تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     27-07-2015

جانے دو…آنے دو

پہاڑی علاقے کے ٹرک کنڈیکٹر اُکھڑی ہوئی تنگ اور تباہ کن سڑک پر ڈرائیور سے یوٹرن مزے سے کرواتے ہیں۔ یو ٹرن کرنے والے ڈرائیورکو پیچھے نہ کھائی نظر آتی ہے نہ آگے کھڈا۔کنڈیکٹر پہاڑی زبان میں جو آوازلگاتا ہے وہ اب ہندکو، پہاڑی، شینا اور کشمیری زبانوں میں محاورہ بن چکا جس کا ترجمہ یہ ہے:
''جانے دو ، جانے دو۔ لگے گی یا گِرے گی تو آواز آئے گی‘‘ 
اس وقت ملک کی سب سے بڑی جمہوری تاریخ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے کنڈیکٹر بھی یہی کر رہے ہیں۔ آپ یقین کر لیں کیونکہ جو کچھ میں کہنے لگا ہوں ناقابلِ یقین ہے۔پارٹی کے ایک اہم عہدیدار کو جِسے ضمیر کی تجارت''عرف جوڑ توڑ‘‘کے سوا کچھ نہیں آتا،ایسی ہی شکایت پہنچی تو اس نے کہا جانے دو جانے دو، جو کل جاتے ہیں انہیں آج جانے دو۔ ملک میں جب سے دایاں بازو بمقابلہ دایاں بازو، مساوی دایاں بازو، جمع دایاں بازو، منفی ہے دایاں بازوکی سیاست شروع ہوئی کچھ لوگ سخت فکر مند ہیں، قومی سیاست کو یہ کیا ہوگیا ہے۔ ان بیوقوفوں کی فہرست میں آپ مجھے بھی شامل سمجھیں۔ 
اب اگلا سوال آپ ضرور پوچھیں گے کہ عقلمند کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عقلمندوں کی کئی قسمیں ہیں، لیکن ان کا تعارف کرانے سے پہلے بیوقوفوں کا نظریۂ سیاست سن لیں اور ساتھ ساتھ عقل والوںنے اس نظریے کی جو تفسیر یا تشریح کر رکھی ہے وہ بھی دیکھتے چلیں۔
نمبر1۔ بیوقوف کہتے ہیں طاقت کا سر چشمہ عوام۔ یہی پیپلز پارٹی کا تاسیسی نعرہ بھی ہے۔ سرکاری عقلمند عرف آراو+الیکشن کمیشن+عقلمند سیاست دان جوزف سٹالن کے الفاط میں اس کی تفسیریوں کرتے ہیں:'' طاقت کا سر چشمہ ووٹ ڈالنے والے نہیں بلکہ طاقت کا اصل سر چشمہ ووٹوں کی گنتی کرنے والے ہیں‘‘۔
نمبر2 ۔ بیوقوفوں کا خیال ہے ان کی زندگی میں''خلقِ خدا‘‘ راج کرے گی۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ انقلاب وہی ہے جو میرے زمانے کے لوگوں کی زندگیوں میں آئے اور جس کے بارے میں فیض نے کہا تھا ہم دیکھیں گے۔ عقلمندوں کی رائے ہے کہ پہلے جمہوریت کو مضبوط کرو جس میں بھائی جان، بھابھی، بھتیجا، بھتیجی سارے اکاموڈیٹ ہوجاتے ہیں جبکہ سالے، سالیوں کی نسلیں سالہا سال اور صدیوں تک جمہوریت کا پھل فروٹ کھاتے رہتے ہیں۔ صدی آدھی سے زیادہ گزرگئی پاکستان میں انہی کا تجربہ کامیاب ہے۔ 
دانشمند طبقہ ایک اور بھی ہے۔ ان کے بڑوں پر علم ''القا‘‘ہوا، فیض کی بارش، نجات کے طریقے اور پرائز بانڈ سے لے کر محبوب آپ کے قدموں تک کے سارے فارمولے وہیںاُترے۔ یہ خوش بخت دانشمند کبھی علّامہ ،کبھی شیخ،کبھی مولانا ،کبھی بادشاہ ،کبھی مفتی،کبھی شاہ زادہ اور نجانے کیا کیا القاب رکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ سیاسی وہ تھے جنہیں ایک غیر مسلم جج کی دریافت کردہ شریعت بھا گئی۔ پھر One and only یعنی یکہ و تنہا یحییٰ خان کی قیادت میں اس کا نفاذ شروع ہوا۔ 5 جولائی والے ضیاء الحق سے بھی ان کا جی نہ بھر سکا؛ چنانچہ مشرف کو مضبوط کر کے جمہوریت کا بول بالا کر دیا۔آدھے اپوزیشن میں آدھے حکومت میں۔ وکٹ کی دونوں طرف نوسال سے بھی زیادہ عرصہ چوکے کم لگائے، چھکّے زیادہ ما ر دیے۔ ان کے مقابلے میں بیوقوف ٹولے کی نشاندہی شاعرِ مشرق نے یوں کی:
ہم کو تو میّسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پِیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سُود ہے پِیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن!
دوسری جانب وہ ہیں جو آنے والوں کو ملتان سے آئی ہوئی آموں کی پیٹی کی''بِلٹی‘‘ سمجھ کر وصول کررہے ہیں۔ وصولیاں ڈالنے والوں کو معلوم ہے ان کے جیالے، طاقتور بھی ہیں اور بیدار بھی۔ جیسے پہلے آنے والے کسی کو ٹکٹ نہیں ملا ایسے ہی اب آنے والے پارلیمانی بورڈ کے باہر بیٹھ کر گایا کریں گے:
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے
ہم دَغا کر کے بھی تنہا رہ گئے
زندہ اور متحرک سیاسی جماعت میں ہر جگہ کئی کئی گروپ ہوتے ہیں جو الیکشن دوسری پارٹیوں کے خلاف بعد میں لڑتے ہیں لیکن آپس میں ہر روز۔ دوسری پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کو یہ کارکن دو ناموں سے پکارتے ہیں۔۔۔۔۔ ابابیل اور سکائی لیب۔ ان ناموں میں اشارہ یہ ہے کہ اوپر سے آئے ہیں۔ایسے کسی سکائی لیب یا ابابیل کو ٹکٹ مل بھی جائے تو ساری پارٹی باہمی جھگڑے چھوڑ چھاڑ کر سکائی لیب کے خلاف پنجے جھاڑکر ابابیل بن جاتی ہے۔ اپنے ہی ٹکٹ کی مخالفت کے لیے ایسے کارکنوں کی دلیل بہت مضبوط ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہم آپس میں نمٹ لیں گے باہر والے کو ہَرا دو۔ یہ ہمارے اوپر چڑھ بیٹھا تو پھر ہماری چھٹی پکّی ہے۔ مخالف پارٹی اس دفعہ جیت گئی توکوئی بات نہیں اگلے الیکشن میں اسے شکست دے دیںگے۔ آؤٹ سائیڈر نہ جیت پائے۔
وقت ، حالات ، ذاتی مفاد اور واقعات کمزور دل حضرات کے سیاست میں اِدھر اُدھرآنے جانے کی بڑی وجوہ ہوتی ہیں، لیکن ایک وجہ ان سے بھی بڑی ہے۔ یہ ہیں مرغانِ باد نما یعنی ایسے پرندے جو ہوا کا رُخ دیکھ کر پھڑ پھڑاتے ہیں۔ ان کی کل سیاسی کائنات ہر طرح کے حالات میںمال آنے دو جیالے جانے دو سے آگے نہیں نکلتی۔ ان کا ایمان یا مفاد ''تیرا ای آسرا‘‘ رہا ہے۔جو گُڈی لُٹ گروہ کا مطلب پورا نہ کر سکے اسے یہ کسبی کے بستر کی طرح بدل ڈالتے ہیں۔ مگر اس پالیسی کا نام انہوں نے''جوڑ توڑ‘‘ رکھا ہے۔
سیاست سیاست کی طرح چلتی ہے۔ سیاسی کارکنوں کے بغیرسیاست نہیں چل سکتی۔ تجارت تاجرانہ طریقے سے چلتی ہے صرف دلالوں کے سر پر نہیں۔ جس کا منشور جانے دو آنے دو والا ہووہ مِڈل مین توہو سکتا ہے راہ نماہر گز نہیں:
کوئی شُعلہ نوا اُٹھّے، کوئی درد آشنا نکلے
کبھی تو دامنِ صر صر سے بھی موجِ صبا نکلے
ستاروں کے نشیمن پر کمندیں پھینکنے والو
کبھی سوچا ہے تم اس دور میں پر کھا، تو کیا نکلے؟
بھیا نک ہو چکے ہیں رہزنوں کے خشمگیں چہرے
ضروری ہے کہ ان حالات میں اک رہنما نکلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved