تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     24-07-2015

سفر کا آغاز تو ہو!

میرے لیے یہ خبر دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی‘ کیونکہ یہ خبر افغانستان سے آئی ہے کہ وہاں بچوں کی کھلونا پستولوں اور دیگر کھلونا ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کلچر ہی ہتھیاروں کا ہو‘ ہتھیار کو مرد کا زیور کہا جاتا ہو‘ ہر دوسرا شخص کندھے پر بندوق لٹکائے نظر آتا ہو وہاں ایسے فیصلے چھوٹے نہیں سمجھنے چاہئیں۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب بڑوں کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ معاشرے سے متشدد رویے ختم کرنے کے لیے بچوں کی ابتدائی عمر سے ہی تربیت کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے بچے کے اردگرد ماحول کا تانا بانا ایسے بُننا چاہیے کہ وہ کھیل میں بھی‘ برداشت کرنا‘ معاف کرنا‘ ہمدردی کرنا سیکھیں۔ افغانستان میں اس فیصلے کا محرک دراصل اس عیدالفطر پر سو سے زائد افغان بچوں کا کھیل ہی کھیل میں کھلونا پستولوں سے زخمی ہونا ہے۔ دراصل بچوں کی کھلونا پستولوں کے ساتھ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی بُلٹس ہوتی ہیں جو بظاہر تو بے ضرر ہی ہوتی ہیں لیکن فائر کرنے پر پوری قوت سے پستول سے نکل کر چھوٹا موٹا زخم کر سکتی ہیں اور اگر پلاسٹک کی یہ چھوٹی چھوٹی گولیاں خدانخواستہ آنکھ میں لگ جائیں تو اس سے آنکھ بھی ضائع ہو سکتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کو جو چیز کھلونا سمجھ کر کھیلنے کے لیے دے دی جاتی ہے اس سے وہ دوسروں کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ افغانستان کے ہسپتالوں میں گزشتہ دنوں سو سے زائد بچے‘ انہی کھلونا پستولوں سے زخمی ہو کر علاج کے لیے پہنچے‘ بیشتر کی آنکھیں پلاسٹک کی گولی لگنے سے شدید زخمی تھیں۔ 
کھلونا پستولوں سے کھیلنا بچوں کے وقتی طور پر زخمی ہونے کے علاوہ ان کی نفسیات پر دوررس اثرات ڈالتا ہے۔ ان کی شخصیت میں تشدد پسند رویے فروغ پانے لگتے ہیں اور پھر حتمی نتیجہ ایسے معاشرے کی شکل میں نکلتا ہے جو بدقسمتی سے آج کل ہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں۔ جہاں خیر‘ ہمدردی‘ برداشت اور معاف کرنے کا رواج نہ ہو وہاں تشدد‘ استحصال اور بے حسی عام ہو جاتی ہے۔ شاید ایسے ہی حقائق کے پیش نظر پشاور میں کھلونا پستولوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ سردست یہ پابندی ایک ماہ کے لیے لگائی گئی تھی جس کا معاشرے کے پڑھے لکھے حساس طبقے اور سول سوسائٹی کے افراد نے بھرپور خیرمقدم کیا اور ڈی سی پشاور ریاض خان محسود کے اس انوکھے فیصلے کو سراہا۔ 
اگرچہ کچھ لوگوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ چار پانچ سال کے ناسمجھ بچے اگر پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیلنا پسند کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اتنی کم سنی میں انہیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ یہ ہتھیار اصل شکل میں کتنے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے کھلونوں پر ایسی پابندی کا جواز نہیں بنتا جبکہ معاشرے میں اصلی بندوقوں اور پستولوں کا رواج عام رہے‘ لیکن میرا خیال ہے یہ نقطۂ نظر رکھنے والے افراد اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بچے کی ذہن سازی کا عمل تو اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے‘ تین سے پانچ سال کے درمیان اس کی سوچ کی بنیادیں رکھ دی جاتی ہیں اور یہی وہ عمر ہے جس میں پہلے والدین‘ پھر سکول اور پھر پورے معاشرے کو ایک اہم ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ ان کے رویوں میں مثبت چیزیں فروغ پائیں۔ بچوں کی نفسیات اور رویوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نفسیات بھی یہی کہتے ہیں کہ بچوں کی نازک انگلیوں کو پستول کے ٹریگر دبانا نہ سکھائیں بلکہ ان کے ہاتھ میں رنگین پنسلیں دیں۔ مصوری کے برش پکڑائیں تاکہ وہ مثبت اور خوب صورت سرگرمیوں میں مصروف رہ کر مثبت چیزیں سیکھیں۔ 
بچے ایک سیاہی چوس کی طرح ماحول کو Absorb کرتے ہیں‘ کم سنی میں جن رویوں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں یا جو مشاغل اور دلچسپیاں ان کی شخصیت کا حصہ بنتی ہیں‘ نوجوانی میں بھی ان کے اثرات قائم رہتے ہیں۔ فیصل آباد میں ہونے والا یہ حادثہ آپ کی یادداشت سے محو نہیں ہوا ہوگا جس میں دو نوجوان جو میٹرک کے طالب علم تھے وہ کھلونا پستول ایک دوسرے کی کنپٹی پر رکھ کر سیلفی بنوا رہے تھے کہ پولیس کی گولی کا نشانہ بن گئے‘ ان میں ایک نوجوان شدید زخمی ہو کر ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ 
جہاں تک بچوں میں متشدد رویے (Agressive behaviour) پنپنے کی بات ہے تو ایسا صرف کھلونا ہتھیاروں پر پابندی لگا کر ہی ممکن نہیں ہوگا۔ ننھے بچے جو کارٹون گھنٹوں کے حساب سے دیکھتے ہیں ان کو کبھی بڑے بھی دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان سے بچے منفی اثرات لے رہے ہیں۔ مثلاً سپر پاور رکھنے والے کارٹون کریکٹر کو جب بچے دیکھتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت ایکشن میں ہے‘ مار دھاڑ کر رہا ہے تو وہ خود کو بھی وہی سپر پاور رکھنے والا کردار سمجھنے لگتے ہیں اور اسی طرح کی مار دھاڑ والی حرکتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیو گیمز میں ایڈونچر سے بھرپور جو توڑ پھوڑ‘ مار دھاڑ دکھائی جاتی ہے اس سے بچے بھی جارحانہ رویے اپنانے لگتے ہیں۔ ایک ماں کی حیثیت میں‘ میں متفکر رہتی ہوں کہ اپنے کم سن بیٹے کو ان کارٹونز اور ویڈیو گیمز سے کیسے بچائوں جبکہ ہمارے پاس ان کے متبادل کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ اور میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ ان سب چیزوں کو دیکھ کر خود کو بھی سپرپاور رکھنے والا ایک ایکشن کردار سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہمہ وقت وہ فائٹ کرتا رہے۔ بچوں ایسے جارحانہ رویے فروغ پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کی مصروفیت کے پیش نظر بچے کہانی سننے جیسی ایک خوبصورت سرگرمی سے محروم ہو گئے ہیں۔ کہانی سننا ایک ایسا عمل ہے جس سے بچوں کی امیجینیشن مضبوط ہوتی ہے اور وہ خود بھی کہانیاں سوچنے لگتے ہیں۔ ان میں تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ والدین شعوری کوششوں سے بچوں کی زندگیوں میں کارٹونز دیکھنے کی سرگرمی کو کم کر کے ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں جس سے ان کی شخصیت میں تخلیقی عنصر بھی فروغ پائیں‘ ان کے اندر حسِ جمالیات بڑھے‘ قدرت کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط ہو۔ اس کے لیے بچوں کو ابتدائی سطح کی باغبانی کی طرف راغب کیا جائے۔ اس کے لیے کسی باغ کی ضرورت نہیں محض مٹی کے دو تین گملوں میں بیج اُگا کر پودے لگا کر بھی بچوں کو اس سرگرمی سے متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ پرندوں کو دانہ ڈالنا‘ پودوں کو پانی لگانا‘ ان سب کاموں میں بچوں کو مصروف کیا جائے یہ کام چھوٹے چھوٹے سہی لیکن ایک خوبصورت شخصیت کی تعمیر کے لیے بہت اہم ہیں۔ 
خیبرپختونخوا حکومت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے دوسرے صوبوں کو بھی کھلونا پستولوں اور ہتھیاروں کی خریدو فروخت پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ نئی نسل کی تربیت کے حوالے سے جو ذمہ داری معاشرے پر عائد ہوتی ہے اُس سفر کا آغاز تو ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved