تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-07-2015

اراکین پارلیمنٹ کھوجیں درمیانی راستہ

پارلیمنٹ کا یہ سیشن کیسا رہے گا ‘اس کے بارے میں کوئی بھی پکی بات نہیں بتا سکتا ۔یہ ہو سکتا ہے کہ مخالفین سرکار کو اتنا تھکا دیں کہ وہ تنگ آکر اس سیشن کو ہی ملتوی کر دیں۔ اس میں مخالفین کا فائدہ بہت کم ہو گا۔ان کا پرچار نہیں ہو گا ۔وہ اخبار اور 'بے وقوف بکسوں ‘ کے پردوں پر دکھائی نہیں دیں گے ۔وہ چاہیں گے سیشن چلتا رہتا تاکہ ان کی نوٹنکی جاری رہی ۔
یہ تو طے ہے کہ بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ اور وزیر کسی بھی قیمت پر استعفیٰ دینے والے نہیں ہیں۔ ان کی چمڑی اتنی ہی موٹی ہے جتنی کہ اقتداری سیاست دان کی ہوتی ہے۔ ان پر لگے الزام کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ صرف خبرچیوں نے ڈھنڈورا پیٹا ہے ۔کسی عزت دار آدمی کیلئے تو یہی کافی ہو تاہے ۔لیکن بھاجپا کی مشکل یہ بھی ہے کہ اتنے لیڈر ایک ساتھ مستعفی ہو جائیں تو وہ چار سال حکومت کیسے کرے گی؟ مستعفی ہونے والے لیڈر کیا اپنے گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں گے ؟وہ مودی کے گلے کے ہار بن جائیں گے۔ گزشتہ ایک سال میں مودی اور مودی کی شان میں کافی فرق آ گیا ہے۔ فولادی آدمی اب موم کا آدمی بن گیا ہے۔ اس کی بولتی بند ہے۔ اپوزیشن کے منہ میں ہزار زبانیں پیدا ہو آئی ہیں۔ پارلیمنٹ کا یہ سیشن ان کی نوٹنکی کا رنگ منچ بن جائے گا۔
اپوزیشن کی نوٹنکی کا دلچسپ پہلو تو پہلے سے ہی تیار ہے۔ راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھراراجے‘ایم پی کے وزیر اعلیٰ شوراج سنگھ چوہان اور وزیر خارجہ سشما سوراج کے استعفے کیلئے وہ کئی ہفتوں سے بِل بلا رہی ہے۔ ان استعفوں میں وہ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ کا نام بھی جوڑنے والے ہیں ۔ سمرتی ایرانی (ہیومن ریسورس منسٹر)پر بھی حملے کی مکمل تیاری ہے۔ مہاراشٹر سرکار پربھی دو سو کروڑ کا اناپ شناپ خرید کے الزام ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اپوزیشن کی توپ کے پاس گولوں کی کمی نہیں ہے۔ان کے پاس گولے ہیں تووہ ضرور برسائیں لیکن پارلیمنٹ ہی ٹھپ ہو گئی توان کے گولے ‘ان کی توپوں سمیت گول ہو جائیں گے ۔وہ خود کے پرچار سے تو ہاتھ دھو ہی لیں گے ‘ایسی ضروری قراردادیں بھی پاس ہونے سے رہ جائیں گی‘جو ملکی مفاد کیلئے بہت کار آمد ہیں۔ جیسے بچکانہ مزدوری قانون ‘بچکانہ جرائم اور عام محنت قانون! لینڈ اکیوزیشن قانون تو آرڈیننس کی ڈوری پر لٹکا ہی رہے گالیکن یہ دوسرے قوانین بھی لٹک گئے تو ملک کا بڑا نقصان ہو گا ،ملک کی اقتصادیات اور ٹیکس کے سدھار کیلئے یہ ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے اس سیشن میں یہ سب قانو ن جلد ہی پاس ہوں۔اپوزیشن کو بھی اس قوانین پرگہرا اعتراض نہیں ہے ۔اگر قانون تعمیر اور نوٹنکی دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو اس میں اقتداری اور اپوزیشن دونوں کا فائدہ ہے۔ اپوزیشن کے ذریعے پارلیمنٹ نہ چلنے دینا اور سرکار کے ذریعے سیشن ملتوی کرنا یہ دونوں ہی زیادتی والے اقدام ہوں گے ۔کیا ہمارے دانشمنداراکین پارلیمنٹ کوئی بیچ کا راستہ نہیں نکال سکتے ؟ 
ہم ہیں ‘نقلچیوں کاملک! 
دنیا کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ہونے کاسروے کرنے والے ایک ادارے کا تازہ حساب بھارت کو چونکانے والا ہے۔ اس کے مطابق دنیا کے پہلی 340 اعلیٰ یونیورسٹیوں میں بھارت کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔ 341 ویں نمبر پر ہے ‘دلی کا 'انسٹی ٹیوٹ آف 
ٹیکنالوجی‘! 379 نمبر پر ہے دلی یونیورسٹی اور پھر ہماری کئی نامی گرامی یونیورسٹیوں کا نمبر 400 ‘500 یا 600 پر جا کر ٹکتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک پڑھائی لکھائی میں اتنا پچھڑا ہوا ہے ؟ایسا نہیں ہے کہ دنیا کی ساری اعلیٰ یونیورسٹیز امریکہ میں ہیں ۔ وہ یورپ میں تو ہیں ہی ‘چین اور جاپان میں بھی ہیں ۔ اسرائیل ‘جنوب کوریا‘بیلجم‘سپین اورسوئٹزرلینڈجیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی ہیں اور وہ بھارت سے بہت آگے ہیں۔
ہماری یونیورسٹیاں اتنی پیچھے کیوں ہیں ؟اس سوال کے جواب میں آئی آئی ٹی کانپور کے چیئرمین نے یہ کہہ کر اپنی مصیبت ٹالی کہ ان ملکوں کی اعلیٰ یونیورسٹیاں پانچ سے چھ سو سال پرانی ہیں اور ان کا بجٹ کروڑوں ڈالر کا ہوتا ہے۔یہ دونوں دلیل بالکل بودی ہیں۔ دنیا کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں لیکن خود امریکہ سوا دو سو سال پرانا ملک ہے۔ جہاں تک پرانے ہونے کا سوال ہے ‘بھارت کی یونیورسٹیاں ہزاروں سال پرانی ہیں ۔بھارت کی جن یونیورسٹیوں کا ہم ذکر کررہے ہیں ‘وہ بھی ڈیڑھ سو سال پرانی ہیں لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ ان میں پڑھایا کیا جاتا ہے ؟انگریز 
نے کلکتہ ‘مدراس اوربمبئی میں جو تین یونیورسٹیاں سب سے پہلے قائم کی تھیں ‘ذرا ان کا نصاب اٹھا کر دیکھئے۔ان کا سب سے زیادہ زور'انگریزی زبان ‘ادب اور مذہبی تعلیم پڑھانے پر تھا۔ وہ عیسائی فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ایسی روائت سے حقیقت کی پیدائش کیسے ہو سکتی تھی؟ اب ہماری قریب قریب ڈھائی سو یونیورسٹیوں میں تقریباًسبھی مضامین پڑھائے جاتے ہیں لیکن ڈھرا وہی ہے ‘جو انگریزی آقاؤں نے ہم پر لادا تھا۔ اس لئے ہماری یونیورسٹیاں پھسڈی ہیں۔ ایک بات اور !مغرب میں یونیورسٹی کی تعلیم مہنگی ہے اور اس میں وہی نوجوان جاتے ہیں جن کی دلچسپی اور قابلیت ہے ۔ اپنے یہاں تو بھیڑوں کی چال ہے ۔ڈگری اور نوکری کا لالچ ہی یونیورسٹی کو ٹھسا ٹھس بھر دیتا ہے ۔وہ طالب بنیادی تحقیق کیوں کریں گے ‘کیسے کریں گے؟ اس کے علاوہ ہماری یونیورسٹیوں پر غیرضروری انگریزی اور انگریزی ذریعے پڑھائی کا گرہن لگا ہوا ہے ۔دنیا کی کوئی بھی اعلیٰ یونیورسٹی ایسی نہیں ہے ‘جہاں غیر ملکی زبان ہویا غیر ملکی زبان میں سبجیکٹ ہو۔ بھارت میں انگریزی کے سبب ہمارا ملک نقل چیوں کا ملک بن گیا ہے ۔ہم غیر ملکوں کی نقل کر کے ریڈیو ‘ٹیلی ویژن ‘موبائل فون اور یہاں تک کہ ہوائی جہازبھی بنا لیتے ہیں لیکن آپ ذرا مجھے بتائیے کہ ہماری یونیورسٹیوں نے دنیا کوکونسی بنیادی تحقیق یا کوئی چیز ایجاد کرکے دی ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved