کوئی ایک ماہ قبل ''خالصتان کی آواز‘‘ کے نام سے روزنامہ 'دنیا‘ میں شائع ہونے والے مضمون پر دنیا بھر سے تائید و تنقید کے ساتھ ساتھ کئی سکھ نوجوانوں نے جو سوال سب سے زیا دہ اٹھایا، وہی سوال کچھ سکھ تنظیموں کی جانب سے بھی پوچھا گیا ہے کہ فرض کریں ہم خالصتان بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بغیر سمندر کے ہم کس طرح اپنی معیشت کو کامیاب بناسکتے ہیں؟۔ کانگریس اور جنتا پارٹی سے وابستہ بہت سے سکھ لیڈر اور ہندو دانشور، پروفیسراور تجزیہ کار بھی خالصتان تحریک سے الگ تھلگ سکھ نوجوانوں سے اکثر کہتے رہتے ہیں کہ جگجیت سنگھ چوہان اور خالصتان کے دوسرے سکھ لیڈروں سے کبھی یہ بھی تو پو چھو کہ ہمارے لئے سمندر کہاں سے لائو گے۔ یہ ایک ایسا اعتراض ہے جس کی آج کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ اگر آپ ہر طرف نظر یںدوڑا ئیں تو حیران رہ جائیں گے کہ اس وقت کرۂ ارض پر 45 کے قریب ممالک ایسے ہیں جن کے چاروں جانب صرف زمین ہے اور وہ سمندر سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ دنیا کے دو سب سے مشہور اور خوش حال ممالک سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا سمندر کی سہولتوں سے کوسوں دور ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ میں افغانستان اور اس کے ساتھ ازبکستان اور قازقستان کی مثال تو سب کے سامنے ہے جنہیں دنیا کے پینتالیس ممالک کی طرح 'Landlocked' کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ قازقستان دنیا کا9 واں سب سے بڑا ملک ہے جو دس لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا رقبہ 2065000 مربع کلومیٹر ہے۔ افریقہ کے 15، یورپ کے 15، سائوتھ امریکہ کے2 اور ایشیا کے12 ممالک کاشمار لینڈ لاکڈ ممالک میں ہوتا ہے اور خالصتان کو ان میں شامل کیا جائے تو ایشیائی ممالک کی یہ تعداد13 تک پہنچتی ہے۔ آپ یہ جان کر یقینا حیران ہوں گے کہ خالصتان دنیا کا اکیسواں بڑا ملک ہو گا جو58000 مربع میل یعنی تقریباً 150000 مربع کلو میٹر پر محیط ہو گا۔ 15 اگست 1947ء کو پنجاب کی علیحدہ سکھ ریا ست کو بننے سے روکنے کیلئے دولت کے لالچ اور اقتدار کی بندر بانٹ کے دلفریب وعدوں سے ماسٹر تارا سنگھ جیسے جہاندیدہ آدمی کو سہانے خوابوں کی جھلکیوں سے بیوقوف بنایا گیا اور یوں جواہر لال نہرو نے سکھوں کو ان کی اصل پہچان سے محروم کیا۔ پھر 1966ء میں اس کی بیٹی اندرا گاندھی نے پنجاب کے ٹکڑے کر کے سکھوں کو ایک تہائی اکثریت سے محروم کر دیا۔ اس وقت سکھ بہت ہی روئے پیٹے کہ ہمارا ایک بار پھر بٹوارہ کیا جا رہا ہے لیکن اندرا گاندھی نے ان کی ایک نہ سنی اور چند بڑے بڑے سکھ لیڈروں کو اہم ترین عہدے دے کر رام کر لیا ۔ ماسٹر تارا سنگھ اپنی زندگی کے آخری ایام میں صرف یہی دکھ لئے رخصت ہو گئے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی، میں جناح اور نہرو میں فرق محسوس نہ کر سکا اور اپنی سکھ قوم کو جناح پر اعتبار کرنے کی بجائے برہمن کی غلامی میں جکڑ کر جا رہا ہوں، اب میری سکھ قوم کو برہمن کے اس شکنجے سے نکلنے کیلئے بہت قربانیاں دینی پڑیں گی۔ تاہم وہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئے کہ خالصہ آزادی لے کر رہے گا اور اس کیلئے اس کی روح با با گرونانک جی کے دربار میں پرارتھنا کرتی رہے گی۔ ماسٹر تارا سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری دن چندی گڑھ میں ایک سکھ پروفیسر کے پاس گذارے۔ اس سکھ پروفیسر سے مجھے دو تین مرتبہ ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بستر مرگ پر ماسٹر تارا سنگھ کہتے تھے کہ ان کی آتما کو اس وقت چین ملے گا جب سکھ مذہب کی اپنی ریاست اور اپنا راج ہو گا اور راج کرے گا خالصہ بھی صحیح معنوں میں اسی دن حقیقت بنے گا۔
خالصہ کو اپنی نگری‘ اپنے دیس میں رہنے اور راج کرنے کے تصور سے دور کرنے والوں کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ خالصتان اگر معرض وجود میں آ بھی جاتا ہے تو بغیر بندر گاہ کے کیسے اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا ۔یاد رکھیں کہ لینڈ لاکڈ ممالک کو ان کے بندر گاہ والے ہمسایہ ممالک کی جانب سے مکمل سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جس کیلئے وہ باقاعدہ ٹیکس وصول کرتے ہیں‘ اس لئے خالصتان کو دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات کیلئے کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان جیسا ملک اس کا اتحادی اور مدد گار ہو گا ۔ ہاں اگر کوئی تکلیف یا پریشانی ہو گی تو ہندو برہمن کوہو گی۔ سکھ قوم جب اپنا حق لینے میں کامیاب ہو گی تو افغانستان کی طرح اس کی بھی تمام تجارت پاکستان کے سمندروں سے ہو گی اور پھر جلد ہی سب دیکھیں گے کہ چند سال بعد ہی بھارت کی جانب سے بھی خالصتان کو سمندری حدود کے استعمال کی درخواستیں شروع ہو جائیں گی۔
سکھوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے با اختیار رہے ہیں۔ ہندوستان اور اس کے باہر کہیں بھی موجود سکھوں کا یہ دیرینہ خواب ہے کہ ان کا اپنا ملک ہو۔ آج سکھوں کی نئی نسل جیسے جیسے اپنے آبائو اجداد کے شاندار ماضی اور سکھوں کی زبوں حالی سے آگاہ ہو رہی ہے اس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طرح سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس کیلئے ان کی چند مشہور ترین ویب سائٹسkhalistan.net, sikh freedom.com, sikhlions.com اور roadtokhalistan.net کے نام لئے جا سکتے ہیں بلکہ اب تو ہر بین الاقوامی فورم پر سکھ اپنی علیحدہ شناخت ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپریشن بلیو سٹار کو اکتیس برس گذرنے کے بعد بھی گرو گوبند سنگھ کی طرح سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جو گولڈن ٹمپل میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے، ایک گرو کی طرح عزت و تکریم سے دیکھے جا رہے ہیں۔ جرنیل سنگھ آج کی نئی سکھ نسل کا ہیرو ما نا جا رہا ہے جس نے سکھ دھرم کی شان اور آن کی حفاظت کرتے ہوئے مردانہ وار اپنی جان قربان کر دی لیکن جان بچانے کیلئے گولڈن ٹمپل سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی ۔ اندرا گاندھی کا وزیر اعظم ہائوس میں قتل
اور 1984ء میں گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی کرنے والی بھارتی فوج کے جنرل برار پر 28 سال بعد اکتوبر2012ء کو لندن میں سکھ نوجوانوں کا حملہ پیغام ہے کہ سکھ پوری غیرت و حمیت کے ساتھ زندہ ہیں۔ افسوس کہ میڈیا نے اس واقعہ کو‘ جس طرح چاہئے تھا‘ ہائی لائٹ نہیں کیا؟۔
گولڈن ٹمپل میں خالصتانیوں کو برہمن کے تنخواہ دار شرومنی گردوارہ پربندھک کے سکھوں کی جانب سے چند دن ہوئے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ان کیلئے برہمن اور بھارتی فوج کی عارضی رکا وٹیں ہیں، بالکل اسی طرح جیسے قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی ہی چند مذہبی جماعتوں اور باچا خان کے پیروکاروں کی مخالفت کا بھر پور سامنا کرنا پڑا تھا۔ دنیا کا وہ کون سا مذہب ہے جس کا اپنا ملک نہیں ہے۔ یہودی جو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے انہیں امریکہ اور برطانیہ نے فلسطین میں آباد کرتے ہوئے اسرائیل بنا دیا۔ بدھ مت کو ماننے والوں کے کئی ملک ہیں لیکن اگر نہیں ہے تو صرف سکھ مذہب کا کوئی وطن نہیں، کوئی ملک نہیں۔ اگر اس حقیقت کو وہ خالصتان کی شکل میں پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سکھ ریاست کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں نہیں ہو گا کیونکہ خالصتان خوراک میںخود کفیل ہونے کے علا وہ دنیا کو اناج بھی بر آمد کر سکے گا۔ سکھ اپنے گرو صاحبان کی طرح اس قدر محنتی اور جفاکش ہیں کہ ان کا ملک دن رات ترقی کرے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کھرب پتی سکھ جب اپنا سرمایہ اور صنعتیں خالصتان میں منتقل کرنا شروع کر یں گے تو دو تین سالوں میں ہی ان کا شمار دنیا کے انتہائی امیر ترین ممالک کی صف میں ہو گا۔