تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     25-07-2015

روہنگیا

امریکی مسلمانوں کے ارتقا پر مبنی ایک نمائش دیکھنے کے لئے مسجد دار النور گیا تو وہاں ایک دیرینہ رفیق کار جن تابکش سے ملاقات ہو گئی۔چند سال پہلے تک وہ وی او اے کی برمی سروس سے وابستہ تھا۔وہ ایک روہنگیا ہے۔کہنے لگا: برمی مسلمان گو میانمار کی پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی کا چار فیصد ہیں مگر ان کی حالت دگر گوں ہے اور بنگلہ دیش سمیت خطے کا کوئی ہمسایہ ملک انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ان کے ملک میں مسیحی بھی اسی تناسب سے ہیں مگر وہ بھی اکثریتی بودھوں کے ہاتھوں پریشان ہیں اور قانون بھی ظالموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔اگرچہ 1990ء میں بڑی اپوزیشن جماعت نے ایک فیصلہ کن فتح حاصل کی مگر فوج نے اختیار چھوڑنے سے انکار کر دیا اور حزب مخالف کی رہنما آنگ سان سو چی کو طویل نظر بندی کا سامنا ہوا۔
برما‘ جسے اب میانمار کہا جاتا ہے‘ جنوبی ایشیا کے انگریزی استعمار کا حصہ ہے اور پاکستان سے چھ ماہ بعد آزاد ہوا تھا مگر پاکستان کی طرح وہ بھی آمروں کے ہتھے چڑھ گیا۔وہ آج تک میانمار کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔یہ تاثر سو فیصد درست نہیں کہ روہنگیا مسلمان ‘ بودھوں کے ستائے ہوئے ہیں۔بودھ خود فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں اور ان کے ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ فوجی جرنیل ‘ آبادی کو آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا رکھتے ہیں۔بودھوں اور مسلمانوں کے ما بین تشدد کا آغاز بقول بکش 2012ء میں ہوا اور تقریباً دو سو افراد مارے گئے اور اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں۔بہت سے روہنگیا میانمار کے شہری نہیں مانے جاتے۔وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزیناں کے قائم کردہ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ہائی کمشن کے اندازے کے مطابق ہزاروں مسلمان کشتی کے ذریعے فرار ہوئے‘ مگر مسلم اکثریت کے ملک بھی انہیں قبول نہیں کر رہے کیونکہ ان کے پاس شہریت کے کاغذات نہیں ہیں۔برما کی تاریخ‘ پاکستان کی تا ریخ سے ملتی جلتی ہے۔نسلی اور مذہبی فسادات جو وسط مشرق سے شروع ہوئے ‘ مانڈلے بھی پہنچے جو پاکستان کی جدوجہد کے حوالے سے ایک مقام تھا اور جس کے بارے میں مولانا ظفر علی خان کی ایک طنزیہ نظم موجود ہے۔
یہاں دستیاب اطلاعات کے مطابق شمالی برما کی ایک عدالت نے 153چینی باشندوں کو خلاف قانون لکڑی کاٹنے کے جرم میں بدھ کے دن عمر قید کی سزا ئیں دی ہیں اور اس وجہ سے رنگون اور بیجنگ کے تعلقات خراب تر ہیں۔ فوج نے انہیں صوبے کوچین سے‘ جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں‘ کچھ برمی لوگوں کے ہمراہ جنوری میں گرفتار کیا تھا۔
اگلے روز ایمنسٹی انٹر نیشنل نے برما میں صحا فیوں کی'' حالت زار‘‘ کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی‘ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ''خوف کی فضا میں سانس لینے ‘‘ پر مجبور ہیں اور وہاں'' جبر و استبداد کو ترقی کا لبادہ‘‘ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر پاکستانی قارئین کو جنرل ایوب خا ن کا '' عشرہ ترقی‘‘ یاد آیا ہو گا جس میں مکمل ہونے والے ہر منصوبے کو فوجی حکومت کی جھولی میں ڈال دیا جاتا تھا۔رنگون کی فوجی حکومت نے نسلی گروہوں کے ساتھ عشروں سے جاری '' مذاکرات‘‘ختم کر دیے ہیں اور ان تبدیلیوں کو غیر آئینی قرار دیا ہے جو اس کے ا ختیار کو محدود کرتی تھیں۔گویا ریاستی تانا بانا(سٹیٹ کرافٹ) بھی ایک حقیقت ہے۔ اوباما حکومت نے برما سے تعلقات معمول پر لانے کے جوش میں2011ء کے بعد وہاں'' ترقی کے رجحانات ‘‘ کی داد دی ہے۔ایک روہنگیا برمی اس تضاد پر حیران نہیں۔جواں سال وائی وائی نو‘ جوآزادی کے لئے لڑنے والے ایک مسلمان کی بیٹی ہیں‘ پچھلے دنوں واشنگٹن میں تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ برما کے بارے میں ''بین الاقوامی تاثر‘‘ زمینی حقیقت سے مختلف ہے۔وہ اور بکش اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ برما میں انسانی حقوق کی صورت حال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔پاکستان اور بھارت میں بھی سری نگرکے مظاہروں اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے مگر ہمارا دفتر خارجہ مصلحتاً خاموش رہا۔شاید اسے روس میں نریندر مودی سے نواز شریف کی ملاقات کا احترام اور انتظار تھا‘ جو غیر یقینی حالات میں منعقد ہوئی مگر اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کی تاشقند میٹنگ سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتا۔
یکم اپریل 2012ء کو ہونے والے الیکشن کے بعد‘ جو فوجی اثر و نفوذ سے مغلوب تھا‘ دنیا کودکھانے کے لئے حکمران کونسل توڑ دی گئی اور نام کے ایک سویلین تھائن سین ( Thein Sein)کو صدر بنایا گیا‘ جو آج بھی حکومت اور مملکت کے سربراہ ہیں۔گو آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 45 میں سے 43 پارلیمانی نشستیں جیت لی تھیں مگر سوچی کے صدر بننے کا خواب پورا نہ ہوا۔ اب بھی انہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کیونکہ آئینی طور پر ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لئے محفوظ رکھی جاتی ہیں جو نامزدگی سے پْر کی جا تی ہیں؛ تاہم انہیں اوسلو جانے اور امن کا نوبیل پرائز وصول کرنے کی اجازت مل گئی‘ جو انہیں 1991ء میں ملا تھا۔وہ ان دو ہزار سیاسی کارکنوں میں شامل ہیں جن کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے تھے۔اسی دوران کوئی ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو عام معافی بھی دی گئی اور یوں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو برما میں اپنا پیسہ لگانے پر آمادہ کیا گیا۔ اس پر یورپی یونین اور امریکہ نے میانمار کے خلاف اقتصادی پابندیاں معطل کر دیں۔ واشنگٹن میں برمی سفیر فخر سے یہ باتیں بتاتے ہیں اور ساتھ یہ کہتے ہیں کو آئین میں ہر اس فرد کو الیکشن میں حصہ لینے کی ممانعت ہے‘ جو ایک غیر ملکی سے بیاہا ہوا ہو یا جس کے بچے کسی دوسرے ملک کے شہری ہوں۔آنگ سان سْوچی بھی اس آئینی شق کی زد میں آتی ہیں۔ اگر اس شق کو ہمسایہ بھارت پر لاگو کیا جاتا تو راجیو گاندھی اس ملک کے وزیر اعظم نہ بن پاتے اور ان کی اہلیہ سونیا کانگرس پارٹی کی صدر نہ ہوتیں۔پاکستان میں تو بہت سے سیاستدان اور بیوروکریٹ‘ واشنگٹن‘ لندن یا دوبئی کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں اور اپنی اولاد کو تعلیم اور کاروبار کے لئے ملک سے باہر رکھتے ہیں۔ سفیر MyoHtut Kyaw نے اجڑنے والے لوگوں کی اکثریت کو بنگلہ دیشی قرار دیا اور بتایا کہ اس '' انسانی بحران ‘‘ کے ''علاقائی حل‘‘ کی کوشش ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا: جمہوریت کی منزل تک چھلانگ نہیں لگائی جا سکتی قدم بہ قدم بڑھا جاتا ہے۔
اوباما حکومت کو امید ہے کہ ریٹائرڈ اور حاضر فوجیوں کی حکومت آپ اپنی سیاسی موت کا سامان کرے گی۔ سوچی اسی طرح امریکہ کے موقف کی تائید کرتی ہیں جس طرح بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے آخری دنوں میں کیا تھا۔روہنگیا اور دوسرے برمی مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ وائی وائی نو بتاتی ہیں: '' لوگوں کو مظاہرے کرنے‘ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایسا کرنے کی آزادی ہے مگر جب وہ اپنے حقوق کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں‘ یا اپنی تعلیم کی بات کرتے ہیں اور زمین کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔‘‘ ایک بودھ سیاسی کارکن پھیو پھیو آنگ کو جیل میں ڈالا گیا۔ اس جواں سال خاتون کے خلاف ہر اس شہر میں‘ جہاں سے اس کا گزر ہوا تھا‘ پرچہ درج ہوا تھا۔
امریکی حکام کو امید ہے کہ خزاں کے عام انتخابات جمہوریت پسندوں کو مزید آئینی تبدیلیوں کے قابل بنائیں گے۔ یہ مایوسیوں کے اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہے۔اگر امریکی حکومت جبر و استبداد کے خاتمے کے لئے اپنی پالیسی میں کچھ ردوبدل کر لے تو یہ منزل قریب ہو سکتی ہے مگر برمی حکام تو اب تک پرانے حربوں پر انحصار کر رہے ہیں یعنی عوام کی گرفتاریاں‘ نگرانی اور پریس کے لئے '' سیلف سنسر شپ‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved