''کشمیر پر بھارتی قبضہ ناجائز، غیر منصفانہ، جھوٹا اور untanable ہے‘‘۔ یہ تاریخی جملہ دنیا کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے NAM کانفرنس میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران بھارتی وفد کے ڈیسک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ دنیا کو وارننگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا : ''اگر جلد ہی کشمیر کا کوئی پر امن تصفیہ نہ کرایا گیا تو یہ گلوبل امن اور علاقائی سلامتی کے لئے اس قدر خطرناک ہو جائے گا کہ اکیسویں صدی کی یہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی اور پھر NAM جیسی تنظیمیں بھی بے معنی ہو کر رہ جائیں گی‘‘۔ 26 مارچ 2004 ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا نے پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر میں پاک برطانیہ تعلقات پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: '' پاکستان اور بھارت کے درمیان1947ء سے جاری کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جاتا ہے تو اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کا سلسلہ بھی کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گا۔
اقوام عالم جو آج مصلحتوں اور تہذیبوں کے تصادم کے نام پر مجرمانہ غفلت کا شکار ہو کر خاموش بیٹھی ہیں‘ انہیں جان لینا چاہئے کہ کشمیر کسی نام کی وجہ سے پریشان کن مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قوم کا مسئلہ ہے جو اپنی آزادی پر قابض ظالم ترین طاقت کی غلامی سے جلد از جلد باہر نکلنا چاہتی ہے‘‘۔ 30 اکتوبر1947ء کو ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی لیاقت علی خان کو بھیجی گئی بھارت سرکارکی ٹیلی گرام میں یہ وعدہ کیا گیا تھا: ''ہم آپ کو مکمل یقین دہانی کراتے ہیں کہ جیسے ہی امن ہونے سے حالات بہتر ہوںگے ہم اپنی تمام فوجیں کشمیر سے نکال لیں گے اور پھر یہ کشمیریوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ اس بات کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کرایا جائے گا۔ میرا اور بھارتی حکومت کا یہ وعدہ صرف پاکستان ہی سے نہیں بلکہ کشمیریوں اور دنیا بھر سے بھی ہے کہ ہم رائے شماری کے نتائج کا پوری ایمانداری اور سپرٹ سے احترام کریں گے‘‘۔
پنڈت نہرو نے 1948ء میں، جب کشمیر پر سیز فائر کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو اقوام متحدہ نے 13 اگست کو جو قرارداد منظور کی اس میں صاف اور واضح طور پر لکھا ہے : "The question of the accession of the state Jammu and Kashmir to India or Pakistan will be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite'' ۔۔۔۔۔اب جو ممالک اور عالمی شخصیات بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہہ کر پکارتے ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ جو ملک اکیسویں صدی میں دوسری قوموں کو زبردستی غلام بنا کر رکھے، اسے توکوئی مہذب معاشرہ جمہوریت کا نام لینے کا حق نہیں دیتا مگر آپ لوگ اسے کس طرح سب سے بڑی جمہوریت کہہ دیتے ہیں؟
اقوام متحدہ کے ہر آنے والے سیکرٹری جنرل کی میز پر کشمیر کے مستقبل کے بارے میں منظور ہونے والی قرار دادیں موجود ہوتی ہیں، جن میں لکھا ہے کہ'' سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کمیشن کی رائے سے کشمیر میںPlebiscite Administrator مقرر کریںگے جس کی ایمانداری، اصول پرستی اور غیر جانبداری مسلمہ ہو گی اور جسے سب فریقوں کا اعتماد حاصل ہوگا‘‘۔ روس کے شہر اوفا میں میاں نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان مشترکہ دوستوں کی کوششوں سے ہونے والی ملاقات کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا‘ اس میں کشمیر کے ذکر سے نہ جانے کیوں گریزکیا گیا؟ کشمیر کے نام کی گمشدگی پر تمام تجزیہ کار حیران ہوکر ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس لئے کیا گیا؟ با وثوق اطلاعات کے مطا بق جب نریندر مودی نے اوفا میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے ہامی بھری تو اسی وقت یہ شرط رکھ دی گئی کہ یہ بات چیت باہمی تجارت اور ویزوں کے بارے میںبار بار دہرائی جانے والی آسانیوں تک محدود رہے گی، اس میں کشمیر اور سیاچن سمیت کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا۔
دنیا ٹی وی نے پاک بھارت وزرائے اعظم کی اس ملاقات اور جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ پر کامران شاہد کی میزبانی میں پاکستان اور بھارت کے سینئر اور منجھے ہوئے صحافیوں اور سابق فوجی افسروںکے مابین ایک ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جس میں بھارتی ٹی وی سے منسلک میزبان نے کہا:''بھائی آپ کس کشمیر کی بات کر رہے ہیں، یہ تو اب ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بھارت کا حصہ اور صوبہ بناتے ہوئے اپنے ساتھ باقاعدہ طور پر شامل کر لیا ہے‘‘۔ یہی بات کلدیپ نائر نے 2009ء میں اپنے کالم میں ان لفظوں میں لکھی تھی: Kasmir has been declared a part of India by two third majority in both the houses of India''۔۔۔۔۔۔کلدیپ نائر سمیت بھارتی دانشوروں کا مسئلہ کشمیر پر استدلال یہ ہے کہ جب تک بھارت کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے اجا زت نہ دیں، بھارتی حکومت کشمیر پرکسی بھی فیصلے تک نہیں پہنچ سکتی۔ شاید کلدیپ نائر اور بھارت کے دوسرے دانشورایک بار پھر کسی دیوار برلن ٹوٹنے کے انتظار میں ہیں؟
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی، سینئر تجزیہ کار اور کلدیپ نائرسمیت پورا بھارتی میڈیا مسئلہ کشمیر پر اپنی حکومت کی ہدایات پر جو کہانیاں تراشتا رہتا ہے ان کی حیثیت سوائے ہٹ دھرمی کے کچھ نہیں، بلکہ اگر پورا بھارت سچ سننے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے تو بھارت کے سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات ایس ایس گل کی کتاب The Dynesty کے یہ الفاظ پڑھنے کی کوشش کرے:
''For India, Kashmir has become a self-inflicted wound that has bled her over the years and destroyed India's foreign policy perspectives.''۔۔۔۔۔ ایس ایس گل یہ حقیقت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ''کشمیر پر بھارت کی کمزور پوزیشن نے اسے اخلاقی طور پر سفارتی محاذ پر ختم کر کے رکھ دیا ہے‘‘۔ لیکن آج بھارت کی خوش قسمتی دیکھیے کہ کشمیر کے سب سے بڑا فریق پاکستان کا وزیر اعظم بھارت کو اس دلدل سے اس طرح نکال رہا ہے کہ خود کو بھی کشمیری کہنے سے گھبراتا ہے؟
اوفا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے وفد کے ارکان سے جس بے نیازی سے ملاقات کی وہ منظر اپنی جگہ انتہائی توہین آمیز تھا۔ سب نے دیکھا کہ نریندر مودی سے ملنے کے لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں پاکستانی وفد کو خود چل کر ان کی کرسی تک جانا پڑا اور جس بے دلی سے نریندر مودی نے ہاتھ ملایا اسے کیمرے کی آنکھ نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر کے سب کو دکھا بھی دیا۔ دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم دائیں جانب کھڑے ہوئے بھارتی وفد کے ایک ایک رکن سے ملنے کے لئے خود ان تک پہنچے۔ مودی صاحب جو میاں نواز شریف کو اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھتے رہے،ایک ہلکا سا قدم اس وقت آگے بڑھایا جب وہ ان کے قریب آ پہنچے تھے۔ پاکستانی وفد کے ارکان کو بھی ایک ایک کر کے خود نریندر مودی کے پاس جانا پڑا۔ شاید نریندر مودی یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ ملاقات کر تو رہا ہوں لیکن۔۔۔؟