جب چودہ جولائی کو ایران کا ایٹمی معاہدہ طے پایاتو میں نے ایک جملہ ٹویٹ کیا۔۔۔''ایران کا ایٹمی معاہدہ میرے لیے سالگرہ کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔‘‘گزشتہ کئی برسوںسے میں نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سست روی سے، اور گاہے تعطل کا شکار ، ہونے والے مذاکرات کوبہت کرب آمیز بیم و رجا سے دیکھا ۔ آخری اٹھارہ دن تو انتہائی پر تجسس تھے کیونکہ ویانا میں اس معاہدے کے حوالے سے حتمی مذاکرات کیے جارہے تھے اور، جیسا کہ توقع تھی ، حریفوں کے درمیان کھینچا تانی ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ اس دوران اسرائیلی وزیر ِا عظم کی مذمتی چیخ و پکار جاری تھی کہ یہ معاہدہ عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ یہاں اسرائیلی کے خفیہ جوہری پروگرام کے تحت بنائے گئے ایک سو سے زائد بموںکا ذکرکرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ بات اہم کہ موساد کی انتہائی خفیہ رپورٹ کے مطابق تہران بم سازی کی سرگرمیوں میں مصروف نہیں تھا۔
اسرائیل کی طرح سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں بھی بھرپور طریقے سے اس معاہدے کے خلاف آواز اٹھارہی ہیں کیونکہ اُنہیں ڈر ہے کہ معاشی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایران بھرپور توانائی سے خطے میں فعال ہوجائے گا۔ عرب غصے کے پیچھے ایک عامل یہ بھی تھا کہ مارکیٹ میں ایرانی تیل کی سپلائی آنے سے اس کی قیمتیں گرجائیں گی اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی آمدنی میں کمی واقع ہوگی۔ اسی طرح زیادہ فعال اور پراعتماد ایران شام اور عراق جیسی ریاستوں میں شیعہ آبادی کو نظریاتی تحریک اور شیعہ پراکسی گروہوں کے ذریعے اپنے حریفوں کو زک پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ میں ریپبلکن ارکان اور اسرائیل نواز امریکی بھی اس معاہدے کے شدید مخالف ہیں۔ ریپبلکن ارکان نے سیکرٹری آف سٹیٹ ، جان کیری ، کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ایران کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ نرمی دکھائی ۔ امریکی میڈیا میں رواں ہونے والا بیانیہ یہ ہے کہ اس ڈیل کے نتیجے میں ایران کو منجمد کیے جانے والے اربوں ڈالر مل جائیں گے اور وہ اس رقم سے انتہاپسند گروہوں، جیسا کہ حماس اورحزب اﷲ کی مالی مدد کرے گا۔ ان ڈیل مخالف حلقوں کے مطابق معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایران ہمیشہ امریکہ کا دشمن ہی رہے گا۔
یہ تنقید ایک نکتے کو فراموش کررہی ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایران اور امریکہ کے دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میںہی طے نہیں پایا بلکہ اس میں سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے علاوہ جرمنی اور یورپی یونین بھی شامل تھے۔ اور پھر یہ معاہدہ محض امریکی موقف کو سامنے رکھ کرنہیں کیا گیابلکہ اس میں مذاکرات میں شریک دیگر ریاستوں کے اپنے اپنے ایجنڈے بھی شامل تھے۔ ان میں کچھ کے ذاتی ایجنڈے بھی ہوں گے کیونکہ وہ ایران کے ساتھ تجارت کرنا اور اس کا تیل خریدنا چاہتی تھیں۔ معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد صدر اوباما نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے اپنی تمام شرائط منوانا ممکن نہیں ہوتا اور اگر آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو کچھ لین دین کرنا ہوتا ہے۔ اپنی 98 فیصد افزودہ یورینیم اوردوتہائی سنٹری
فیوجزسے دستبردار ہوتے ہوئے ایران اپنے ایٹمی اثاثے قلیل تعداد میں بچانے میں کامیاب ہوگیا ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کواس کی قومی ہتک قرار نہیں دیا گیا۔ اس نے باوقار طریقے سے خود کو اس الجھن سے نکال لیا ۔ اگر مغربی طاقتیں اس کے جوہری اثاثوں کی مکمل تباہی پر اڑی رہتیں تو شاید یہ مذاکرات کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوتے اور اگر اس مرتبہ ان میں تعطل آجاتا تو پھر ایران اور امریکہ کے درمیان فوجی تصادم کا خدشہ موجود تھا۔ شاید سعودی عرب اور اسرائیل اسی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ گزشتہ کئی برسوںسے عملی طور پر ایک دوسرے کی اتحادی ریاستیں، سعودی عرب اور اسرائیل، امریکہ پر زور دے رہی تھیں کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کرے۔ اسرائیل کی دھمکی تھی کہ امریکی انکار کی صورت میں وہ اکیلا ایسی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب بھی ایران پر حملوں کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت کے لیے بخوشی تیار تھا، لیکن اس مسئلے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کے صدر اوباما کے اصرار نے ان دونوں ریاستوں کے جنگی عزائم کو خاک میں ملادیا۔
اگر امریکی کانگرس اس معاہدے کو پچاس دن کے اندر اندر منظور کرلیتی ہے تو یواین، یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے عائد کی گئی پابندیاں یکے بعددیگرے اٹھنا شروع ہوجائیں گی۔ اگر ریپبلکن ، جن کی کانگرس میں اکثریت ہے، نے اسے مسترد کردیا تو صدراوباما نے ان کے اعتراضات کو ویٹو کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس کے بعد ریپبلکن کو صدارتی ویٹو ختم کرنے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوگی، جو ان کے پاس موجود نہیں ۔ چنانچہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر کہیں ارکان کے ارادوں میں کوئی یک لخت ہنگامی تبدیلی نہ آ گئی تو اس معاہدے کو طے ہی سمجھیں۔ اگر اس کے مخالفین کسی طریقے سے اسے سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو امریکہ سخت مشکل میں پھنس جائے گا کیونکہ اُس نے بہت صبر آزما طریقے سے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے جدوجہد کی تھی، لیکن پھر وہ اس کی توثیق کرانے میں ناکام رہا۔ اس کے علاوہ اس معاہدے کو یواین اور یورپی یونین بھی منظور کرچکے ہیں۔ چنانچہ کانگرس میں اس معاہدے کے مسترد ہونے سے امریکہ کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی کہ وہ خود اُس معاہدے کی توثیق میں ناکام رہا جس کو انجام تک پہنچانے میں اس نے برس ہابرس سفارتی محنت کی تھی۔ اس سے نہ صرف امریکی صدر کی کمزوری آشکار ہوگی بلکہ اس کی سفارت کاری کی صلاحیت کو بھی دھچکا لگے گا۔
اب فرض کرتے ہیں کہ اگر یہ معاہدہ منظور ہوجاتا ہے تو پھر اس کے عملی نتائج کیا نکلیں گے؟ اگرچہ امریکی حکومت نے سعودی عرب اور اسرائیل کو یقین دلایا ہے کہ اگر کسی طریقے سے ایران نے ایٹمی ہتھیار حاصل کربھی لیے تو وہ ان کی حفاظت کرے گا، لیکن یہ دونوں ریاستیں اس بات پر برہم ہیں کہ ان کی صداوائٹ ہائوس میں بے اثر رہی۔ ان کے ہمسائے میں ایران کاایک فعال ملک بن کر ابھرنا انہیں تشویش میں مبتلا کررہا ہے۔ تاہم یہ تشویش اسرائیل سے زیادہ سعودی عرب کو لاحق ہے کیونکہ صہیونی ریاست عسکری اعتبار سے اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایران کا مستقبل قریب یا بعید میں ہر طرح سے مقابلہ کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں، روحانی کا انتخاب جیتنا اور تہران کے اسرائیل مخالف بیانات میں کمی واقع ہونا اسرائیل کے لیے قدرے اطمینان بخش ہے۔ دوسری طرف ایران خود بھی عرب ریاستوں کو لاحق خدشات دور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ جلد ہی اپنے ہمسایوں کے ساتھ ایک کانفرنس میں شریک ہوکر اُنہیں اطمینان دلانے والا ہے کہ اس نے گزشتہ کئی صدیوں سے اپنے کسی ہمسائے پر حملہ نہیں کیا ۔ امریکہ کے لیے داعش کو شکست دینے اور شام اور عراق کے معاملات کو سلجھانے کے لیے ایرانی تعاون بہت اہم ہوگا۔ صدر اوباما کی طرف سے اسرائیلی اور سعودی دبائو کوخاطر میں نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اب دوسری مدت کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے پاس سیاسی طور پر کھونے کے لیے کچھ نہیں ۔ اس کے علاوہ درآمدی تیل اور گیس پر انحصار کم کرتے ہوئے اب وہ زیادہ متحرک سفارتی بازو استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اُنہیں ہمہ وقت سعودی عرب کے شاہی خاندان کو خوش رکھنے کی ضرورت نہیں۔