی جاچکی ہے! 
شہر معمول پر آیا تو کچھ اس انداز سے کہ تاجر برادری کے لیے غیر معمولی صورت حال پیدا ہوگئی! شہر قائد کے رہنے والے بھی واقعی عجیب واقع ہوئے ہیں۔ جب یہ خوفزدہ ہونے پر آتے ہیں تو گھر کے دروازے پر ہی لُٹنے لگتے ہیں۔ کسی کو نوازنے پر آتے ہیں تو ایسا نوازتے ہیں کہ اگلا بے حواس ہونے لگتا ہے۔ اور جب پُرامن فضاء میں عید منانے کی بات آئی تو ایک بار پھر اہل کراچی نے ثابت کیا کہ وہ وکھری ٹائپ کے ہیں۔ اس بار عید منانا کافی نہ تھا۔ سوال شایان شان انداز سے عید منانے کا تھا۔ اور اس کے لیے لازم ہوگیا کہ جو کچھ بھی جیب میں تھا وہ باہر نکال کر اپنے آپ پر وار دیا جائے۔ اور وار دیا گیا۔ 
موقع عید کی تیاری کا ہو یا شادی وغیرہ کے لیے تیار ہونے کا، ہم ہر معاملے میں ''شاپنگ گزیدہ‘‘ واقع ہوئے ہیں! جب دہشت کی 
دکان کھلی ہوئی تھی تب ہم چُن چُن کر خوف، بے یقینی اور بے اعتباری خرید رہے تھے۔ دہشت کی دکان چلانے والے بھی پورے اعتماد کے ساتھ دعوٰی کرسکتے ہیں کہ کراچی والوں نے اُن سے ریکارڈ خریداری کی! پھر جب اعتماد کی بحالی کا بازار گرم ہوا تو جن کے ہاتھوں لُٹ رہے تھے، کراچی کے مکینوں نے اُنہی لُٹیروں کو پکڑ کر جلانا شروع کردیا۔ لُوٹ مار کے دوران مزاحمت کے واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے۔ پولیس اور رینجرز کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی ڈاکوؤں کی چھترول شروع کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈکیتی اور رہزنی کی دکان بند ہوتی گئی اور شہر کی دکان داری بحال ہونے لگی۔ 
اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ مکمل طور پر بے فکر و بے خوف ہوکر معمول کی زندگی بسر کرنے لگیں؟ معمول کی زندگی کے لیے صرف اتنا کافی نہیں۔ خوشی کے ہر موقع پر بند مٹھی بھی کھولنا پڑتی ہے تاہم اس معاملے میں توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چُھوٹنا چاہیے۔ اہل کراچی ہوں یا دیگر اہل پاکستان، سبھی غیر متوازن رویّوں کے دریا میں بہتے رہتے ہیں۔ خوفزدہ ہونے پر آئیں تو اپنے ہی سائے سے خوف کھانے لگتے ہیں اور اگر بے باک ہونے کی ٹھان لیں تو خدا سے بھی نہ ڈریں! رمضان کے آخری ایام میں 
بازاروں کا چکر لگاکر دیکھیے کہ لوگ عید کی خریداری کس طرح کرتے ہیں تو کچھ سمجھ میں نہ آئے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ کنفرمڈ کچرا سونے کے دام خریدتے نظر آتے ہیں اور وہ بھی مکمل ''شرحِ صدر‘‘ کے ساتھ! یعنی فریب کسی بھی منزل میں فریب دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ شاپنگ یوں کرتے ہیں گویا اب دنیا میں پھر کبھی کچھ خریدنے کا موقع نہ ملے گا یا جیسے آج کے بعد خریداری پر تاحیات پابندی لگنے والی ہو! عام حالات میں جو چیز چار کی بھی نہ بک سکتی ہو وہ عید شاپنگ کے دوران دس بارہ میں گلے لگائی جاتی ہے۔ معیشت کا پہیّہ گھومنا ضرور چاہیے مگر اِس طرح نہیں کہ اعتدال کا پہیّہ جام ہوجائے یا گڑھے میں گھومتا رہے۔ 70 ارب روپے کی ریکارڈ شاپنگ کے نتیجے میں شہریوں کو جو کچھ ملا ہے اُس سے کہیں زیادہ پانا ممکن ہوسکتاہے، اگر شاپنگ کرتے وقت حواس قابو میں رکھے جائیں اور عقل کو تھوڑا بہت کام کرنے دیا جائے! 
سوال شاپنگ کا ہو یا زندگی کے اہم ترین فیصلوں کا، ہر مرحلے پر یہ دیکھنا لازم ہے کہ نفع کتنا ہوگا اور خسارے کو نچلی ترین سطح پر رکھنا کس طور ممکن ہوگا۔ ہمیں یہ زندگی ہر معاملے میں اندھا دھند شاپنگ کے لیے نہیں ملی۔ نفع و ضرر کے بارے میں سوچنا اور متوازن رویہ رکھنا ہی ہمیں بہتر بارگیننگ پوزیشن میں لاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو عام تاجر ہوں یا نفرت و دہشت کے سوداگر، سبھی اپنا مال من چاہے داموں بیچ کر چل دیتے ہیں اور ہم خسارے کی پوٹلی سروں پر لادے اپنی جگہ کھڑے رہ جاتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved