سمجھ نہیں آرہی کہ آج کے حالات کا موازنہ1947ء کے حالات سے کروں یا1958ء کے ؟ جو لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ ایک بحران ختم ہوا اور اب ہم جمہوریت کے استحکام کی طرف بڑھنے لگے ہیں' انہیں جلد ہی اپنے غلط اندازوں کی سز ا بھگتنا پڑے گی۔ وہ سزا جو تاریخ کے حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کو ملتی ہے ۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا اور ایک لمحے کے لئے بھی یہ رک کر نہ سوچا کہ بنانے کے بعد' ہم اسے کیسے چلائیں گے ؟ اس کا علم صرف قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کو تھا' جنہیں بری طرح سے نرغے میں لے کر' اقتدار کے ایوانوں سے نکال دیا گیا اورفوجی آمر کے تحفظ میں موقع پرستوں نے مشرقی پاکستان کے خلاف وہ سازش شروع کر دی' جس کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد شروع ہو گئی تھی۔ پاکستان کے ابتدائی چند سالوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیں تو آپ کو خطرے کی سرخ بتیاں ہر موڑ پر نظر آئیں گی۔ قائداعظمؒ کو شدید علالت کی حالت میں ایک غیر محفوظ سفر کے لئے مجبور کرنا' لیاقت علی خان پر گولی چلانا اور آخر میں مشرقی پاکستان کے نمائندوں کو اقتدارکے ایوانوں سے باہر دھکیل دینا۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو سازش کرنے والے بڑے مطمئن تھے کہ وہ کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن وہ یہ اندازہ نہ کر سکے کہ وہ اپنے طبقاتی مفاد کو تحفظ دیتے دیتے ' پاکستان کو غیر محفوظ کر رہے ہیں۔ جبکہ جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھنے والے کرنل عابد حسین کو اپنی بیٹی سے کہنا پڑا کہ‘‘حسین شہید سہروردی مشرقی پاکستان کے معمار تھے ۔ ان کو ایبڈو ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔اس آئین کو پامال کر دیا گیا جسے ہماری ریاست کے بانیوں نے بنایا تھا اوراس پر ایک ایسا آئین مسلط کر دیا گیا۔ جس میں عوام کو ان کے حق رائے دہی سے محروم تھے ۔ ہمارے ملک میں فوج کااقتدار قائم ہونے سے بھارت کو اضافی سہولت مل گئی ہے ''۔ نوازشریف کی نئی اور مربوط جمہوریت کا یہ دور شروع ہونے سے بھارت کو اضافی سہولت مل گئی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو خون میں نہلاتے نہلاتے آج وہاں پہنچا دیا گیا ' جہاں ایک سیاسی نسل کو مکمل طور پر اقتدار کے ایوانوں سے نکالتے نکالتے ہماری سانس پھول جائے گی اور ہمارے حکمران جمہوری نظام میں اس طاقت کا آخری وقت دیکھیں گے جس کی حرص میں انہوں نے عوام کو موجودہ حالات میں پہنچایا۔ ہمارا وہی انجام ہونے والا ہے ' جو1958ء کی تباہ کن تبدیلی کے بعد شروع ہوا تھا اور ہمیں1971ء کے بحران میں دھکیل کر' ہمارا آدھے سے زیادہ ملک چھین کر لے گیا۔ ہمارے جن حکمرانوں نے مغربی پاکستان پر قبضہ کرنے کے لئے ' جمہوریت کو موجودہ حالت میں پہنچایا' کاش کوئی سمجھدار آدمی انہیں اپنے انجام سے خبردار کر کے ' یہ بتا دے کہ جو جس جمہوریت کی فتح پر وہ خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہے 'وہ حق
حکمرانی کو عوام سے چھین کر اس پر مکمل قبضہ جمانے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ ا نہوں نے جمہوریت کو ایک ایسی پرائیویٹ لمٹیڈ بنا دیاہے ' جیسے حکمران خاندان اپنی صنعتی ریاست میں اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے سوا کسی کو داخل ہونے کا حق نہیں دیتا۔ جس کسی کو بھی کسی کمپنی یا وزارت میں شریک کیا جاتا ہے ' وہ عوام کے حق نمائندگی کی طاقت سے اختیارات حاصل نہیں کرتا بلکہ وہ حکمران خاندان کی خوشنودی' رشتہ داری یا کاسہ لیسی کی طاقت سے ہماری تقدیر لکھنے کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ اس وقت اپوزیشن بھوکے بھیڑیوں کی طرح ایک مردہ نظام کی لاش میں اپنا حصہ لینے کے لئے باہر بیٹھے نوک دار دانتوں میں گوشت کا ٹکڑا دبانے کو بے تاب ہے ۔ایسے لمحات اسی طرح کے ہوتے ہیں 'جن سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ نئی ریاست کی تعمیر آسان کام نہیں ہوتا۔
قائداعظمؒ نے اﷲ تعالیٰ کے خصوصی احسان کو اپنے عوام تک منتقل کر کے ' جوکارنامہ انجام دیا تھا ' ہم اس کے صحیح وارث ثابت نہ ہو سکے ۔ تاریخ نے ہماری جھولی کو اچانک اتنی نعمتوں سے بھر دیا کہ ہم اسی کے بوجھ میں دب کر اپنی قبر کے اندھیروں میں اترنے لگے اور اترتے چلے جا رہے ہیں۔اس منحوس کھیل کو شروع کرنے والے خود اپنے انجام سے بھی بے خبر تھے ۔
یہ تھے پاکستان کے نئے حکمران' جب مشرقی پاکستان کے عوام نے جمہوری اصولوں کے تحت' اپنا حق حکمرانی طلب کیا تو مغربی پاکستان کے جاگیردار حکمرانوں نے عوام کو غلام بنانے کے لئے تیار کردہ بیورو کریسی کی مشینری کی کاسہ لیسی کر کے ' اقتدار میں حصے داری کر لی۔غلام ہمیشہ غلام رہتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے یہ نئے حصے دار 'آداب حکمرانی کی تربیت نہیں رکھتے تھے ۔ان دونوں غلاموں نے مل کر اپنے لئے نیا آقا' سات سمندر پار جا کر' امریکہ میں ڈھونڈ لیا۔ دوسری جنگ عظیم کی فاتح طاقت کو' شکست خوردہ برطانوی حکومت کی اطاعت مل گئی۔ وہاں کے حکمران ہمارے پرانے آقا تھے ۔ وہ ہمارے نئے آقاؤں کے ساتھ مل کر اپنے تجربے اور اپنے سابق حکمرانوں کی مدد سے پاکستان میں حق حکمرانی پر قابض ہو گئے ۔دونوں کو تسلی ہو گئی کہ اب وہ حقیقی آقاؤں کی بارگاہ میں آ پہنچے ہیں اور انہیں تحفظ مل گیا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان کے یہ نئے حکمران بھی امریکی پناہ میں آکر خود کو محفوظ سمجھ بیٹھے ۔ وقت نے اپنا فیصلہ سنانے میں دیر تو کر دی مگر اپنے جن سابقہ غلاموں کو پاکستان کا حکمران بنایا' انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہے ۔ وہ نسلی غلام جو ہمارے حکمران بن چکے تھے ' بوکھلاہٹ کے عالم میں بدلتے ہوئے تاریخی عمل کے اندر ڈبکیاں لگانے لگے ۔ یہ ڈبکیاں ابھی تک لگائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے مظلوم عوام اور ہمارے ظالم حکمرانوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے ۔ وہ موسموں اور تبدیلیوں کے تھپیڑوں کے دھکے کھاتے ہوئے ' چاروں طرف بھٹک رہے ہیں اور ہمارے حکمران بھی اسی کیفیت میں ہیں۔ ان کے امریکی آقا ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقتوں کے مقابلے میں 'قدم جما کر کھڑے رہنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ اپنے نئے تجربوں کی کامیابیوں میں سرشار چینی'روسی اور ابھرتی ہوئی نئی ‘‘مالیاتی جمہورتیوں''کا ایک نیا اتحاد معرض وجود میں آرہا ہے ۔امریکی سامراجیت کے بھیڑئیے کے دانت کند ہو رہے ہیں جبکہ ہمارے حکمران اپنے تحفظ کے لئے پناہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہر طرف ہاتھ پھیلاتے پھر رہے ہیں۔ وہ روس کے درپربھی جا رہے ہیں ۔ وہ اپنے عرب علاقائی آقاؤں کا دامن بھی پکڑ رہے ہیں۔ امریکہ سے سہارے بھی طلب کر رہے ہیں۔ حتی کہ جس افغانستان پر ہمارے حکمرانوں نے کبھی اپنے اقتدار کے دانت گاڑنے کے منصوبے بنائے تھے ' آج اس سے بھی مدد کے طلب گار ہیں۔ اور چینی سرمایہ دار کی غلامی کی امیدوں میں اپنی حکمرانی کا تحفظ دیکھتے ہوئے 'ان خوابوں میں سرشار ہیں کہ چین کی مالی مدد کے بل بوتے پر' وہ اپنی مالیاتی طاقت میں اضافہ کر لیں گے ۔انہیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ امریکہ کے گھاگھڑ سرمایہ داروں کے دانت توڑنے والے چینیوں کی جمع کردہ عوامی دولت میں حصہ لے کر اپنے عوام کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔
انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کے بزرگوں نے پاکستان کو اس لائق ہی نہیں چھوڑا کہ وہ تبدیلی کی آنے والی کسی بھی نئی لہر پر سوار ہو کر اپنے بحرانوں سے باہرنکل سکیں۔آخر میں اس تماشے کی طرف توجہ دوں گا' جسے جوڈیشل کمیشن کی انکوائری رپورٹ میں' موجودہ حکمرانوں کو اپنے اقتدار کا تحفظ نظر آرہا ہے ۔ جو عوام کی بڑھتی ہوئی مجبوریوں میں اپنی طاقت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔بے شک آپ کو میری یہ باتیں ہر دور کے دیوانوں کے خواب کی طرح بے معنی دکھائی دیں گی لیکن یاد کر کے دیکھ لیں 'دنیا کی ہر بڑی تبدیلی' دیوانوں کے خواب کہلائے ہیں۔پاکستان میں تبدیلیوں کی وہ نئی کروٹ' جو آنے والی صدیوں کی وسعتوں میں دندنائے گی' اس میں مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے بکھرے ہوئے ٹکڑے آخر کار بھٹکتے بھٹکتے معدوم ہو جائیں گے اور ہمارے عوام کا پاکستان تبدیلیوں کی نئی لہروں پر سوار ہونے والوں کے ' کندھے سے کندھا ملا کر اپنے حقیقی سفر کا آغاز کرے گا۔قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ تاریخ کے اس نازک موڑ اور فیصلہ کن موڑ پر جشن مناتے حکمرانوں کو دیکھ کر' جذباتی ہو گیا مگر ایسی حالتوں میں ایسا ہو جایا کرتا ہے ۔