انتخابی دھاندلیوں کا راگ پاٹھ بھی ختم ہوا۔ انکوائری کمیشن نے رپورٹ دے دی ہے کہ باضابطہ یا منصوبے کے تحت دھاندلی نہیں کی گئی۔ اور یہ کہ انتخابات مجموعی طور پر متعلقہ قواعد کے مطابق تھے۔ کہیں کہیں تھوڑی بہت بے قاعدگی ضرور ہوئی مگر وہ بھی بظاہر دانستہ نہیں۔ کسی کی نا اہلی یا کوتاہی کے نتیجے میں تھوڑے بہت ووٹ طریق کار سے ہٹ کر پڑگئے تو پڑگئے۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کے لیے انکوائری کمیشن کی رپورٹ بہت بڑا دھچکا ہے۔ وزیر اعظم نے انکوائری کمیشن کے مندرجات سے قوم کو آگاہ کیا۔ سب نے جان لیا کہ کمیشن کے ارکان نے تحقیقات کی روشنی میں انتخابات کو شفاف قرار دیا ہے۔ حکومت کے لیے تو یہ جشن کا لمحہ ہے۔ ویسے تو خیر قوم کو اندازہ تھا کہ انکوائری کمیشن انتخابات کو شفاف قرار دے ہی دے گا مگر اب باضابطہ رپورٹ آچکی ہے اور اس کے مندرجات بھی قوم کے سامنے ہیں۔ ایسے میں کئی سوالات ذہنوں میں سر اٹھا رہے ہیں۔ اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ اب عمران خان کیا کریں گے؟ ان کی سیاست کا بہت کچھ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے جڑا ہوا تھا۔ دھاندلی کے الزامات تو مسترد ہوچکے ہیں۔ ایسے میں تحریکِ انصاف سسٹم کو کس طور قبول کرے گی؟
عمران خان نے انتخابات کے فوراً بعد دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی سیاست شروع کردی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ درجنوں حلقوں میں پنکچر لگائے گئے یعنی ن لیگ کو جتوایا گیا۔ پنکچر کا نعرہ اتنی شدت سے لگایا گیا کہ اور بہت کچھ پنکچر ہوکر رہ گیا۔ دھاندلی کے نعرے نے زور پکڑا تو ملک کو دھرنے کی سیاست سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔ ساڑھے تین چار ماہ تک ملک کا پہیہ جام رہا۔ تحریکِ انصاف ڈٹی ہوئی تھی۔ عمران خان پُرعزم تھے کہ کسی نہ کسی طور دھرنے کے بطن سے اپنی مرضی کا سیاسی ایڈوانٹیج برآمد کرکے دم لیں گے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری بھی میدان میں تھے۔ عمران خان نے دھرنے کی صورت میں اپنا بہت کچھ، یا شاید سبھی کچھ داؤ پر لگادیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تب قوم نے عمران خان سے بہت سے توقعات وابستہ کر لیں۔ عوام کو یقین تھا کہ عمران خان سیاست میں کوئی نہ کوئی نیا ٹرینڈ ضرور متعارف کرائیں گے، کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور لائیں گے۔ عمران خان نے اس حد تک تو مایوس نہیں کیا۔ وہ نیا ٹرینڈ بھی لائے اور تبدیلی بھی متعارف کرائی۔ روایتی سیاست ایک طرف کھڑی تماشا دیکھتی رہ گئی اور عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کا میلہ سجالیا۔ قوم کو یقین تھا کہ قومی کرکٹ ٹیم کا سابق کپتان سیاست کی پچ پر بھی اچھی اننگز کھیلے گا اور چند ایسے چوکے اور چھکے ضرور لگائے گا جو مفادِ عامہ کے اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے کا سبب بنیں گے۔ ایک طرف قوم کچھ زیادہ جذباتی اور پُرامید ہوگئی تھی اور دوسری طرف عمران خان بھی سیاست کا پورا پیٹرن بدلنے کے معاملے میں کچھ زیادہ پُرجوش ہوگئے تھے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ قوم کی ایک اچھی خاصی اُمید خاک میں ملتی دکھائی دے رہی ہے۔
عمران خان سیاسی افق پر نیا سُورج بن کر ابھرے تھے۔ قوم کو یقین تھا کہ کرکٹ ٹیم اور کینسر اسپتال کو ڈھنگ سے چلانے والا سپورٹس مین سیاست کے میدان میں بھی قائدانہ کردار ڈھنگ سے ادا کرے گا اور کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرکے دکھائے گا جس سے روشن مستقبل کی طرف جانے کا راستہ نکلتا ہو۔ عمران خان میں قائدانہ صلاحیتوں کا یقیناً فقدان نہیں مگر مسئلہ کچھ اور ہے۔ جو کچھ اور بہت سوں کو برباد کرچکا ہے وہی کچھ عمران خان کے لیے بھی زہر ثابت ہوا ہے ع
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ!
کرکٹ کی دنیا میں اپنی مرضی سے کھیلنے والا سیاست کے میدان میں اب تک بیشتر وقت دوسروں کی مرضی کے مطابق کھیلتا آیا ہے۔ مصاحب اگر اچھا نہ ہو تو قوم کی رہبری کے لیے نکلنے والے اپنے آپ کو بھی درست راہ پر نہیں رکھ پاتے۔ بہت حد تک یہی کچھ کپتان پر بھی صادق آیا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں مضبوط پوزیشن کی بنیاد پر حکومت بنانے پر سب یہ سوچ رہے تھے کہ عمران خان خیبر پختونخوا کو رول ماڈل میں تبدیل کردیں گے تاکہ قوم اندازہ لگالے کہ اگر کبھی انہیں وفاقی حکومت کا سربراہ بننے کا موقع ملا تو ملک کس راہ پر گامزن ہوگا۔ اگر عمران خان اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے تمام صلاحیتیں اور ساری توانائی خیبر پختونخوا کو ''نیا پاکستان‘‘ بنانے پر صرف کردیتے تو ان کا سیاسی قد یقیناً خاصا بلند ہوچکا ہوتا اور قوم بھی مطمئن ہوچکی ہوتی کہ کینسر ہسپتال چلانے والا سپورٹس مین اب ملک کی ہر بیماری کو جڑ سے مٹانے کی راہ پر گامزن ہوکر رہے گا۔ اور یہ توقع کچھ بے جا بھی نہ تھی۔ عمران خان اعلیٰ تعلیم یافتہ، پرجوش اور بیشتر معاملات میں well-oriented ہیں۔ سوچ بھی جدید ہے اور عمل کی لگن بھی کم نہیں۔ مگر میر کارواں کے لیے صرف اتنا رختِ سفر کافی نہیں ہوتا۔ اور بھی بہت کچھ چاہیے ہوتا ہے۔
قوم کو منزل کی راہ دکھانے کی نیت سے سیاست کی وادیٔ پُرخار میں قدم رکھنے والوں کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے کہ مکمل شرحِ صدر کے ساتھ اپنے فیصلے خود کریں اور ان پر عمل کی قوت بھی جمع کر رکھیں۔ مشاورت لازم ہوا کرتی ہے مگر مشیروں کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر عمل کرنے سے وہی کچھ ہوا کرتا ہے جو عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کو اپنے خوابوں اور امنگوں کے مطابق ڈھالنے کے بجائے عمران خان نے قومی سیاست کی کایا بدلنے کی کوشش کی۔ مثل مشہور ہے کہ آدھی کو چھوڑ پوری کو جائے تو آدھی بھی ہاتھ سے جائے۔ عمران خان نے قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی ایسی ٹھانی کہ خیبر پختونخوا بہت پیچھے رہ گیا۔ دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ منوانے کے نام پر غیر معمولی طوالت والے دھرنے کے دوران قوم شدید خلفشار سے گزری۔ اہل وطن سوچ سوچ کر تھک گئے کہ دھرنے
کی غایت کیا ہے اور اس قدر اہتمام کیوں کیا گیا ہے۔ معیشت متاثر ہوئی۔ سفارتی محاذ پر بھی الجھنیں پیدا ہوئیں۔ چین کے صدر سمیت کئی اہم شخصیات کے دورے ملتوی کرنا پڑے۔ وفاقی دارالحکومت کا ریڈ زون عالمی برادری کے لیے ''لافنگ سٹاک‘‘ بن کر رہ گیا۔ یہ تمام کے تمام منفی پوائنٹس تھے جو عمران خان کے کھاتے میں گئے اور ان کی پارٹی کے لیے بھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے۔
پہلے مرحلے میں دھرنا عمران خان کے لیے منحوس ثابت ہوا۔ قوم حیران و پریشان تھی کہ تحریک انصاف کے سربراہ کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ پورے سیاسی اہتمام سے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار رہے تھے۔ سیاست سے معمولی سی دلچسپی رکھنے والے بھی دھرنے کو دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ع
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
ایک دھرنے نے پوری پارٹی کو شک کے پنجرے میں بند کردیا۔ عمران خان کو inner circles نے سیاست کے outer space میں دھکیل دیا ہے۔ دھرنے کے ذریعے عمران خان نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ تو منوالیا مگر کمیشن کے فیصلے نے تحریک انصاف کے آنگن میں سنّاٹا پیدا کردیا ہے۔ پارٹی اور اس کے قائد کے لیے اب فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اُن کے لیے یہ اپنے وجود میں جھانکنے اور اپنے افکار و اعمال کا تجزیہ کرنے کا وقت ہے۔ انفرادی سیاسی ساکھ بچانے اور تحریک انصاف میں نئی روح پھونکنے کی ایک یہی صورت رہ گئی ہے کہ کوتاہیوں کا ازالہ اور خامیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ قومی سیاست کو الٹنے پلٹنے کی فکر میں غلطاں رہنے کے بجائے خیبر پختونخوا پر توجہ دی جائے تاکہ کوئی ایک کبوتر تو ہاتھ میں رہے!