اسے یہ خوف کھائے جارہا تھا کہ چند دنوں میں اس کے سر پر ایسے لوگ باس بن کر سوار ہوجائیں گے جنہوں نے بارہ سال پہلے اس کے ساتھ سول ججی کا امتحان دیا لیکن فیل ہوگئے اور اب وہ اپنی بارہ سالہ فرسٹریشن کابدلہ اس کی تذلیل کرکے لیں گے۔ اپنا اضطراب چھپانے کے لیے وہ بار بار پانی پی رہا تھا لیکن اس کی بے چینی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس کے ساتھی نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی تو وہ چھلک پڑا۔ ''آپ کو پتا ہے ایک سول جج ہونے کا مطلب کیا ہے؟‘‘ وہ مجھ سے مخاطب تھا ، لیکن میں خاموش رہا۔ ''سول جج آپ کے نظام انصاف کا وہ سنگِ میل ہے جہاں سے قانون اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ اسے اپنے کردار کو اتنا صاف رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا دیا ہوا فیصلہ غلط بھی ہو تو اس پر بد نیتی ، خوف یا لالچ کا الزام نہ لگ سکے۔ کردار کی اس مضبوطی کا مظاہرہ اسے عمر کے آخری حصے میں نہیں بلکہ عین شباب میں کرنا ہوتا ہے، جب خواہشات بے لگام ہوتی ہیں۔ کیا کسی اور شعبے میں کارکردگی اتنے کڑے معیار پر جانچی جاتی ہے؟‘‘، اپنی بات مکمل کرکے اس نے جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے تائید میں سر ہلایا تو وہ پھر گویا ہوا،'' میں نے بارہ سال اس پُل صراط پر چلتے ہوئے گزارے ہیں اور اب مجھے بتایا جارہا ہے کہ تمہاری یہ ریاضت بے معنی ہے اورہم تمہیں ترقی تو کیا دیں اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ ترقی کے امتحان میں ہی بیٹھنے دیں‘‘،
اپنی بات ختم کرکے اس نے پانی کا ایک اور گلاس ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔ یہ شخص پنجاب کے دور افتادہ ضلعے میں تعینات ایک سول جج تھا جو مجھ سے ملنے کے لیے چلا آیا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا وہ محض اس کی حالت ِ زار نہیں بلکہ پنجاب کے چھے سو اٹھانوے سول ججوں کی مایوسی کا اظہار تھا جو ان پر آج کل طاری ہے۔ ان لوگوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ ان کی قانون فہمی، عدالتی تجربہ اور کردار کی صفائی کے دس سال ایک عشرہء وکالت سے کمتر ہیں۔کیونکہ نئے قواعد کے تحت دس سال پرانا وکیل تودو پرچوں پر مشتمل ایک ہلکا سا امتحان دے کر براہِ راست ایڈیشنل سیشن جج بن سکتا ہے لیکن دس سال پرانے سول جج کو یہ امتحان دینے کا حق نہیں۔
وکلاء میں سے ایڈیشنل سیشن جج لینے کی بدعت آج کی نہیں بلکہ خاصی پرانی ہے۔ اس کے لیے کئی دلائل بھی دیے جاتے ہیں جنہیں سن کر صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وکلاء کو خوش کرنے کے سوا اس رسم کا کوئی مقصد نہیں۔وکلاء کی تالیف قلوب کے لیے نظام انصاف میں بنایا جانے والا یہ روزن اب ایک ایسی شاہراہ ِ خاص بن چکا ہے جس پر چلتے ہوئے وکلاء تو ضلعی عدالتوں کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوسکتے
ہیں لیکن سول ججی کے لیے سوئی کے ناکے جیسے امتحان سے گزر کر آنے والوں کو اس پر قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔چونکہ پچھلے کچھ سالوں سے اکابرینِ انصاف کو وکلاء کی ناز برداری کی ضرورت بھی خاصی پڑی ہے اس لیے اس راستے سے آنے والوں کو ترقیا ں بروقت بھی ملی ہیں اور تیز بھی۔ اس عمل کا نتیجہ عدالتی افسروں کی ایک ایسی سینیارٹی لسٹ کی صورت میں نکلا ہے جس کے تحت آئندہ کی ترقیوں میں شاید ہی کوئی سول جج اگلے درجے میں ترقی کرپائے گا، اور اگر کوئی خوش قسمت کر بھی لے تو ایسی عمر میں کرے گا جہاں ریٹائرمنٹ اس کا انتظار کررہی ہوگی۔ کئی سال سے جاری اس عجیب و غریب پالیسی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب لاہور ہائیکورٹ کے بینچ میں صرف ایک صاحب ایسے رہ گئے ہیں جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور سول جج کیا تھا جبکہ آٹھ ایسے صاحبان ہیں جو وکلاء کے لیے مخصوص راستے سے پہلے ایڈیشنل سیشن جج بنے اور پھر بنچ تک پہنچے۔ یعنی ہمارے نظام انصاف کے سوادِ اعظم کے مسائل سمجھنے والے لوگ ہی اب مفقود ہوتے جارہے ہیں ۔ اب توصورت حال یہ ہے کہ اوپر والا نیچے والے سے شاکی ہے اورنیچے والا اوپر والے سے شکوہ کنا ں۔ اس خلیج کو پاٹنے کی کچھ کوشش ہوئی تو وکلاء سیسہ پلائی دیوار بن کر قانون کے راستے میں کھڑے ہوگئے ۔ دلیل دبک گئی، قاعدے ٹوٹ گئے، عدالت خاموش ہوگئی ، وکالت جیت گئی اور سول ججوں کی ترقی کی راہیں مسدود ہوگئیں۔
سول جج ہمارے نظام انصاف کا ہراول دستہ ہیں ۔ تنگ و تاریک کمروں میں جہاں موسم اپنی پوری سختی کے ساتھ واردہوتا ہے ، یہ لوگ صبح سے شام تک تنازعات کا قانونی حل نکال کرپاکستان کی ریاست کا بھرم بنائے رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا حق بنتا ہے کہ تجربے اور دیانت کی بنیاد پر انہیں بھی ترقی کے وہ مواقع میسر ہوں جو ان کی عدالتوں میں پیش ہونے والے وکیلوں کے لیے خصوصی طور پر پیدا کیے جاتے ہیں۔ ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی کے لیے اشد ضروری ہے کہ ان میں سے بھی کچھ لوگوں کو یہ اعزاز ملے کہ وہ ہائیکورٹ کے بینچ پر بیٹھ کر اپنا تجربہ اپنے عدالتی فیصلوں میں سمو سکیں۔ اس کے لیے ہمیں عدلیہ میں داخلے کے نظام کا از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ موجودہ بندوبست کے تحت تو ایسا ممکن نہیں اور ویسے بھی اس کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
ہماری عدالتی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ میں خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ بے شک وکلاء عدالتی نظام کا اہم حصہ ہیں لیکن جو بھی ہیں صرف ایک جزو ہیں، کُل نہیں۔ جزو کو اس کی مناسب جگہ دیں ، ساری جگہ دیں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ایک تجویز کے طور پر عرض ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کی سطح پر براہ راست بھرتی کا باب اب ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے ۔ وکلاء کو خوش کرنا لازمی ہے تو پھر سول جج کی سطح پر ہی انہیں عمر کی رعایت دے کر راضی کیا جائے۔ جوڈیشل افسروں کی کیریئر پلاننگ اس طرح کی جائے کہ وہ بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بن سکیں، اس کے لیے لازمی ہے کہ ہائیکورٹ میں کم ازکم پچاس فیصد ایسے لوگ ہوں جو سول جج رہے ہوں ۔ اس طریقے سے ہمارے عدالتی نظام میں تجربہ، قابلیت اور نئی سوچ کا جو امتزاج بنے گا وہ ملک کے لیے باعثِ عزت ہوگا اور اکابرینِ انصاف کے لیے بھی۔ ماتحت عدلیہ انصاف کی بنیاد ہے، اگر یہ بنیاد ہل گئی تو قانون کا دبدبہ بھی زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں۔