تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-07-2015

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور ضیاء الحسن کی شاعری

سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے 
نہیں بیٹھیں گے... شہبازشریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سیلاب متاثرین کو ریلیف کی فراہمی اور بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ اگرچہ چین سے تو پہلے بھی نہیں بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ ہم نے آتے ہی کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ ختم ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ سو اسی دن سے بے چینی لگی ہوئی ہے اور اسی بے چینی میں کبھی سعودی عرب تو کبھی لندن میں مارے مارے پھرتے ہیں‘ اور جہاں تک سیلاب متاثرین کو ریلیف کی فراہمی کا تعلق ہے تو فوجی جوان یہ کام بڑے ذوق و شوق سے کر رہے ہیں کیونکہ آپریشن ضرب عضب کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے‘ اس لیے اب ان حضرات کو بھی چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ ہم اور وہ اگر ایک ہی صفحے پر ہیں تو چین سے بیٹھنا انہیں بھی زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ''امدادی کاموں کی خودنگرانی کر رہا ہوں‘‘ جبکہ پہلے بھی سارے کام میں خود ہی کر رہا ہوں کیونکہ کابینہ وغیرہ تو برائے نام ہیں اور سارا کام افسر ہی چلا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ 
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو 
آفت زدہ قرار دیا جائے... گیلانی 
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائے‘‘ جیسا کہ میرے عہدِ وزارت عظمیٰ میں عوام کو آفت زدہ قرار دیے جانے کی تجویز بھی پیش نظر تھی لیکن زرداری صاحب نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عوام کو آفت زدہ رہنے کی عادت ہی پڑی ہوئی ہے‘ اس لیے قرار دینے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ لہٰذا آپ اپنا کام جاری رکھیں؛ چنانچہ طوعاً و کرہاً مجھے اپنے معمولات جاری رکھنا پڑ گئے اور ایم بی بی ایس ہوتے ہوئے عوام کے علاج معالجہ پر ہی توجہ مبذول رکھی لیکن عوام کی کم اور میری صحت زیادہ بہتر ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ''متاثرین کے ٹیکس معاف کیے جائیں‘‘ جس طرح وزیراعظم نے خصوصی مہربانی کرتے ہوئے مجھے انکوائری وغیرہ سے معافی دلوائی ہے ورنہ سات ارب کے نصف تو پلی بارگیننگ میں واپس ہی کرنا پڑ جاتے اور سارا مزہ ہی کرکرا ہو جاتا۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
صحیح وقت پر غلط تحفہ 
معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کو آموں کا تحفہ بھجوانے پر مؤخرالذکر نے شکریے کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ آم تو ہمارے ہاں بھی کافی اور پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر کوالٹی کے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے جو صاحبِ موصوف نے ساڑھیوں کا تحفہ بھیجا تھا وہ بھی بیکار ہی گیا کیونکہ وہ تو اپنی اہلیہ کو کافی دیر پہلے سے ہی فارغ کر چکے تھے۔ مزیدبرآں بھارت میں جو ساڑھیاں تیار ہوتی ہیں وہ بھی پاکستانی ساڑھیوں سے ہزار درجے بہتر ہوتی ہیں اور ہماری تیار کردہ بنارسی ساڑھیاں بطور خاص پاکستان منگوائی جاتی ہیں جو کہ بنارسی ٹھگوں کے بعد ہماری مشہور صنعت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور اگر وزیراعظم پاکستان کو تحفہ بھجوانا ہی تھا تو کچھ عرصے کے لیے اسحق ڈار صاحب کو بھجوا دیتے کیونکہ یہاں پر حکومت خاصی مفلوک الحال ہو چکی ہے اور وہ ہمارے بھی دن پھیر دیتے یعنی ع 
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے 
......... 
اور‘ اب ڈاکٹر ضیاء الحسن کی ان غزلوں میں سے کچھ اشعار جو انہوں نے ہماری فرمائش پر ارسال کی ہیں: 
مرا گماں ہے کسی کا یقیں کہیں نہ کہیں 
یہ آسماں ہے کسی کی زمیں کہیں نہ کہیں 
عجیب طرح کا ہونا نہ ہونا ہے اُس کا 
جو لگ رہا ہے کہ ہے اور نہیں کہیں نہ کہیں 
ملی ہوئی ہی نہ ہوں سب یہاں وہاں کی حدیں 
وہاں سمجھتا ہوں جس کو کہیں یہاں ہی نہ ہو 
کام کرنا ہے کوئی کام نہ کرنے جیسا 
یعنی جینا ہے ترے ہجر میں مرنے جیسا 
کر دیا اُس نے محبت سے لبالب مجھ کو 
مجھ میں گرتا ہے ہمیشہ کسی جھرنے جیسا 
جان جاتی ہے وہ آغوش میں جب آتا ہے 
میری باہوں میں سمٹتا ہے بکھرنے جیسا 
ظاہر میں لگ رہا ہے ابھی ٹھیک ٹھاک ہوں 
بس لگ رہا ہے ورنہ کہاں رہ گیا ہوں میں 
کچھ پھول میری شاخ سے باہر نہ آ سکے 
اپنے وجود میں ہی نہاں رہ گیا ہوں میں 
باقی بچا ہوا ہوں میں کتنا ابھی ضیاؔ 
دیکھوں ذرا کہ کتنا کہاں رہ گیا ہوں میں 
دنیا بھی کچھ زیادہ نہ تھی ہم سے مطمئن 
ہم نے بھی چل چلائو کیا اور چل پڑے 
جب ہم کو اور کوئی ذریعہ نہیں ملا 
دریا کو ہم نے نائو کیا اور چل پڑے 
بازارِ زندگی سے ضیاؔ کچھ نہیں لیا 
بس ہم نے بھائو تائو کیا اور چل پڑے 
آنکھوں کے آسماں پہ جو اُڑتا ہے رات بھر 
طائر وہ زیرِ دام کیا اور سو گئے 
پیش آتے ہیں یوں مجھ سے مرے اہلِ قبیلہ 
میں شُتر ہوں اور صرف سواری کے لیے ہوں 
دریائوں کو کرتا ہوں ضیاؔ آب رسانی 
رستہ ہوں‘ کسی چشمۂ جاری کے لیے ہوں 
آج کا مقطع 
ہوتا رہا اندر تو ظفر گھر کا صفایا 
سویا کیے باہر کہیں دربان ہمارے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved