تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-07-2015

اچھے دنوں کی آمد (پہلی قسط

عمر کے68سال ویرانیوں اور خرابیوں میں گزارنے کے بعد‘ آج پہلی مرتبہ مجھے امید کی کرن دکھائی دی ہے،ورنہ پاکستان بنتے ہی ہمارے اس زمانے کے فوجی جنرلوں کے اعصاب پر بھارت سوار ہو گیا تھا اور انہوں نے اپنی اس معذور سوچ کو قومی پالیسی میں بدل دیا کہ بھارت بڑا ملک ہے ۔ ہمیں اپنے دفاع کے لئے بھارت سے ٹکر لینے والی فوجی طاقت تیار کرنا ہو گی، ورنہ بھارت ہمیں کھا جائے گا۔ یہی خوف تھا جس کے تحت1948ء میں‘ کشمیری ''مجاہدین‘‘ کے نام پر مداخلت کاروں کو وہاں لوٹ مار کے لئے بھیج دیا گیاجن میں مسلح قبائلی افراد بھی شامل تھے اور غیر سرکاری طور پر‘ بے وردی فوجی جوان بھی کشمیر میں داخل کر دئیے گئے۔ یہ غیر منظم فوجی عملہ محض تباہی کا باعث بنا کیونکہ یہ لوگ جو کسی ذمہ داری اور ڈسپلن کے بغیر پُرامن بستیوں میں گھس گئے تھے، ان کے سامنے لوٹ مار کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا۔ اگر وہ کشمیر میں کوئی مقصد حاصل کرنے گئے ہوتے تو سری نگر کے ایئرپورٹ پر پہنچ کر‘ انہیں اس کا قبضہ نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ یہی واحد ہوائی اڈا تھا‘ جس پر بھارتی فوجیں اتر کے کشمیر میں جارحیت کر سکتی تھیں لیکن بے مقصدیت کے مارے ہوئے یہ نادان لوگ‘ اپنی لوٹ مار میں لگے رہے اورکشمیر کا جو واحد ہوائی اڈا‘ نا م نہاد مجاہدین کے قبضے میں آچکا تھا‘ وہاں بھارتی ایئر فورس کے طیارے اتار دئیے گئے اور انہوں نے تیزی کے ساتھ کشمیر کے حساس مقامات پر قبضے جمانا شروع کر دئیے ۔ غیر منظم مسلح افراد نے بہت مزاحمت کی لیکن ان کے سامنے نہ کوئی منصوبہ تھا، نہ کوئی حکمت عملی تھی اور نہ کوئی ٹارگٹ تھا۔ انہیں منظم بھارتی افواج کے سامنے محض جان بچانے کے لئے لڑنا پڑا۔ان لوگوں نے پُر امن کشمیری بھائیوں کو جس بے رحمی سے لوٹا‘ اس کی تفصیل راولپنڈی کی گلیوں میں‘ آج بھی نسل در نسل عوام کو منتقل ہوتی آرہی ہے۔
بھارت نے کشمیر پر فوجی پوزیشن مضبوط کر کے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں درخواست دی اور پاکستان پر جارحیت کا الزام لگا کر‘ وہاں سیز فائر کے حق میں قرارداد حاصل کر لی اور انہی نام نہاد مجاہدین کی آڑ لے کر کشمیر پر فوجی قبضہ کرنے کا راستہ نکالا گیا۔ ورنہ تقسیم کے فارمولے کی خلاف ورزی کرنابھارت کے لئے آسان نہیں تھا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کو عالمی طاقتوں کی تائید حاصل تھی۔ بھارت اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ تقسیم کے بنیادی فارمولے کی فوجی طاقت سے خلاف ورزی کرتا۔ اسے یہ بہانہ مسلح جنگجوئوں نے مہیا کیا اور اس کے بعد ہم نہ سیاسی محاذ پربھارت کا مقابلہ کرنے کے قابل رہے اور نہ ہی آج اسے فوجی اعتبار سے شکست دے سکتے ہیں۔ دو ایٹمی ملک جتنا اسلحہ چاہیں جمع کر لیں‘ جنگ کے ذریعے کوئی فیصلہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ایٹمی جنگ کا نتیجہ صرف دو طرفہ تباہی ہوتا ہے۔ ہم نے بھارت سے خوف کے نتیجے میں فوجی طاقت کو بڑھاتے بڑھاتے ایٹمی اسلحہ بنا لیا لیکن خوف آج بھی ہمارے اندر سے نہیں گیا۔ اب زمانے بدل گئے۔ ہم نے بھارت سے مقابلے کے چکر میں مشرقی پاکستان گنوا دیا۔ اپنی معیشت تباہ کر لی۔ تعمیر و ترقی کے ادارے تیار نہ کئے۔ مختلف ملکوں کے فوجی ایجنٹ بن کر‘ ہمارے حکمرانوں نے ان سے مال بھی بٹورا اور اسلحہ بھی خریدا اور ان دونوں کاموں میں اندھا دھند دولت کمائی۔ ایک طرف سیاست دان لوٹ مار کی راہ پر چل نکلے، د وسری طرف فوج کے جنرل بھی ‘ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ معافی چاہتا ہوں کہ میں ذرا بد لحاظی سے کام لے رہا ہوں۔ اس کی وجہ وہ جنگی جنون ہے جو پاکستان کے حکمرانوں اور جنرلوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اسی جنگی جنون نے‘ ہمیں آج اس حالت کو پہنچایا کہ ہماری فوج بھارت سے لڑنے کے بجائے‘ اپنے ہی ملک کے اندر دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور ہمیں اپنے شہروں میں امن حاصل کرنے کی خاطر ‘ابھی تک قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ یہ قربانیاں فوج بھی دے رہی ہے اور عوام بھی دے رہے ہیں۔سچی بات ہے ہم کچھ عرصہ پہلے تک اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ دہشت گردی کی جنگ نے ہم پرلازم کر دیا کہ ہم اس میں یا تو عالمی برادری کے ساتھ کھڑے ہوں یا تنہائی کا شکار ہو کر ایک بار پھر تباہی سے دوچار ہو جائیں۔ ہمارے ساتھ یہی ہونے جا رہا تھا۔ دہشت گردی کے منصوبے بن چکے تھے۔ پاکستان کو توڑ پھوڑ کر‘ دہشت گرد گروہوں میں تقسیم کرنے کی تیاریاں ہو چکی تھیں۔ یہ سب کچھ ہم آج شرق اوسط میں دیکھ رہے ہیں۔ شام کے ٹکڑے ہونے والے ہیں۔ عراق کے ٹکڑے ہو رہے ہیں۔ یمن خانہ جنگی کا شکار ہے۔ لبیا کے شہری خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لبنان تباہ ہو چکا ہے۔ اردن تباہ شدہ ہے۔ مصر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور تباہی کی یہی لہر‘ پاکستان میں برپا کرنے کے لئے دہشت گرد تنظیموں نے ہمارے ملک میںاپنے ٹھکانے قائم کرنا شروع کر دئیے تھے اور اگر ایک رحمت کا فرشتہ سامنے نہ آتا تو آج پاکستان کے ٹکڑے ہونے کا عمل بھی شروع ہو جانا تھا۔ غالباً پاکستان کے مظلوم عوام کی حالت زار دیکھ کر‘ قدرت کو رحم آگیا اور ایک مردِ خدا پاکستان کو تباہی سے بچانے کے لئے سامنے آیا۔ وہ جنرل راحیل شریف ہے۔ نوازشریف کے ساتھیوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو پاکستان کا خون نچوڑ کر‘ اپنی دولت بیرونی ممالک میں جمع کر رہے ہیں اور ملک کی معیشت کو امن اور ترقی کے راستے پر چلنے سے روکنے کے خواہش مند ہیں لیکن ایک ایٹمی ملک کے ساتھ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ مگر ایک دن ہونا یہی تھا۔ یا تو ہم اپنی معیشت کو زوال اور تباہی کی طرف جانے سے روک کر اپنی امن پسندی کا عملی ثبوت فراہم کرتے یا دنیا ہمارے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ سمجھ کر‘ انہیں غیر موثر کرنے کے لئے منظم ہو جاتی۔
میں اس تبدیلی کا سہرا صرف جنرل راحیل شریف کے سر باندھنے کی کوشش نہیں کر رہا کیونکہ ایک تاریخی عمل کا رخ بدلنے کے لئے ایک فرد کچھ نہیں کر سکتا۔ ایک مرحلہ آتا ہے کہ تبدیلی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں اور جس وقت جنرل راحیل شریف کو پاک فوج کی سربراہی کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں۔ تبدیلی کا وقت آچکا تھا اور شہیدوں کے خاندان کے اس عظیم فرزند‘ نے تمام نئے محرکات کو استعمال کرتے ہوئے‘ پاکستان کو بچانے کے اقدامات شروع کر دئیے۔قدرت ہمارے ملک پر مہربان تھی۔ وہ اسباب ازخود پیدا ہوتے چلے گئے‘ جن کی وجہ سے قوم پرستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری مجبوری بن گئی۔ پشاور کے سانحے نے عوام کے مزاج ہی کو بدل دیا۔ سیاست دان اس سانحے سے بھی‘ سیاسی مقاصد پورے کرنے کی راہ پر چل نکلے تھے اور انہوں نے روایتی نعرے بازی کے لئے جو نئے نئے منصوبے بنانے کا طویل راستہ اختیار کیا تھا۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج نے عملی اقدامات شروع کر دئیے۔ دہشت گردوں کے سب سے بڑے مرکز‘ وزیرستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دہشت گردوں کے مراکز تباہ و برباد کر کے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی اور وہی دہشت گرد جو پاکستان کے مفاد پرست حکمرانوں کو آنکھیں دکھایا کرتے تھے‘ دمیں دبا کر بھاگتے پھر رہے ہیں۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑی جا چکی ہے لیکن اب بھی وہ ادھر ادھر تباہی پھیلانے کی کوششیں کرتے رہیں گے تاہم فوج اب پوری طرح مستعد ہے۔ جنرل راحیل نے قبلے کا رخ بدل دیا ہے۔ خود فوج کے اندر سب سے پہلے یہ احساس پیدا ہوا تھا کہ اگر ہم نے لوٹ کے کلچر سے نکلنے کی راہ تلاش نہ کی تو ہمیں بربادی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ فوج جب میدان میں نکل آتی ہے تو سیاست دانوں کی چال بازیاں اس کاراستہ نہیں روک سکتیں۔ فوج نے ثابت کر دیا کہ ہمارا پاکستان اتنا بھی کمزور نہیں جسے چند آوارہ گرد مسلح افراد سرنگوں کر دیں۔حکمران مجبور ہو گئے کہ وہ فوج کو اس کے منصوبے کے مطابق سہولتیں مہیا کریں اور فوج نے نتائج پیدا کر کے بھی دکھا دئیے۔ دہشت گردوں کی طرح‘ آج حکمرانوں کے اندر بیٹھے ڈاکو اور لٹیرے بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں مگر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ایسی پالیسی اختیار نہیں کی کہ وہ اپنی عیاریوں اور چال بازیوں کے ذریعے‘ مظلوم عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ان سب کو گھیرے میں لیا جا چکا ہے اور انہیں ملک سے بھاگنے کی پوری آزادی بھی میسر ہے۔ فوج مطمئن ہے کہ یہ دنیا کے جس کونے میں بھی جائیں گے‘ مناسب وقت پر انہیں دبوچ لیا جائے گا۔ اس کے انتظامات ہو چکے ہیں کیونکہ فوج نے ہی موجودہ پالیسیاں اختیار کر کے عالمی رائے عامہ کی بھر پور تائید حاصل کر لی ہے اور پاکستان میں دہشت گردی اور مالیاتی غنڈہ گردی کو نشانہ بنا کر‘ عالمی برادری کا بھروسہ پا لیا ہے۔اب جو چوہا جہاں بھی چھپا ہو گا۔ فوج جب چاہے گی اسے پکڑ لے گی لیکن کرپشن کے خلاف مہم کوایسے انداز میں چلانے سے دانستہ گریز کیا گیا تاکہ اس کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والے سیاست دان‘ مظلوم بن کر عوامی ہمدردیاں حاصل نہ کر سکیں۔ انہیں بھی دہشت گردوں کی طرح تنہا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔(جاری ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved