نیویارک میں چوبیس گھنٹے گزر گئے ہیں ۔
کبھی کہا جاتا تھا اس شہر میں رات کو باہر نکلیں تو چند ڈالر جیب میں ضرور رکھیں‘ کوئی نہ کوئی لوٹ لے گا اور اگر جیب میں پیسے نہ نکلے تو گولی مار دے گا ۔ آج اسی شہر میں آپ بے خوف پھر سکتے ہیں ۔ سنتے ہیں نیویارک کو ایک میئر جیولانی ملا جس نے سب کچھ بدل دیا تھا ۔ پھر سوچا ہمیں پاکستان میں کیا کیا ٹھگ ملے۔ شاید ہم سب ٹھگ ہی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ٹھگوں کا سردار ٹھگ ہی ہوتا ہے‘ پھر گلہ کیسا!
میں 31ویں منزل پر ٹھہرا ہوا ہوں ۔ شہر کو بلندی سے دیکھنے کا نیا تجربہ ہے۔ بلندی سے ڈر لگتا ہے۔ نیچے دیکھنے سے گھبراتا ہوں۔ بلند اور صاف ستھری عمارتوں کے درمیان رہنا ایک عجیب سا تجربہ ہے۔ لگتا ہے آسمان کا ہمسایہ ہوگیا ہوں ۔ اب نیچے چلتے پھرتے عام لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا ۔ احساس برتری ہورہا ہے۔ کتنا اچھا لگتا ہے بلندی پر رہنا ۔ جتنی یہ عمارت بلند ہے اتنی ہی یہ تنہا ہے۔ پاولو کوہیلو کا ناول Winner stands alone یاد آیا ۔ کیا شاندار ناول ہے۔ جتنا آپ زندگی میں اوپر جاتے ہیں اتنے ہی تنہا ہوتے چلے جاتے ہیںاور دشمنوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ تنہائی کے احساس نے گھیر لیا اور میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں ۔ باہرنیویارک کی شام ڈھل رہی ہے۔ چاند بھی بلند و بالا روشن عمارتوں کے درمیان سے اپنی شکل دکھانے کو بے چین لگ رہا ہے۔ جب عمارتیں روشن نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک میں چھوٹے سے چاند کی خوبصورتی میں ڈوبا رہا ۔ دو عمارتوں کے درمیان اسے چمکتے دیکھ کر عجیب سی اداسی حملہ آور ہوئی۔ گائوں یاد آیا ، گائوں کی روشن راتیں اور گلیاں یاد آئیں۔ابھی بجلی نے گائوں کا رخ نہیں کیا تھا ۔ رات گئے گھر کے صحن میں چاند کو چارپائی پر لیٹ کر گھنٹوں تکتے رہنا اور تکتے تکتے چاند کی میٹھی آغوش میں سوجانا۔جہاں بجلی اپنے ساتھ نئی دنیا لائی وہیں بدلے میں پوری رات کا چاند اور تاروں بھرا آسمان چھین کر لے گئی۔
میری نظریں ابھی تک نیویارک کی ایک بہت دور سڑک پر جمی ہوئی ہیں جہاں ٹریفک رک چکی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے نیچے گیا تھا۔ کافی دیر پیدل چلتا رہا ۔ سامنے نیویارک پبلک لائبریری نظرآئی۔ لوگ اندر بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ کتنی مدت بعد کوئی لائبریری سڑک کنارے نظر آئی اور وہ بھی امریکہ میں۔ پورے پاکستان کو چھوڑیں، اسلام آباد کی ہی مثال دیکھ لیں۔ کوئی لائبریری نہیں بچی۔ بچوں کی لائبریری تھی جس پر لال مسجد کے بہادروں نے قبضہ کر لیا اور پھر چاند ماری ہوئی‘ سب کچھ تباہ ہوگیا ۔ پھر سب کچھ بحال بھی ہوگیا لیکن لائبریری بحال نہ ہوسکی۔اسلام آباد میں ایک ہی سنٹرل لائبریری ہے جو وزیراعظم ہائوس کے بازو میں ہے، اگر کسی میں جرأت ہو تو اس طرف جا کر دکھائے۔
آگے بڑھا تو کتابوں کی ایک بڑی دکان دیکھی۔ قدم رک گئے۔ ابھی وہاں سے چلا ہی تھا کہ نیویارک کی ایک ٹیکسی میں بیٹھے ایک پاکستانی نے مجھے دیکھ کر مسکراہٹ دی ۔ زور سے بولا‘ آپ کے کالم شوق سے پڑھتا ہوں۔ میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔ وہ ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا‘ میں آگے نکل گیا‘ آگے جا کر افسو س ہوا وہ تو کار نہیں چھوڑ سکتا تھا میں ہی چند قدم آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملا لیتا‘ کیا فرق پڑجاتا ۔ اتنے ہجوم میں اس نے کتنی چاہت سے آواز دے کر اپنی طرف راغب کیا تھا‘ اپنے اوپر کچھ غصہ آیا‘ اتنی انا ، یہ اکڑ کس لیے ؟ شرمندہ ہوا۔ پھر دل کو تسلی دی‘ خیال نہیں آیا ورنہ چند قدم آگے بڑھنے میں کیا حرج تھا؟
تیز ہوا اچھی لگ رہی تھی ۔ چہرے سے ٹکراتی تو عجیب سی مسرت کا احساس ہوتا‘ جیسے کسی چھوٹے بچے نے پیار سے آپ کے گالوں کو بے ساختہ چوم لیا ہو۔ یاد آیا پچھلے سال لانگ آئی لینڈ کے اپنے مشتاق احمد جاوید کا مہذب بیٹا حمزہ مشتاق مجھے سنٹرل پارک کے قریب ایک فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان پر لے آیا تھا ۔ حمزہ نے مجھے کتابوں کے پیسے بھی نہیں دینے دیے تھے۔ قدم بے ساختہ اس طرف بڑھ گئے۔ پرانی کتابیں دیکھتے ہوئے ہنری ڈی بالزاک کے ایک ناول نے قدم روک لیے۔ نعیم بھائی یاد آئے جنہیں بالزاک سے عشق تھا‘ آنکھیں بھیگ گئیں۔ ارنسٹ ہمینگوئے کا ناول اٹھایا Men without women۔ دونوں کے پیسے ادا کیے‘ واپس لوٹ آیا ۔
فلیٹ پر پہلے ہی سابق امریکی صدر نکسن کی کتاب The Leaders آئی رکھی تھی۔ پاکستان میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر نہ ملی۔ جارجیا میں بھائی اعجاز احمد سے درخواست کی تھی کہ وہ بھجوا دیں۔ وہ ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ کسی کتاب کی فرمائش کروں۔ کتابیں اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دی ہیں۔ دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا ۔ لگتا ہے ابھی تک جہاز میں ہوں ۔ ذہن پھر سفر کی طرف لوٹ گیا ۔
یاد آیا ابوظہبی ایئرپورٹ پر ہم تین پاکستانیوں کو‘ جو امریکہ کا سفر کر رہے تھے‘ روک کر کمرے میں بٹھا کر بورڈنگ کارڈز لے لیے گئے۔ ہم تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کچھ شرمندگی کے احساس سے مسکرائے کہ امریکہ جانے والے تین سو مسافروں میں سے ہم ہی مشکوک ٹھہرے ۔ آدھے گھنٹے بعد ایک صاحب تشریف لائے۔ بورڈنگ کارڈز واپس کیے اور کہا آپ جا سکتے ہیں ۔ نہ سوال نہ جواب ۔ امیگریشن پر پہنچا تو ایک خاتون نے پاسپورٹ دیکھ کر کہا ، میرے ساتھ آئیں ۔ وہ ایک اور کمرے میں لے گئی جہاں ہر رنگ اور نسل کے لوگ موجود تھے۔ تسلی ہوئی چلیں ہم اکیلے پاکستانی ہی مشکوک نہیں، تعداد بڑھ رہی ہے۔ کافی دیر بعد نام پکارا گیا تو خوبصورت لڑکی کے سامنے کائونٹر پر پیش ہوا ۔ چند روایتی سوالات پوچھے ۔ امریکہ کیوں جارہے ہیں؟ واقعی ایک لمحے کے لیے میں نے بھی اپنے آپ سے پوچھا کیوں جارہا ہوں۔ اپنے ملک میں کیا خرابی ہے۔ ان دنوں اسلام آباد میں مون سون کی بارشیں شروع ہوچکی تھیں۔ المونیم کی کھڑکی سے لگ کر کتنی دیر تک تیز بارش کے ناراض قطروں کے گرنے کی غصیلی آوازیں سنتا رہتا تھا ۔ جب جی چاہا کافی کا مگ بنایا اور پھر کھڑکی کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور گھنٹوں بارش سے باتیں۔ ابھی تو ملتان سے جمشید رضوانی، شکیل انجم، آصف کھتران نے چونسہ آم بھجوانے تھے۔ پھر امریکہ کیوں جارہا ہوں؟ مجھے کسی اور دنیا میں ڈوبا دیکھ کر وہ لڑکی پریشان ہو گئی‘ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ میں نے چونک کر کہا جی جی! شاید رات بھر سفر کی تھکاوٹ ہے۔ شاید اسے بھی محسوس ہوا اب وہ بچے کی جان لے گی کیا؟ پاسپورٹ پر مہر لگا کر بولی امریکہ تشریف لے جائیں ۔
اس خوبصورت لڑکی کو دیکھا ، پاسپورٹ پکڑا اور حیران ہوا دو گھنٹے کس بات پر ٹھہرایا گیا؟ خیر اپنے سر کو جھٹکا‘ سب چلتا ہے۔ہم تو اپنے ملک میں مشکوک ہیں‘ جہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی فتویٰ لگتا رہتا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر امریکن نے بھی دو گھنٹے کے لیے مشکوک سمجھ کر انتظار کرایا؟
واشنگٹن ایئرپورٹ پر اپنے دوست اکبر چودھری لینے آئے ہوئے تھے۔ ان کی طبیعت کی خرابی کی خبریں مل رہی تھیں ۔ انہیں گلے مل کر ٹٹولا تو وہ مسکرا پڑے۔ بولے رئوف بھائی سب کچھ ٹھیک ہے۔ بس ہر سال تھوڑی سی اوورہالنگ کرانی پڑتی ہے۔ مجھے یار غار ہما علی اور عامر متین نے پریشان کر دیا تھا کہ اکبر سے فون پر بات ہوئی تو آواز سے ڈھیلے لگ رہے تھے۔ اسی رات ورجینیا ہی میں دانشور اور کالم نگار منظور اعجاز کے گھر محفل جمی ۔ اپنے صحافتی گرو شاہین صہبائی اور صحافی دوست واجد علی سید کے ساتھ گپ لگی ۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی کو فون کیا ۔ عاصم ہمارے لیے فرشتہ ثابت ہوا تھا۔ اگر زندگی میں کچھ اچھے کام کیے تھے تو خدا نے عاصم صہبائی کی شکل میں اسی دنیا میں ہی ان کا پھل دے دیا تھا ۔
دو دن بعد اکبر بھائی نے بڑا زور لگایا وہ گاڑی پر مجھے نیویارک چھوڑ جائیں گے۔ میں نے کہا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ مجھے بس پر بٹھا دیں نیویارک چلا جائوں گا ۔ ڈیلاور سے زبیر بھائی کا فون تھا‘ وہ صبح مجھے ورجینیا سے لے کر نیویارک چھوڑ دیں گے۔ تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا ۔ بس پکڑی تو راستے میں جارجیا سے اعجاز بھائی کا فون آگیا ۔ بولے وہ کسی کو کہہ کر گاڑی کا بندوبست کرادیتے ہیں۔ میں بولا سر جی! ہم گائوں میں بچپن میں کھوتا ریڑھی پر سفر کرتے تھے۔ اللہ نے مہربانی کر دی ہے۔ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اتنی اچھی بس اور خوبصورت سفر‘ ناشکری کیسی!
مشتاق جاوید صاحب کا فون تھا ۔ بولے سینیٹر طارق چودھری فیصل آباد سے میامی پہنچ چکے ہیں‘ آپ کا انتظار ہے۔ مشتاق صاحب پچھلے سال تک نیویارک آئی لینڈ میں تھے۔ ان کے ہنرمند اور قابل بیٹوں کا کاروبار میامی میں خاصا جم گیا ہے۔ میں، طارق چودھری اور خالد بھائی ہرگز خوش نہیں۔ وہ نیویارک چھوڑ کر کیوں میامی جا بسے ہیں۔ ایک رہنے کا ٹھکانہ تو تھا‘ اب ہم نیویارک میں کہاں رہیں گے؟
رات کافی ڈھل چکی ہے۔ شاید غلط کہہ رہا ہوں ۔ نیویارک میں رات ڈھلتی نہیں‘ جوان ہوتی ہے۔ بلندی سے گاڑیوں کی رینگتی ہوئی قطار کا ایک عجیب منظر۔ چیونٹیوں کی رفتار سے چھوٹی سی گاڑیاں چلتی اچھی لگ رہی ہیں ۔
کھڑکی سے سر ٹکائے دور کہیں گاڑیوں کی گنتی میں گم‘ اچانک گائوں پر میٹھی روشنی پھیلاتا صدیوں پرانا کھویا کھویا چاند یاد آیا ۔ یوں لگا جیسے دل اپنے گائوں سے ہزاروںمیل دور اس اجنبی دھرتی پر رک جائے گا ۔ گھبرا کر نیویارک کے آسمان پر طویل قامت عمارتوں کے درمیان چاند کو تلاش کرنے کی کوشش کی‘ بہت دیر ہوچکی تھی ۔ مایوس ہو کر اداس آنکھیں بند کر لیں!