سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور جو کچھ میں سمجھ پایا ہوں‘ اس کے مطابق فیصلہ بھی سنا دیا ہے جو یہ ہے: ''آئندہ منصوبہ بندی کے بغیر انتخابات نہ کرائے جائیں‘‘۔ اس بلیغ جملے میں سپریم کورٹ کے لائق فائق جج صاحبان اصل فیصلہ لکھ گئے ہیں۔ سمجھنے والے کو اتنا اشارہ کافی ہے۔ جس سپریم کورٹ کو تحقیقاتی کمیشن بنا کر محض اپنی رپورٹ پیش کرنے کا اختیار دیا گیا ہو‘ وہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ جس معاہدے کے تحت یہ کمیشن قائم کیا گیا‘ اس کی بنیاد ہی اس پر تھی کہ حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کی جائے گی۔ دونوں فریقوں کی مشکیں کس کے باندھنے کے لئے‘ طرح طرح کی پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ جوڈیشل کمیشن کو واضح طور سے یہ معلوم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کہ 2013ء کے انتخابات قانون کے تقاضوں کے مطابق ہونے کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اسے تحقیق کرنا ہو گی کہ کیا انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کے لئے منظم دھاندلی ہوئی؟ اور کیا 2013ء کے انتخابات کا مینڈیٹ درست تھا؟ جج صاحبان نے چند الفاظ میں فیصلہ دے کر سارا معاملہ ہی حل کر دیا۔ اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ''آئندہ منصوبہ بندی کے بغیر انتخابات نہ کرائے جائیں‘‘۔ گویا واضح طور پر بتا دیا گیا کہ 2013ء کے عام انتخابات منصوبہ بندی کے بغیر ہوئے۔ وہ کسی بھی طرح عوامی مینڈیٹ کا اظہار نہیں تھے۔ آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لیا جائے۔ حکومت جیسے چاہے‘ اس رپورٹ پر فتح کے شادیانے بجا تے ہوئے اپنی کامیابی کے گیت گائے۔ اصل میں وہ کمیشن کو اپنی حقیقی رائے دینے سے نہ روک سکی اور وہ رائے یہ ہے کہ ''آئندہ منصوبہ بندی کے بغیر انتخابات نہ کرائے جائیں‘‘۔ یعنی انتخابات منصوبہ بندی کے بغیر ہوئے۔ ان گنت بے ضابطگیوں کا ذکر رپورٹ میں وضاحت سے کر دیا گیا۔ دھاندلی‘ بے ضابطگیوں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ ان کی جابجا نشاندہی سے ظاہر کر دیا گیا کہ دھاندلی ہوئی اور آئندہ اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔
جہاں تک عوامی ردعمل کا سوال ہے‘ وہ بے ساختہ اور حقیقت پسندانہ ہے۔ عوام نے نجی محفلوں اور سوشل میڈیا پر جتنی وضاحت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کر دی ہے‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے مشترکہ جذبات کیا ہیں۔ جس طرح پارلیمنٹ پر قابض جماعتیں گٹھ جوڑ کر کے مشترکہ اقتدار کو تحفظ دینے کے لئے‘ روایتی حربے استعمال کر رہی ہیں‘ اس کے جواب میں اسی طرح کا عوامی ردعمل سامنے آنا تھا۔ حکومت نے جس طرح عوامی دبائو سے جان بچانے کے لئے‘ جوڈیشل کمیشن کا حربہ استعمال کیا‘ اس سے صاف ظاہر تھا کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان‘ جو ملک کے آئینی سوالات پر حتمی جوابات دینے کی اہلیت رکھتی ہے‘ کو انتخابی دھاندلیاں تلاش کرنے کا
حق دینے سے اجتناب کیوں کیا گیا؟ صاف ظاہر تھا کہ حکومت‘ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو فیصلے کا اختیار دینے سے ڈرتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جب ملک کے اعلیٰ ترین جج صاحبان بیٹھ کر فیصلہ لکھیں گے‘ تو وہ کس طرح کا ہو سکتا ہے؛ چنانچہ ان سے فیصلے کا اختیار ہی لے لیا گیا اور ان کو محض ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے تک محدود کر دیا گیا‘ لیکن جج صاحبان اپنے آپ کو حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے سے نہیں روک پائے اور عوام نے عام انتخابات کے دوران‘ اپنی رائے کا جو اظہار کیا تھا‘ وہ اس پر قائم ہیں۔ حکمرانوں کے متحدہ محاذ نے عوام کا حق رائے دہی‘ کمیشن کے ذریعے سلب کر کے 'سٹیٹس کو‘ بچانے کا جتن کیا ہے‘ لیکن یہ موسم ظالمانہ نظام کو بچانے کے لئے ہرگز سازگار نہیں۔ بڑے بڑے پرانے نظام ختم ہو رہے ہیں۔ بادشاہیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ چند سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ تاریخ کے بڑھتے ہوئے طوفان کا راستہ روکنے کے لئے ناکافی ثابت ہو گا۔ پاکستان کے موجودہ حکمران طبقے تو پہلے ہی گلے سڑے مٹیریل کو جوڑ جاڑ کے تیار کئے گئے ہیں۔ آمریتوں کے سائے میں پروان چڑھی‘ نام نہاد سیاسی پارٹیاں‘ انقلابی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ اس بوسیدہ نظام کو بچانے کے لئے جن تند و تیز اور ذہین افرادی قوتوں کی ضرورت ہے‘ وہ عوامی امنگیں پوری کرنے کے جذبے ہی سے عاری ہیں۔ علوم و فنون کے مستری ڈھالنے کی مشین میں جو کچھ تیار ہو کے مارکیٹ میں آ رہا ہے‘ اس میں نہ قیادت کا شعور ہے اور نہ انسانی جذبوں اور خواہشوں کو سمجھنے کی اہلیت۔ کاسہ لیسوں کی ایک نئی نسل آمریت کے سائے میں پلے ہوئے رسہ گیروں کی خدمات انجام دے رہی ہے‘ جو انہیں تخلیقی صلاحیتوں سے عاری بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ انکوائری رپورٹ حاصل کر کے موجودہ حکمران ٹولہ بے فکری اور آسودگی کی لپیٹ میں آ کے‘ اپنے وجود کو لاحق خطرات کے احساس سے عاری ہو جائے گا۔ اس میں نشوونما پانے کی صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں۔ عوام کو بے حسی کے ساتھ روند کر‘ جس طرح ان کی رگوں سے خون نچوڑا گیا‘ اس کا نتیجہ برآمد ہو کر رہے گا۔ عوام نے گزشتہ چند برسوں کے دوران‘ جس قدر ظلم برداشت کئے‘ ان کی محنت کا جس بری طرح سے استحصال کیا گیا‘ جس طرح لہر در لہر مہنگائی کے جھکڑ چلا کے‘ ان کی جیبیں خالی کی گئیں۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم کئے گئے۔ ان کے جسم کمزور پڑنے لگے ہیں اور انہیں سانس کا رشتہ برقرار رکھنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ یہ وہ کیفیات ہیں‘ جن میں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی
تبدیلی کے لئے بے چین ہو جاتا ہے۔ اب اس طرح کی تسلیاں‘ دلاسے اور روٹی کے چند ٹکڑے‘ ان کے جذبوں اور امنگوں کو ٹھنڈا نہیں کر سکتے۔ یہ تبدیلی کیسے رونما ہو گی؟ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے نتیجے میں جنم نہیں لے گی۔ یہ ایک خود رو عمل ہو گا‘ جو اچانک سامنے آ جائے گا۔ اس وقت حکمران ٹولہ‘ اسی طرح اپنا سامان اٹھا کر گھروں سے پناہ ڈھونڈنے نکلے گا‘ جیسے آج کل سیلاب کی زد میں آئے ہوئے غریب کسان اپنی چارپائیاں اور گٹھڑیاں سروں پر اٹھائے‘ سیلاب کے پانیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ جو سیلاب حکمرانوں کے گھروں میں آنے والا ہے‘ وہ کہیں باہر سے نہیں آئے گا‘ وہ ان کے اندر ہی موجود ہے۔ عوام کو علاقے فتح نہیں کرنا پڑتے۔ وہ ان علاقوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں‘ جن پر قبضہ کر کے وہ اپنا نظام نافذ کرتے ہیں اور یہ انارکی سے نافذ ہوتا ہے۔ عوام کی خوش قسمتی سے حکمران طبقوں نے انارکی کو روکنے والے اپنے سارے اوزار‘ ایک ایک کر کے ناکارہ کر دیے ہیں۔ پولیس‘ نظام انصاف‘ قانون کی پاسداری جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ تباہی اسی وقت آتی ہے جب تبدیلی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں اور نادان حکمران ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی نادانی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ان کے مسلسل جبر اور اندھی مفاد پرستی نے سارے توازن درہم برہم کر دیے ہیں۔ عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ظالم حکمرانوں کے کارندے‘ حکمرانی کے سارے قابل عمل طریقوں سے ناواقف ہیں۔ جس طرح سندھ خصوصاً کراچی میں لاقانونیت پھیل چکی ہے‘ اور اسے ختم کرنے میں فوج بھی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی‘ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نظام تبدیلی کے جھکڑوں کا سامنا کرنے کے ہرگز قابل نہیں۔ پنجاب میں بغاوت کی لہر‘ انتظامی مشینری کے کنٹرول سے تیزی کے ساتھ نکل رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پہلے ہی بندوق سے بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اب وقت کے تقاضوں کے مطابق‘ وہی کچھ ہو گا جو ممکن ہے اور انتخابات سے عوامی خواہشات پوری ہونا ممکن نہیں رہ گیا۔ عوامی مفادات کے خلاف‘ سیاسی مک مکا کرنے والوں نے اپنے لئے خوش گمانی کی کوئی وجہ نہیں چھوڑی۔ اب جتنی بھی انتخابی اصلاحات کر دی جائیں۔ عوام کا اعتماد انتخابات سے اٹھ گیا ہے۔ تبدیلی کی جو خواہش عوام کو پولنگ سٹیشنوں تک لے کر جاتی تھی‘ اب وہ مایوسی میں بدلتی جا رہی ہے۔ وہ عمران خان‘ جس نے انتخابات میں لوگوں کے اعتماد کو ختم ہونے سے بچایا‘ اب خود کسی طرح کے انتخابات کی وکالت کرنے کے قابل نہیں رہ گیا۔ اب اسے تبدیلی کے لئے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ تبدیلی برپا کرنے والی قوتیں‘ یعنی نوجوان نسل‘ اب انصاف پانے کے لئے عمران کی طرف دیکھے گی اور اگر اس نے پھر بھی انہیں انتخابات کی راہ دکھانے کی کوشش کی‘ تو عمران خود بھی از کار رفتہ چیز بن کر رہ جائے گا۔ لوگ اپنی راہیں خود نکالیں گے۔ وہ وقت اب دور نہیں۔