2013ء کے عام انتخابات کے انعقاد کے فوراً بعد ہارنے والوں نے جیتنے والوں کو مبارک بادیں ارسال کیں۔ بیانات جاری کئے اور اپنے اپنے دائرے میں بہتر کارکردگی دکھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ پاکستان کے تین صوبوں میں تین مختلف جماعتیں اکثریتی (یا سب سے بڑی) جماعت کے طور پر اُبھری تھیں۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے حکومت بنانے کے قابل تھیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل نہیں تھی، تاہم وہ دو، تین چھوٹے گروپوں کو ملا کر حکومت بنا سکتی تھی۔ بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت قائم ہونا تھی کہ یہاں بھی کسی ایک جماعت کو فیصلہ کن نشستیں حاصل نہیں ہوئی تھیں۔ انتخابی نتائج سے پیدا ہونے والی ابتدائی خیرسگالی سے سرشار ہو کر مسلم لیگ (ن) نے اعلان کر دیا کہ وہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کی دوڑ میں شریک نہیں ہو گی۔ جمعیت العلمائے اسلام وہاں دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری تھی۔ دراصل اس کے مُنہ سے اقتدار کا نوالہ تحریک انصاف چھین رہی تھی کہ اگر یہ نئی جماعت میدان میں کود نہ پڑتی تو مولانا فضل الرحمن بلا شرکت غیرے خیبر پختونخوا پر اپنا جھنڈا لہرا دیتے۔ اب بھی وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر چھوٹی جماعتوں کو ورغلا سکتے تھے۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ میدان خالی نہ کیا جائے اور مسلم لیگ (ن) ان کی پشت پر ہاتھ رکھ دے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتوں پر قناعت کرنے کو بہتر جانا۔ خان صاحب کو خیبر پختونخوا میں زچ کرنے کو پنجاب کے گوشہ ٔ عافیت میں خلل اندازی کی دعوت کے مترادف سمجھا گیا۔ پس تحریک انصاف، خیبر پختونخوا کے ایوان اقتدار پر قابض ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے درمیان مسکراہٹوں اور مصافحوں کا تبادلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کو چودھری نثار علی خان کے ساتھ (یا ان کے توسط سے) بنی گالہ میں عصرانے پر مدعو کر لیا، جہاں اپنی روایت کے برعکس ان کی تواضع رنگارنگ پکوانوں سے کی اور دونوں کی ایسی تصاویر منظر عام پر آئیں، جن میں خان صاحب عجز کی اور میاں صاحب محبت کی تصویر بنے ہوئے تھے۔
عام انتخابات کے دودھ میں پہلی مینگنی جناب آصف علی زرداری نے اس وقت ڈالی، جب وہ لاہور میں اپنے عظیم الشان دولت کدے میں تشریف لائے اور میڈیا سے تبادلۂ خیال کیا۔ جنابِ زرداری کی پیپلز پارٹی کو وفاق اور پنجاب میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، سندھ کے دیہی حلقوں میں بھی ان کے حریف ان پر انگلیاں اُٹھا رہے تھے۔ زرداری صاحب نے اپنی پارٹی کی پرفارمنس کا ذمہ اپنے سر لینے کے بجائے اسے ریٹرننگ افسروں پر لادنے کی کوشش کی۔ ریٹرننگ افسر عدلیہ سے لئے گئے تھے اور تمام سیاسی جماعتوں نے منت سماجت کے بعد ان کی خدمات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ اپنے افسران کو انتخابی سیاست میں جھونکنے پر تیار نہیں تھی، لیکن سیاسی جماعتوں کے مطالبوں پر الیکشن کمیشن کی سماجت بھری استدعا کو شرفِ قبول بخش دیا گیا۔ ریٹرننگ افسران سیشن عدالتوں سے تعلق رکھتے تھے، سپریم کورٹ کا ان سے کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہوتا، لیکن چیف جسٹس افتخار چودھری کے ذوق خود نمائی (یا خدائی) نے انہیں ان سے خطاب پر اُکسایا اور چیف جسٹس صاحب نے بزعم خود ان کو وعظ پلا دیا۔ بس اِسی ایک بات کو بعد میں افسانہ بنا دیا گیا، بلکہ اس میں سے کئی افسانے تراشے گئے۔ زرداری صاحب نے اعلان فرمایا کہ حالیہ انتخاب تو آر اوز کا تھا، یعنی ریٹرننگ افسروں نے چیف جسٹس کی شہ پا کر جھرلو چلا دیا تھا۔ اسی طرح عدلیہ کو بحیثیت ادارے کے متنازع بنانے کی پُرزور کوشش کر ڈالی۔ یہی بات عمران خان کے کان میں اس وقت پھونکی گئی‘ جب وہ شوکت خانم ہسپتال میں اپنی کمر کی چوٹ کے ساتھ چاروں شانے چت پڑے تھے، اور زرداری صاحب نے ایوانِ صدارت سے انہیں فون کر کے ان کی مزاج پُرسی فرمائی تھی۔
عمران خان کا ابتدائی ردعمل آہستہ آہستہ نئی کروٹیں لینے لگا۔ پہلے پہل انہوں نے چار انتخابی حلقوں کے نتائج پر انگلی اٹھائی، ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں کھول دیا جائے، یعنی تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کا مقابلہ کرنے کے بجائے الیکشن ٹربیونلز کو کہہ دیا جائے کہ وہ ان حلقوں کے نتائج کو جس طرح چاہے ٹٹول اور پھرول لے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے کامیاب امیدوار اس پر تیار نہ تھے، وہ انتخابی عذرداریوں کا قانونی دفاع کرنے پر مصر تھے۔
ایک طرف یہ ہچر مچر جاری تھی، دوسری طرف جنرل پرویز مشرف پر دستور کی دفعہ 6 کے تحت انتہائی غداری کا مقدمہ پرورش پا رہا تھا۔ جنرل موصوف انتخابات میں حصہ لینے کے لئے واپس پاکستان پہنچ گئے تھے۔ فوجی قیادت نے انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ان کی آرزوئے سیاست کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ وہ قومی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے بے چین تھے، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے انہیں ڈس کوالیفائی کر کے ان کے ارمانوں پر بجلی گرا دی۔ اب جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ تھا، طرح طرح کے نوٹس ان کو جاری ہونے لگے یہاں تک کہ مارچ 2014ء میں انتہائی غداری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ اس مقدمے کی جو درگت بنی وہ تاریخ کا حصہ ہے، لیکن پاکستانی سیاست میں اس کے بعد بھونچال اُٹھنے لگے۔ عمران خان کے تیور بگڑے، طاہرالقادری بھی اپنے انقلاب کا پرچم لے کر پاکستان آ گئے۔ دونوں حضرات لندن میں خفیہ طور پر ملے تھے، لیکن پاکستان میں (بظاہر) ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہوئے، اسلام آباد کی طرف یلغار کے اعلانات کر رہے تھے۔ اب انتخابات مکمل طور پر دھاندلی زدہ قرار پا چکے تھے، وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ طلب کیا جا رہا تھا۔ عمران خان جلد از جلد نئے انتخابات کے حصول کے لئے بے تاب تھے، ان کا خیال تھا نواز شریف اور ان کی جماعت کا مُنہ وہ کالا کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو پھر انتخابات کے میدان میں ان کو کھڑا ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ عمران+قادری مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنوں میں تبدیل ہو گئے، پارلیمنٹ ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس (بزعم خود) ان کی زد میں تھے، جبکہ پی ٹی وی پر حملہ کر کے فن سپاہ گری کا مظاہرہ کیا جا چکا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد کی طرف عمرانی+قادری مارچ سے عین پہلے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا، جو انتخابات پر لگائے گئے (منظم دھاندلی کے) الزامات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا مجاز تھا، لیکن عمران خان اسے تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ استعفیٰ پہلے پیش کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں (پی ٹی آئی کے علاوہ) اس غیر دستوری مطالبے کے خلاف متحد ہو گئیں، میڈیا کا ایک حصہ بھی حکومت کی تبدیلی بذریعہ دھرنا تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا۔ کوئی بھی خلافِ دستور مطالبہ تسلیم کر کے پاکستان کے جمہوری مستقبل کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا تھا۔
وزیر اعظم کے استعفے کے حق میں عوامی طاقت کو مجتمع نہ کیا جا سکا، تو پھر سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے قائم کیا گیا، اور اس کے دائرہ اختیار پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں اتفاق ہو گیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے تو اتفاق رائے سے تحریک انصاف کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ منظم دھاندلی ثابت نہیں ہو سکی۔ 237 صفحات پر مشتمل رپورٹ تحریک انصاف کے لئے ''ہارٹ اٹیک‘‘ سے کم نہیں، لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی اوٹ میں شکار کھیلنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت کے دانت بھی کھٹے ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اس پہلے کمیشن کی رپورٹ نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ تحریک انصاف نے حسب وعدہ اسے قبول کر لیا ہے، لیکن اس کی اپنی سیاست کا مستقبل اب اس سے وابستہ ہے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھے، شارٹ کٹس کی تلاش جاری رکھی گئی تو اقتدار کی منزل ہمیشہ کے لئے اُوجھل ہو سکتی ہے۔ زخموں سے چُور تحریک انصاف اب وہاں پہنچ گئی ہے، جہاں 14 اگست 2014ء سے پہلے تھی۔ پہلے والی تب و تاب البتہ آتے آتے (واپس) آئے گی... اور کسی کو جو کچھ بھی ملا ہو، جنرل پرویز مشرف کو چین بہرحال مل چکا ہے۔ ان پر درج مقدمہ خدا معلوم کہاں دفن ہو چکا ہے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)