مشکلات اور رکاوٹیں بے تحاشا ہیں۔ اس قدر زیا دہ کہ امریکہ اور بھارت کل کو اپنے جسموں پر گرنے والی گرم پانی کے چھینٹوں کا تصور کرتے ہوئے‘ ابھی سے بے حال ہو رہے ہیں۔ یہ وہ گرم پانی ہے جس کی روس کو نہ جانے کب سے اور کتنی شدت سے خواہش تھی اور جو اب پاکستان سے لازوال دوستی اور اکنامک کاریڈور کی وجہ سے چین کی قسمت میں لکھا جا رہا ہے۔ چین کی مشرقی ریا ستیں اس کی مغربی ریا ستوں سے کئی گنا زیا دہ ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں۔ انہی مغربی ریاستوں میں سے ایک اُرمچی‘ سنکیانگ ہے‘ جہاں امریکہ اور بھارت دوسرے ملکوں کو ساتھ ملا کر دہشت گردی اور علیحدگی کی تحریکوں کو مسلسل ہوا دیے جا رہے ہیں۔ چین کو اپنے ان صوبوں میں دہشت گردی سے نمٹنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے‘ اس کے با وجود عوامی جمہوریہ چین ان ریاستوں کو بھی دوسرے ترقی یافتہ صوبوں کی صف میں لانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اس مقصد کیلئے چین کو بحیرہ عرب کے جن گرم پانیوں کی ضرورت تھی‘ وہ اسے گوادر بندر گاہ سے حاصل ہونے جا رہا ہے۔ چین کے لیے افریقہ سمیت دنیا بھر میں بحیرہ عرب کے ذریعے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے گوادر سب سے سستا اور سب سے آسان راستہ ہے۔امریکہ کو اس وقت جو خدشات سب سے زیا دہ پریشان کر رہے ہیں‘ وہ اس کے تھنک ٹینکس کی وہ رپورٹس ہیں‘ جن میں اسے خبردار کیا جا رہا ہے کہ گوادر بندر گاہ کے پاس'' چین اپنا نیول بیس بھی تعمیر کرے گا‘‘ اور یہ نیول بیس کہیں اور نہیں بلکہ بحر ہند میں ہو گا اور اس نیول بیس سے امریکی اور بھارتی بحریہ کی تمام نقل و حمل اور کارروائیوں پر بآسانی نظر رکھی جا سکے گی جو وہ اس حصے میں کسی بھی مقصد کیلئے جاری رکھے ہوئے ہوں گی۔ اس طرح امریکہ کو اپنا وہ منصوبہ زمین بوس ہوتا نظر آ رہا ہے جس کے تحت بھارت کو چین کا مقابلہ کرنے کیلئے جنوبی بحیرہ عرب کا بلا شرکت غیرے چوکیدار دیکھنا چاہتا تھا۔ امریکی اور بھارتی منصوبہ سازوں کو سامنے دیوار پر لکھا ہوا نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اس نیول بیس کی تعمیر سے ان کی وہ خواہش اندر ہی گھٹ کر مر جائے گی جس کے تحت وہ بحر ہند کو بھارت کی ایک جھیل دیکھ رہے تھے۔ امریکہ اور بھارت اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ چین پاکستان کی نیوی کو آنے والے وقتوں کیلئے بھر پور طریقے سے جدید ترین بنانے میں کوشاں ہے۔ بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ بحر ہند اور بحیرہ عرب کے ارد گرد کی سمندری حدود کیلئے چین پاکستان بحریہ کے لیے ایک دو نہیں بلکہ8 ایٹمی آبدوزیں مہیا کر رہا ہے‘ جن کی مالیت پانچ بلین ڈالر ہے اور ان میں سے ایک پاکستان پہنچ بھی چکی ہے۔ امریکیوں سے زیا دہ کون جانتا ہے کہ اس سے پاکستان نیوی کا معیار اور مورال کس قدر بلند ہو جائے گا اور یہ امر کبھی مت بھولیے کہ پاکستان نیوی کو تحریک طالبان کے ذریعے نشانہ بنانے کیلئے مہران بیس کراچی اور ڈاک یارڈ کراچی پر کروائے گئے دہشت گردوں کے حملوں میں بھارتی اور امریکی کارٹل کا بڑا ہاتھ تھا۔ گوادر کے ذریعے چین کی بحر ہند میں بھر پور موجودگی امریکہ اور بھارت کیلئے وہ خطرے کی گھنٹی ہے جو انہیں چین سے سونے نہیں دے رہی کہ اس طرح چین کے جنگی اور تجارتی جہاز''Malacca Dilemma'' کو روندتے ہوئے Malacca Strait کو بائی پاس کر جائیں گے۔ ساری دنیا جان چکی ہے کہ گوادر کی بھر پور تکمیل سے چین کی نیوی کی خلیج اومان اور بحیرہ عرب میں مستقل موجو دگی رہے گی اور اسMaritime Silk route سے چین کو بحر ہند سے جنوبی چین کے سمندروں تک محفوظ ترین راستہ مل جائے گا۔
یہ ہے گوادر بندر گاہ کا وہ سب سے حساس حصہ جس کیلئے امریکہ اور بھارت کا مشترکہ کارٹل گزشتہ دس برسوں سے بلوچستان میں دہشت گردی اور عسکریت کی تحریکوں کی ہر طرح سے بھر پور مدد کر رہا ہے اور جس کیلئے امریکی کانگریس اور سینیٹ کے رکن بھر پور مہم چلا نے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ بلوچستان میں عسکریت کی تحریکیں چلانے والے چند بلوچ سرداروں کے بیٹوں کو امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور مدد اور سرپرستی سے سوئٹرز لینڈ اور دوبئی میں جس طرح تحفظ دیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک جانب دہشت گردوں کیلئے امریکی سرپرستی ہے تو دوسری جانب چاہ بہار اور بندر عباس نامی ایرانی بندرگاہوں کی وجہ سے اوباما انتظامیہ سعودی عرب کی بجائے ایران کے قریب تر ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔امریکہ کو اس وقت پاکستان کے حوالے سے اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے‘ جیسی اسے1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے تھی۔ اسے پاکستان کا ایک ایٹمی طاقت بننا کسی طور گوارا نہ تھا‘ لیکن بھٹو حکومت ختم ہوتے ہی امریکہ کو افغانستان پر اپنے سب سے بڑے حریف روس کے قبضے کا سامنا کرنا پڑ گیا اور یہ ایسا وقت تھا کہ اس کے سامنے بھٹو کی جگہ پر ایک فوجی حکمران کھڑا تھا‘ جس کی مدد اور تعاون کے بغیر امریکہ روس کے سامنے بے بس تھا۔ اسے افغانستان میں روس کو نیچا دکھانے کیلئے سوائے اس فوجی حکمران کے کوئی بھی مدد اور تعاون نہیں دے سکتا تھا۔ دوسری جانب جنرل ضیا الحق اپنے ایٹمی پروگرام پر کسی بھی قسم کی سودے بازی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ایٹمی طاقت بننا پاکستانی فوج کے ہر سپاہی کی اولین خواہش تھی اس لیے امریکہ کو یہ کڑوا گھونٹ روس کی شکست کی صورت میں اس طرح پینا پڑا کہ افغان مجاہدین کی مدد اور انہیں پناہ دینے کے بدلے میں پاکستان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کی قیمت اسے طالبان اور دہشت گرد تنظیموں کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
موجودہ صورت حال سامنے رکھیں تو چین نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی راہداری کا معاہدہ کرنے سے بہت پہلے پاکستان کی فوجی قیا دت کو اپنے ہاں مدعو کرکے دل کی ہر بات اس کے سامنے رکھ دی تھی اور پھر جنرل راحیل شریف کے ساتھ یہ طے کیا گیا کہ چین کے ہنرمندوں کی حفاظت کیلئے پاک فوج کا ایک نیا فوجی ڈویژن تشکیل دیا جائے گا‘ جس کے ذمے ان تمام چینی ورکروں کی امریکی اور بھارتی دہشت گردوں سے حفاظت ہو گی‘ جو پاکستان بھر میں کسی بھی جگہ کام کر رہے ہوں گے ۔ چین کو پاکستان کے حکمرانوں کی امریکہ کے سامنے کسر نفسی کا بخوبی علم تھا اس لیے چھیالیس ارب ڈالر کا معاہدہ اس نے سابق صدر آصف زرداری یا موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ پاکستان کے جی ایچ کیو کی ثابت قدمی دیکھتے ہوئے کیا۔ اسے یقین ہو چکا ہے کہ اب اگر کسی بھی موقع پر کسی بھی لالچ یا دبائو میں آ کر پاکستان کی سول حکومت چین کے ساتھ طے کئے جانے والے منصوبوں سے گریز کرتی ہے یا اس کی رفتار کے حوالے سے کاہلی دکھاتی ہے تو فوج کی گارنٹی ان کے سامنے ہے‘ جو ان معاہدوں کو اسی طرح پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت اور دلچسپی رکھتی ہے‘ جس طرح بھٹو کے بعد ایٹمی قوت بننے کی۔اﷲ پاک چین دوستی اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے میں مدد کرے‘ آمین۔۔۔۔لیکن اس کیلئے ہر پاکستانی کو مرد مجاہد بننا ہو گا اور دشمن کی تمام توپوں کو روکنا ہو گا جو کسی گولہ بارود کے ساتھ ساتھ ہاتھ اور زبان سے بھی آگ اگلتی رہتی ہیں!!