تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     26-07-2015

عبادات میں تسلسل

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات میں ارشاد فرمایا کہ انہوں نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اس مقصد کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرانے کے لیے سال بھر میں بعض ایسے ایام آتے ہیں‘ جن میں بکثرت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے۔
رمضان المبارک اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن اللہ تعالیٰ کے ذکر اور بندگی کی اہمیت کو پوری شدومد سے اجاگر کرتے ہیں۔ ان ایام کے گزر جانے کے بعد بھی انسان کو عبادات میں تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے۔ رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کا اگر جائزہ لیا جائے‘ تو ان میں بہت سے اعمال کو کسی نہ کسی اعتبار سے سارا سال بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ جن اہم اعمال کی تکرار رمضان کے بعد بھی مطلوب ہے وہ درجہ ذیل ہیں:
روزہ: اگرچہ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہے جبکہ باقی ایام میں روزہ رکھنا فرض نہیں؛ تاہم بہت سے نفلی روزوں کا اہتمام کرنا بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ شوال کے مہینے میں اگر چھ روزے رکھے جائیں تو پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ 9 ذوالحجہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آئندہ ایک برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جبکہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھنے سے انسان کی گزشتہ ایک برس کی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح حدیث و سنت سے ہر ماہ چاند کی 13، 14 اور 15 جبکہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا بھی ثابت ہے۔ گویا مسلمان پورا سال اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے اس کار خیر کو انجام دے سکتا ہے۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مفہوم ایسے کاموں سے اجتناب ہے جو انسان کو گناہگار بنانے والے ہوں۔ روزے میں انسان چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عارضی طور پر حلال کھانے اور اپنی شریک زندگی سے اجتناب کرتا ہے‘ اس لیے اُس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنے پروردرگار کے حکم کی تعمیل میں اپنے آپ کو حرام کاموں سے بچائے رکھے۔ رمضان المبارک کے بعد بھی انسان کو بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام کر کے اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی جستجو اور سعی کرنی چاہیے۔ 
تلاوت قرآن مجید: رمضان المبارک میں بالعموم مسلمان بکثرت قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ قرآن مجید کی تعلیمات اور احکامات محض رمضان المبارک تک محدود نہیں ہیں۔ قرآن مجید سارا سال پڑھنا چاہیے۔ اس پر غور و فکر کرنا، اس کی تعلیمات پر عمل کرنا، اس کے پیغام کو لوگوں تک منتقل کرنا اور اس کے قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا‘ ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے‘ جو ہمیں پورا سال پوری کرنی چاہیے۔ قرآن مجید کے ایک حرف کی تلاوت کرنے سے انسان کو دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید انسانوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پیغام شفاء اور رحمت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس رحمت اور نعمت کو رمضان المبارک تک محدود کرنے کی بجائے پورا سال اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے استفادہ کرنا چاہیے۔ 
انفاق فی سبیل اللہ: رمضان المبارک میں لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ مال کا چالیسواں حصہ ہے‘ جو ہر صورت میں ادا کرنی چاہیے۔ اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو روز قیامت اللہ تعالیٰ کے شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورہ توبہ کی آیت 35 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب الیم کی بشارت سنا دیجیے۔ اس دن سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) یہی وہ مال ہے جس کو تم اپنے لیے جمع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے مال سے خیرات دینے کی بھی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 92 میں ارشاد فرمایا: ''تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے‘ جو تم کو محبوب ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے غریبانہ طرز زندگی اختیار کیے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ آپ کو مال میں فراوانی عطا فرمائی‘ لیکن آپﷺ نے ہمیشہ اس مال کو ذخیرہ کرنے کی بجائے غربا میں تقسیم کر دیا۔ زکوٰۃ کے علاوہ اپنے اموال میں سے صدقات اور خیرات کرنے کی جستجو کرنا ہر مومن و مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس طریقے سے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے‘ وہیں پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے دکھ درد بھی بانٹ سکتا ہے اور یہ کام رمضان المبارک کے بعد بھی جاری و ساری رہنا چاہیے۔ 
دعا: اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ کی آیات نمبر 183 تا 185 میں جہاں روزے کی فرضیت کا ذکر کیا‘ وہاں آیت نمبر 186 میں ارشاد فرمایا کہ ''جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں‘ پس میں ان کے قریب ہوں۔ میں جواب دیتا ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کا‘ جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔ روزوں والی آیت سے متصل آیت میں دعا کا ذکر بلامقصد نہیں۔ چنانچہ رمضان المبارک کے بعد بھی بکثرت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں مانگنا چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر سابق انبیاء علیہم السلام کی دعائوں کا ذکر کیا کہ جب وہ پریشانی یا غـم میں مبتلا ہوتے تو اللہ کو پکارتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرما کر ان کو پریشانیوں سے نجات دے دیتے تھے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کے دوران، حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں، حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے میں اولاد کے حصول کے لیے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پردیس میں اللہ تعالیٰ کو پکارا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی دعائیں قبول فرما کر ان کی پریشانیوں کو دور فرما دیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بکثرت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مسلمانوں کو ماہ رمضان کے گزر جانے کے بعد بھی دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے۔
قیام اللیل: رمضان المبارک میں خصوصیت سے نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بالعموم رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد اسے ترک کر دیا جاتا ہے جبکہ تہجد اور قیام اللیل کا اہتمام کرنا غیرِ رمضان میں بھی انتہائی مفید ہے۔ نبی کریمﷺ اپنی حیات مبارکہ میں خصوصیت سے تہجد کا اہتمام فرماتے رہے۔ آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونے سے انسان اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور مستقبل میں گناہوں سے بچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
توبہ اور استغفار: رمضان میں کثرت سے توبہ و استغفار کی جاتی ہے۔ اس عمل کو سارا سال بھی جاری و ساری رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا کہ جو شرک، قتل اور زنا کا ارتکاب کرنے کے بعد ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیتا ہے۔ اسی طرح سورہ نوح میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر استغفار کرتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے رزق کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو اولاد نرینہ سے نواز دیتے ہیں اور اس کے لیے باغات اور نہروں کو آباد فرما دیتے ہیں۔ 
عمرہ: بہت سے متمول مسلمان رمضان المبارک میں عمرہ بھی کرتے ہیں۔ عمرہ سال بھر میں دوسرے مہینوں میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور یکے بعد دیگر عمرے کا اہتمام کرنے والے شخص کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ گناہوں سے محفوظ و مامون بھی ہو جاتا ہے۔
رمضان المبار ک کے بعد بھی عبادات کے تسلسل کو برقرار رکھنے سے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ وہیں پر اپنے مقصد تخلیق کو بھی پہچان جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved