تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-07-2015

جہانگیر ترین اور حامد حان

آدمی کا فیصلہ آخرکار اس پر ہوتا ہے کہ اس کی اولین ترجیح کیا ہے اور وہ اس کے ساتھ کس قدر مخلص رہا۔
ایک صحیح تجزیہ! اپنے تعصبات اور تکبرات سے اوپر اٹھ کر‘ اپنے مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ حکمت عملی کی تشکیل میں یہ سب بنیادی نکتہ ہے۔ بنیاد اگر ٹیڑھی ہو تو عمارت خواہ آسمان تک بلند ہو‘ کج رہے گی۔
بعض موضوعات پر بات کرنے کو جی نہیں چاہتا‘ مگر کیا کیجئے، یہ ایک ذمہ داری ہے۔ آج پھر وہی سوال ہے؛ تحریک انصاف کو کیا مرض لاحق ہے کہ بار بار خود شکنی پر آمادہ ہوتی ہے۔ قیادت اور کارکنوں کی توانائی برباد کرتی رہتی ہے ۔ تازہ ترین قضیہ حامد خان نے کھڑا کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے جس سے اخذ کیا کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد‘ پارٹی میں دھڑے بندی اور بڑھ جائے گی۔ حامد خان کا اصرار ہے کہ الیکشن میں اگرچہ دھاندلی ہوئی مگر مقدمہ ڈھنگ سے نہ لڑا جا سکا۔ ایک خاص گروہ اس کا ذمہ دار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے رفقا جو 30 اکتوبر 2011ء کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے۔ ان کے بقول جہانگیر ترین ان کے سرخیل ہیں۔ اتوار کو حامد خان نے جب یہ دعویٰ کیا تو پارٹی کارکنوں اور حامیوں کے نام ایک پیغام میں کپتان نے وکلاء کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا‘ خاص طور پر عبدالحفیظ پیرزادہ کو۔ سامنے کا سوال اب یہ ہے کہ ایسے میں جہانگیر خان کیونکر قصور وار ہیں۔ 
حامد خان بنیادی طور پر وکلاء کے لیڈر ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی تشکیل میں ان کا ایک کردار رہتا ہے۔ ارتقا کے مہ و سال میں وہ تحریک انصاف کے نائب صدر تھے مگر کیسے نائب صدر؟ ٹی وی مذاکروں میں شریک ہوتے تو اپنے نام کے ساتھ پارٹی کے حوالے کی کی اجازت مرحمت نہ فرماتے۔ اگر اس فیصلے پر وہ قائم رہتے تو بدگمانی کا شاید جواز نہ ہوتا۔30 اکتوبر 2011ء کے بعد البتہ انہوں نے اپنی راہ تبدیل کر لی۔ پارٹی کے ساتھ ان کے رشتے کی نوعیت مختلف ہو گئی۔ اب اپنے رشتے کو اپنانے کا انہوں نے اعلان کر دیا۔ 
جہانگیر ترین اور ان کے 15 ممتاز رفیق‘ جن میں سے اکثر اسمبلیوں کے ممبر رہے تھے‘ اسی زمانے میں تحریک انصاف کا حصہ بنے۔ عمران خان سے انہوں نے درخواست نہیں کی تھی بلکہ یہ خان صاحب تھے‘ جو ان کی شمولیت کے آرزو مند تھے۔ جناب اسحاق خاکوانی اور جہانگیر ترین سے مجھ ناچیز کا رابطہ رہا۔ مشارتی اجلاس اکثر ایف 6اسلام آباد میں ان کے گھر پہ برپا ہوتے۔ شام آٹھ بجے کسی ٹی وی پروگرام میں شرکت سے قبل یا اس کے بعد گاہے میں بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہو جاتا۔ اوّلین خیال یہ تھا کہ ایک گروپ تشکیل دے کر تحریک انصاف سے الحاق کر لیا جائے۔ ہمایوں اختر خان کی قیادت میں مسلم لیگ کا ہم خیال گروپ بھی اسی طرح کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اس گروپ کے باب میں کپتان نے دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا؛چنانچہ اس پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ بددل ہو کر انہوں نے میاں محمد نواز شریف سے معاہدہ کر لیا جس کے تحت 12فیصد سیٹیں انہیں ملنا تھیں۔ الیکشن کے ہنگام میاں صاحب نے اس سمجھوتے کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔ چند بہترین امیدواروں کی بجائے‘ انہوں نے اپنی خوئے انتقام کو تسکین پہنچانے کو ترجیح دی۔ 
بعدازاں دوسرا لطیفہ یہ ہوا کہ عمران خان ہمایوں اختر‘ اور ان کے بھائی سینیٹر ہارون اختر کو تحریک انصاف کا حصہ بنانے کے لیے بے تاب رہے۔ دوبار وہ ان کے گھر گئے اور ان سے یہ کہا: ملک چلانے کے لیے مجھے چھ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے دو آپ ہیں۔ وہ آمادہ ہوئے تو جہانگیر ترین ان کی راہ میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ شاہ محمود کی طرح، ایک روٹھے ہوئے بچے کی طرح انہوں نے یہ کہا: احمد محمود نے وزیر اعظم گیلانی اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مدد سے جب میری شوگر فیکٹریوں پر قبضہ کیا اور ہمایوں برادران نے میری مدد نہ کی... محض ایک بہانہ! جہانگیر نے کبھی ان سے مدد مانگی ہی نہ تھی۔ دو سال گزر جانے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے دونوں بھائیوں کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ غیر معمولی صلاحیت کے ہارون اختر اب ان کے مشیر ہیں۔ اگر واقعی ان سے مشورہ کیا جائے تو ملک کی اقتصادی نمو میں وہ ایک تخلیقی کردار ادا کرنے کے اہل ہیں۔اس طرح ہمارے ہاں سیاسی فیصلے صادر ہوتے ہیں۔
جہانگیر ترین گروپ میں‘ ایک دوسرا نقطۂ نظر بھی تھا۔ براہِ راست اور غیر مشروط طور پر تحریک انصاف میں شمولیت۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے کرنل (ر) غلام سرور چیمہ اس مؤقف کے سب سے زیادہ پرجوش وکیل تھے۔ بعدازاں اسحاق خاکوانی بھی ‘ جس کی تائید کرنے لگے اور یہی غالب آیا۔ عمران خان سے ہمہ وقت رابطے اور اپنے مالی ایثار کی وجہ سے جہانگیر ترین بالآخر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہو گئے۔ ایک بڑا گروپ بھی انہوں نے تشکیل دیا۔ پرویز خٹک کے وہی پشت پناہ تھے‘ جب 2012ء کے انتخاب میں سب سے بڑا عہدہ خٹک صاحب نے جیت لیا اور وزیر اعلیٰ بننے کی راہ ہموار کی۔ 
اول دن سے عمران خان کے باب میں حامد خان کا رویہّ یہ تھا کہ وہ ایک استاد کا کردار ادا کرنے کے آرزو مند تھے، جس طرح کہ وکلاء میں۔ فرصت ان کے پاس تھی نہیں‘ قومی سیاست کے کھلاڑی وہ نہیں تھے اور ان کی اولین ترجیح وکلاء کی سیاست تھی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے لئے ججوں کے انتخاب پر جو اثر انداز ہوتی ہے۔ حامد خان یہ بات کیوں سمجھ نہ پائے کہ دو کشتیوں میں آدمی کو سوار نہ ہونا چاہئے۔ جواب یہ ہے کہ لالچ اور ایسے جذبے عقل کو معطل کر دیتے ہیں۔ تضاد اس وقت سامنے آیا‘ جب جسٹس افتخار محمد چودھری کے دائر کردہ کیس میں عمران خان کی مرضی کے برعکس ان کا غیر مشروط معافی نامہ حامد خان نے داخل کر دیا۔ یہ انہیں سازگار تھا کپتان کو نہیں۔ مفروضہ انہوں نے یہ قائم کیا کہ ہمیشہ کی طرح اپنی بات منوانے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ وقتی طور پر عمران خان ناراض ہوں گے لیکن آخر کار من جائیں گے۔ مقاصد ان کے ذاتی تھے‘ سپریم کورٹ میں پذیرائی ‘ جہاں جسٹس افتخار چوھری کے اثرات باقی تھے۔ جہانگیر ترین کے مقاصد بھی ذاتی تھے۔ فرق یہ ہے کہ اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کے باب میں وہ پوری طرح یکسو تھے۔حامد خان کے برعکس وہ بہت سا وقت عمران خان کے ساتھ صرف کرتے۔ پارٹی کو جب بھی روپے کی ضرورت ہوتی ‘ جہانگیر ترین آگے بڑھ کر مدد کی پیشکش کرتے ۔ حامد خان تو دھرنے تک میں دکھائی نہ دیتے۔ اپنی غلطیوں کے علاوہ الگ تھلک رہنے کی وجہ سے حامد خان کا کردار محدود تر ہوتا گیا۔ جہانگیر ترین کا بڑھتا گیا۔ یہ ہے وہ کہانی‘ جس کے پس منظر میں اتوار کا واقعہ رونما ہوا۔
کیا عدالتی کمیشن کے لیے پارٹی کی حکمت عملی جہانگیر ترین نے تشکیل دی تھی؟ میں نہیں جانتا۔ یہ مان بھی لیا جائے تو انہیں قصوروار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔ عمران خان کی تائید اس حکمتِ عملی کو حاصل تھی۔ اب بھی حاصل ہے۔ تحریک انصاف میں حامد خان اپنا مقدمہ پیش کرنے سے پہلے ہی ہار گئے۔ اچھے سیاستدان وہ نہیں تھے۔ اسی لئے عاصمہ جہانگیر ایسی خاتون سے پٹتے رہے۔ افسوس کہ وکیل بھی وہ اچھے نہ نکلے۔ کیا نچلے درمیانے طبقے سے رکھنے والے اس ریاضت کیش آدمی کی اولین ترجیح فقط رسوخ اور روپیہ ہے؟ تحریک انصاف میں دھینگا مشتی اس لیے رہتی ہے کہ فساد کرنے اور ڈسپلن توڑنے والوں کا احتساب کبھی نہیں ہوتا۔ جرم بڑھتا اور مجرم بے خوف ہو جاتے ہیں‘ سزا کا خوف اگر باقی نہ رہے۔اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ان الاعمال بالنیات ۔ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔ آدمی کا فیصلہ آخرکار اس پر ہوتا ہے کہ اس کی اوّلین ترجیح کیا ہے اور وہ اس کے ساتھ کس قدر مخلص رہا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved