تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     24-07-2015

ٹیکس بنیاد اور حقائق

یہ مفروضہ کہ ہماری ٹیکس بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاداور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پچاس ملین سے زیادہ پاکستانی لاتعداد ایڈجسٹ ایبل یا نان ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکسز کے دائرے میں ہیں۔ یہ ٹیکسز کل آبادی کو انکم ٹیکس کے دائرے میں لاتے ہوئے اُن افراد سے بھی جبری انکم ٹیکس وصول کرلیتے ہیں جن کی آمدنی قابلِ ٹیکس آمدن سے کم ہے۔ یہ لاکھوں افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ریٹرن ٹیکس فائل جمع نہیں کراتے، تو اس سے غلط تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہماری آبادی کا بہت کم حصہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ 
درحقیقت انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن ریٹرن فائل جمع کرانے والوں کی تعداد 2014ء میں صرف 856,229 تھی۔ اس سے پہلے 2011ء میں یہ تعداد 1,443,414 تھی۔ ایک وقت تھا جب ایف بی آر کے پاس ریٹرن فائل جمع کرانے والوں کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے حکام کو ٹھنڈ ے دل سے اپنا محاسبہ کرناہوگا کہ کیا خرابی واقع ہوئی اور یہ ریٹرن فائل جمع کرانے والے کہاں غائب ہوگئے؟درحقیقت یہ تنزلی کسی بھی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہیے لیکن ایف بی آر اس سے مکمل طور پر اغماض برتاہے، جیسا کہ یہ کوئی معمول کی صورت ِ حال ہو۔ 
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق جولائی 2014ء میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 140,022,516 تھی۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد، اپریل 2015ء میں یہ تعداد کم ہوکر 131,865,579 رہ گئی۔ ایک بڑی تعداد میں موبائل فون صارفین ، جن کی تعداد پچاس ملین سے کم نہیں،نے 2014ء میں 14 فیصد انکم ٹیکس اور 19.5 فیصد سیلز ٹیکس ادا کیا، لیکن ان میں سے صرف 1.7 فیصد نے ریٹرن ٹیکس فائل جمع کرائیں۔ ایف بی آر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس دستیاب مواد کو جانچنے کی زحمت نہیں کرتاورنہ وہ دولت مند صارفین کو ریٹرن فائل جمع کرنے پر مجبور کرتاہے۔موبائل فون صارفین کی اکثریت قابل ِ ٹیکس آمدن نہیں رکھتی، چنانچہ وہ قانونی طور پر ریٹرن فائل جمع کرانے کے پابند نہیں ۔ اگروہ ودہولڈنگ ٹیکس کی بابت ایسا کرتے ہیں تو اُنہیں ڈرہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر کے افسران کی زیادتیوں اور بے ضمیر ٹیکس مشیروں کی بدعنوانی کا شکارہوجائیں گے۔ 
خرابی کی اصل جڑ یہ افراد نہیں بلکہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو ٹیکس فائل جمع کرانے کی زحمت نہیں کرتے اور اس پر مستزاد یہ کہ ایف بی آر افسران اُن کا مکمل طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ یہ صورت ِحال بلاشبہ ایف بی آر کی نااہلی اور بے عملی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ کہ دولت مند اور طاقتور افراد اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ 2014ء میں ایک ملین سے دس ملین تک ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد محض 32,031 تھی۔ مہنگی گاڑیاں چلانے ، پرتعیش گھروں میں رہنے، غیر ملکی سفر کرنے اور وسیع وعریض جاگیریں رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 3,663 افراد نے دس لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ 
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 2015ء میں پاکستان کی کل آبادی 191.71 ملین ہے۔ ان میں سے 75.19 ملین شہروں جبکہ 116.52 ملین دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ کل آباد ی میں سے بیس ملین افراد کی عمر پندرہ سال سے کم ہے( اس کا مطلب ہے کہ اُن کا شمار کمانے والے افراد میں نہیں ہوتا)۔ ان افراد کو نکال کر ہمارے پاس دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس ہے۔ لیبرفورس سروے 2013-14ء کے مطابق اس کا حجم ساٹھ ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 56.52ملین کام کرتے ہیں جبکہ 3.58 ملین بے روزگار ہیں۔ روزگار رکھنے والوں میں سے 43.5 ملین کا تعلق دیہی افرادی قوت سے ہے۔ اگر ان تمام حقائق کو ملاکر پڑھیں تو2013-14ء کے ٹیکس سال کے دوران کمانے والے افراد کی تعداد 15ملین کے قریب تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اُس سال ٹیکس ریٹرنزاس کا صرف 5.7 فیصد وصول ہوئیں۔ اس طرح 94.3 فیصد کمی کا وسیع خلا پایا گیا۔ 
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ جن پچاس ملین موبائل صارفین نے انکم ٹیکس ادا کیا ، اُن میں سے اکثر کی آمدنی قابل ِ ٹیکس آمدن سے کم ہوگی، لیکن اُنہیں مختلف شرائط کے تحت ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایف بی آر بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور یہ کہ یہاں ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے۔ ایک قومی ٹیکس ادارے کی طرف سے پاکستانیوں کا یہ منفی تاثر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی ٹیکس اد اکرتا ہے لیکن جن افراد سے ٹیکس وصول کیا جانا ہے، اُن سے ایف بی آر وصول نہیں کرپاتا ۔ اس طرح یہ صریحاً ایف بی آر کی اپنی کوتاہی اور نااہلی کہ یہ براہ ِ راست اور بالواسطہ محصولات کے فرق کو کم کرکے معقول حد تک لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ اعدادوشمار بہت ہی سادہ ہیں اور ان کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی طرف سے کیے گئے ہائوس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے کے مطابق پانچ ملین افراد کی سالانہ قابل ِ ٹیکس آمدن پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ تمام افراد ریٹرن فائلز جمع کرائیں توموجود ٹیکس ریٹس کے مطابق ان سے تقریباً1500 بلین روپے وصول کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کمرشل کمپنیوں اور دیگر اداروں اور افراد ، جن کی آمدنی چار لاکھ سے10 لاکھ روپے کے درمیان ہے ، کو بھی اس میں شامل کرلیں تومحصولات کا حجم 5000 بلین روپے سے کم نہیں ہوگا۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایف بی آر نے 2014-15ء کے مالی سال کے دوران 1000 بلین روپے سے بھی کم ٹیکس جمع کیوں کیا؟
بالواسطہ ٹیکسز میں ہونے والی خرابیوں کی وجہ سے کل پوٹینشل کاصرف پچاس فیصد ہی جمع ہوسکتا ہے۔ 2013-2014ء میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 1002 بلین روپے ، وفاقی ایکسائز کی مد میں139 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں241 بلین روپے جمع کیے۔ ان شعبوں میں محصولات کا حجم 3000 بلین سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات پہلے بھی کہہ جاچکی ہے کہ پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کا حجم اٹھ ٹریلین ہوسکتا ہے۔ تاہم ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے کے طاقتور طبقات کو ٹیکس دائرے میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کرنے، محصولات کے نظام میں موجود عقربی خامیوں کو دور کرنے اور طاقتور افراد کو ٹیکس کی رعایت دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ہمارے بینک، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کمپنیاں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں اور یہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس موجود اعدادوشمار کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر منصفانہ ٹیکس بنیاد کا تعین کرسکتاہے۔جو افراد ریٹرن فائلز جمع نہیں کراتے، ان کے ٹیکس کا تعین عارضی جائزے (Provisional assessment) کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں عام افراد کوٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور ادانہ کرنے کے طعنے سننا پڑتے ہیںجبکہ انتہائی دولت مند افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 4 کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ریاست کسی شخص کو اُس بات پر مجبور نہیں کرسکتی جو قانون کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ ایک غریب شخص ، جس کی آمدن قانون کے مطابق قابل ِ ٹیکس نہیں، سے کس طرح جبری ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے؟ناانصافی پر مبنی موجودہ ٹیکس سسٹم ایک بیوہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیشنل سیونگ سنٹر میں کی گئی ا نوسٹمنٹ ، پنشن، گریجویٹی فنڈز، جو ا ُسے شوہر کی وفات پر وصول ہوئے، سے حاصل ہونے والی تین لاکھ کی آمدنی پر بھی ٹیکس ادا کرے (قابلِ ٹیکس آمدن چارلاکھ ہے)۔ یہی ادارہ دولت مند افراد سے بیس لاکھ کی آمدن پر صرف دس فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے، حالانکہ اُس سے 35 فیصد ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔ 
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے محصولات میں سے 75 فیصد بالواسطہ ہیں۔ ان کا بوجھ عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایف بی آراپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے کی بجائے عام آدمی کو مورد ِ الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ کیا اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی ذمہ داری پاکستان کے عام شہریوں پر عائد ہوتی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایف بی آر کے جو افسران اس صورت ِحال کے ذمہ دار ہیں، ان کا محاسبہ کیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved