سیلاب متاثرین جلد گھروں کو واپس
جائیں گے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''سیلاب متاثرین جلد گھروں کو واپس جائیں گے‘‘ البتہ انہیں اپنے گھروں کو تلاش کرنا پڑے گا جو سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور چھتوں کی لکڑیوں اور دروازوں‘ کھڑکیوں کا سراغ لگانا ہوگا کہ وہ پانی میں بہہ کر کہاں کہاں تک پہنچے ہیں اور انہیں اکٹھا بھی کرنا ہوگا تاکہ حکومت ان کی تعمیر و تکمیل کے لیے اینٹوں وغیرہ کا انتظام کر سکے اور جلدی جلدی یہ کام مکمل کر لے کیونکہ حکومت کا بھٹہ کسی وقت بھی بیٹھ سکتا ہے جس سے اینٹوں کی زبردست قلت پیدا ہو جائے گی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''حکومت انہیں مالی امداد دے گی‘‘ لیکن مالی وسائل تو سارے کے سارے میٹرو بس اور سگنل فری سڑکوں وغیرہ پر خرچ ہو رہے ہیں اس لیے سیلاب متاثرین کو اپنی مدد آپ ہی کرنی ہوگی کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی درخشاں مثال سب کے سامنے ہے۔ آپ اگلے روز سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے تھے۔
کسی جماعت میں شامل نہیں ہو رہا‘ اپنی
جماعت بنائوں گا... جسٹس (ر) افتخار
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ''میں کسی جماعت میں شامل نہیں ہوں گا بلکہ اپنی سیاسی جماعت خود بنائوں گا‘‘ کیونکہ مجھے سیاست کا کافی تجربہ حاصل ہے کہ ججی کے دوران بھی اکثر و بیشتر میں یہی کام کرتا رہا ہوں اس لیے یوں سمجھیے کہ سیاست میرے گھر کی لونڈی ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو لونڈیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اپنی پارٹی کے نام میں جسٹس کا اضافہ کرنے کو ترجیح دوں گا‘‘ کیونکہ برخوردار ارسلان افتخار والے کیس میں جتنا جسٹس میں نے کیا تھا‘ اس کی مثال سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے میں بھی سرخرو ہوا اور ساری عدلیہ بھی‘‘ حالانکہ میرا سرخرو ہونا ہی زیادہ ضروری تھا کہ عدلیہ تو پہلے ہی سرخرو ہے البتہ آر اوز کا معاملہ ذرا پیچیدہ تھا کیونکہ میرا الیکشن کے بعد انہیں شاباش دینا بعض شرپسندوں کو راس نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئٹہ سے ہی سیاست کا آغاز کروں گا‘‘ کیونکہ کوئٹہ والوں کو ابھی میرے ہاتھ ذرا کم ہی لگے ہیں۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
دھرنا نوازشریف سے استعفیٰ لینے کی
خوفناک سازش تھی... جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان‘ اور اب انہیں سینئر سیاستدان ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اسمبلی کا منہ دیکھنا شاید انہیں کبھی نصیب نہ ہو‘ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''دھرنا نوازشریف سے استعفیٰ حاصل کرنے کی خوفناک سازش تھی‘‘ اگرچہ یہ سازش تو نوازشریف کے خلاف تھی لیکن اس سے خوف مجھے آ رہا تھا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ضمنی الیکشن میں میرے ساتھ کیا ہونا ہے اور نوازلیگ کی سپورٹ بھی میرے کسی کام نہیں آنی اور میں نے اِدھر کا رہنا ہے نہ اُدھر کا اور صرف سینئر سیاستدان ہونے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران اور قادری کو کٹھ پتلی کا کردار دیا گیا‘‘ حالانکہ میں یہ فریضہ زیادہ بہتر طور پر سرانجام دے سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''کمیشن کی رپورٹ کے بعد عمران خان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ قوم سے معافی مانگیں‘‘ ورنہ یہ کام بھی مجھے کرنا پڑے گا کیونکہ میں اس پارٹی کا صدر رہا ہوں اور ضمنی الیکشن میں اخلاقی فتح بھی میری ہی ہوئی تھی۔ آپ اگلے روز دنیا سپیشل میں بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت کی گردن میں سریا
نہیں آنا چاہیے... خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کی گردن میں سریا نہیں آنا چاہیے‘‘ کیونکہ جو پہلے سے موجود ہے‘ وہی کافی ہے اور ہم اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں جبکہ ویسے بھی میٹرو بس وغیرہ پر ان کی مل کا سارا سریا پہلے ہی خرچ ہو چکا ہے اس لیے نیا سریا دستیاب ہونے کا بھی زیادہ امکان نہیں ہے اور موجودہ سریے میں نرمی بھی مفاہمتی فارمولے ہی کے تحت آئی تھی ورنہ تو حکومت کے لیے گردن موڑنا بھی مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے چلتے رہنے چاہئیں‘‘ کیونکہ انہی کے سبب یہ بہاریں لگی ہوئی ہیں اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ ''دھاندلی کے خلاف تمام جماعتوں کا مؤقف ایک تھا‘‘ جس طرح کمیشن کے جملہ معزز ارکان کا مؤقف بھی ایک ہی تھا جس پر پورا پاکستان حیران ہے اور سالہا سال تک اسی حیرانی میں مبتلا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر جسٹس افتخار چودھری نے اپنی پارٹی نہ بنائی تو نواز لیگ میں ضرور شامل ہو جائیں گے‘‘ اور یہ خاک وہیں جا پہنچے گی جہاں کا خمیر ہے اور شاید وہ نوازشریف کے اشارے ہی کے منتظر ہیں اور اپنی خدمات کا صلہ بھی انہیں ملنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب افضل گوہرؔ کے کچھ اشعار جو انہوں نے ہماری درخواست پر پھلروان (سرگودھا) سے ارسال کیے ہیں:
تمام بوجھ کہاں خاکداں پہ پڑتا ہے
کبھی کبھی تو قدم آسماں پہ پڑتا ہے
مجھے تو پیڑ کی چھائوں نے روک رکھا ہے
وگرنہ ہاتھ تو ابرِ رواں پہ پڑتا ہے
بجھ گئی رفتہ رفتہ آتشِ دل
سانس سے بھی دھواں چلا گیا ہے
بھیڑ میں راستہ بناتے ہوئے
میں کہاں‘ تُو کہاں چلا گیا ہے
خامشی تُو ہی لاج رکھ میری
شورِ آہ و فغاں چلا گیا ہے
بسترِ شب پہ رہ گئیں شکنیں
اور میں خواب سے روانہ ہوا
عشق کرتا ہوں اُس سے میں گوہرؔ
جس سے ملنا بھی غائبانہ ہوا
جب تلک یہ زمین گھومتی ہے
پائوں ہوں گے رواں دواں میرے
جیسے تقسیم ہو گیا ہوں میں
تُو بھی بٹ جائے گا مکاں میرے
جنگ تو دوسروں کی تھی گوہرؔ
اور مارے گئے جواں میرے
اے پری زاد کچھ سہولت دے
عشق تجھ سے نیا نیا ہے مرا
کچھ نہیں اس کے سوا نیند کے سرمائے میں
رات سے بات ہوئی خواب کے پیرائے میں
پہلے میں خود میں اکیلا ہی رہا کرتا تھا
اب تو دنیا نظر آنے لگی ہمسائے میں
آج کا مطلع
بجھے بجھے اور راستوں پر پڑے ہوئے ہیں
کہ ہم ستارے ترے فلک سے جھڑے ہوئے ہیں