تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     28-07-2015

راکھ کا ڈھیر

جب اقبال نے دیکھا کہ دلوں میں عشق (برائے اعلیٰ مقاصد) کی آگ بجھ چکی ہے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور غم و اندوہ سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ بمشکل لکھ پائے کہ ہمیں جو اُمت مسلمہ نظر آتی ہے وہ مسلمان ہونے کے معیار پر پوری نہیں اُترتی چونکہ وہ راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے۔ یہ کالم باقاعدگی سے پڑھنے والوں سے معافی چاہتا ہوںکہ میں ایک بار پھر اسی راکھ کوکرید رہا ہوں، اِس اُمید پرکہ شاید راکھ کی ڈھیر میں اقبال کے نوحہ کی تکرار سے غیرت و حمیت میں دبی ہوئی چنگاری پھر بھڑک اُٹھے۔ ذرا دُنیا کے موجودہ منظر نامہ پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ 80 سال پہلے اقبال نے ہماری جس حالت زار کا رونا رویا تھا، اُس میں کتنی تبدیلی آئی ہے؟ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت لاکھوں بے گناہ افراد کے قتل عام کی ذمہ دار ہے، مگر عالم اسلام خاموش رہا اور گونگا بن گیا۔ فرانس کے ایک مزاحیہ ہفت روزہ میں رسول کریم ﷺ کے توہین آمیزکارٹون شائع ہوئے مگر عالم اسلام اندھا ہوگیا۔ برما میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو ناقابل تصور مظالم کا نشانہ بنایا گیا،انہیں سمندرمیں دھکیل دیا گیا، مظلوموں کی آہ و بکا نے یورپ کے کچھ باضمیر لوگوں کو جگایا مگر عالم اسلام بہرہ بنا رہا،کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ آج پاکستان میں متوسط طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد مشرق وسطیٰ میں اُبھرنے والی ہر اُس قوت کے بدترین دشمن ہیں جو امریکی سامراج کے خلاف جہاد کر رہی ہے۔ یہ منطق سمجھنے کے لئے ارسطو ہونا ضروری نہیں کہ ہم ہر اُس قوت کے (سوائے چین ) دوست ہیں جس کا امریکہ اور برطانیہ دوست ہے اور ہر اُس قوت کے دُشمن ہیں جس کا امریکہ اور برطانیہ دُشمن ہے۔کیا یہ محض اتفاق ہے؟ ہرگز نہیں۔ 
28 جون کی صبح آپ کے کالم نگار کو آکسفورڈ سے پیغام آیا کہ وہاں یونیورسٹی کی پاکستان سوسائٹی نے محفل افطارکا اہتمام کیا ہے اور اس کا مقصد برمی مسلمانوں کے لئے عطیات جمع کرنا ہے۔ میں پچاس میل کا سفر طے کرکے اور تمام مصروفیات چھوڑکر لندن میں ٹریفک کے اژدہام کے باوجودکشاں کشاں آکسفورڈ گیا۔ پچاس کے قریب مسلمان طلبا اور طالبات اور اُن کے انگریز مہمانوں نے ایک دُوسرے کو بہت عمدہ کھجوریں کھلائیں اور آبِ زم زم پلایا (افسوس کہ آپ کا کالم نگار بڑھاپے کی وجہ سے برطانیہ کا 20 گھنٹے کا روزہ نہیں رکھ سکتا) البتہ نماز میں نے اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ بڑے خشوع و خضوع سے پڑھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ایک عرصہ بعد سجدہ ریز ہوا تو آکسفورڈ کی زمین سے مجھے صنم آشنائی کے طعنے کی آواز نہ آئی۔ ہم سب نے پاکستان، فلسطین اور برما کے دُکھی اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے لئے دعائیں مانگیں۔ اگر خدائے ذوالجلال نے اُن میں سے ایک فیصد بھی قبول کر لیں تو ہمارے دن پھر جائیںگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں پائونڈ اکٹھے ہوگئے جو ایک بڑی محترم خیراتی تنظیم کے ذریعہ ضرورت مندوں کو بھیجے جائیںگے۔ وہ رقم برما کے مسلمانوں کے دُکھوں کا مداواکرنے کے لئے توکافی نہیں مگر اُمید کی جا سکتی ہے کہ اُن کے زخموں سے رستا ہوا خون اورآنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو بہنا بند کرنے میں غالباً موثر ثابت ہوگی۔ 
ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں میں دس لاکھ (یعنی ہزار میں ایک) تو اتنے خوشحال ضرور ہوں گے کہ وہ بآسانی برما کے آفت زدہ مسلمانوں کی فوری امداد کے لئے ایک ہزار ڈالر فی کس دے سکتے ہیں۔ یہ ایک ارب ڈالر بنتے ہیں۔ یہ رقم سمندر کے بے رحم تھپیڑے کھانے والے لاچار برمی مسلمانوں کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا سکتی ہے اور وہاں ان کے نان و نفقہ کا انتظام بھی کر سکتی ہے۔ مگر مسلمان ہیںکہاں؟ وہ تو بقول اقبال راکھ کا ڈھیر ہیں۔ ہم یہ راکھ اپنے ماتم کناں سروں پر مل سکتے ہیں۔ راکھ کا اس سے بہتر استعمال میرے ذہن میں اورکوئی نہیں۔ منیر نیازی نے ایک اور مصرف بھی بتایا کہ اس راکھ کو ہوا میں اُڑا دینا چاہئے۔ 
حال ہی میں یہ مژدہ سنائی دیا کہ سرزمین حجاز کے بے حد امیر شخص (شہزادہ ولید) نے اپنی ساری دولت (اندازاً 20 ارب ڈالر) خیراتی کاموں کے لئے وقف کر دی ہے۔ میرے پاس موصوف کا نہ پتا ہے نہ فون نمبر اور نہ ہی ای میل، ورنہ میں اُن کی توجہ برما کے مسلمانوں کی طرف دلاتا جن کا واحد قصور اُن کا مسلمان ہونا اور بنگلہ دیش کے پڑوس میں رہنا ہے جو اپنی کثیر آبادی اور غربت کی وجہ سے انہیں پناہ دینے سے قاصر ہے۔ 
برما تو پھر بھی ہم سے ڈیڑھ ہزار میل دُور ہے، وزیرستان تو ہماری مغربی سرحد پر ہے جہاں سالہا سال امریکی ڈرون حملے کر کے سینکڑوں بے گناہ افراد ( بچے، بوڑھے اور خواتین) کو بے دریغ موت کے گھاٹ اُتارتے رہے، مگر اہل وطن کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہم بے گناہ شہریوں ان کے قتل عام پر ماتم تو دُور کی بات ہے، احتجاج بھی نہیں کرتے۔ پاکستان کا مراعات یافتہ طبق اپنے ضمیر کویہ کہہ کر سُلا دیتا ہے۔ چلیے وزیرستان کا قصہ تو پاک ہوا، اب ہم کراچی چلتے ہیں جہاں مصدقہ اطلاعات کے مطابق بارہ سو سے زیادہ افراد شدید گرمی اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے باعث چند ہفتوں کے اندر ہلاک ہو گئے۔ اہل وطن نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ ہمارے معمولات میں کوئی فرق آیا اور نہ ہمارے مشاغل میں، روشنیاں ماند ہوئیں نہ چراغ بجھے۔ مہنگے ریستورانوں میں دو ہزار روپے فی کس کے حساب سے کھانا کھانے والوں اور نہ فلم دیکھنے کی قطاریں بھی چھوٹی نہ ہوئیں۔ آپ نے ضرور غور فرمایا ہوگا کہ کراچی کے کلفٹن اور ڈیفنس کے مہنگے علاقوں میں رہنے والا ایک بھی شخص گرمی سے مرنا تو کجا بیمار تک نہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں غریب ہونا پرلے درجے کی غیرذمہ دارانہ غلطی ہے۔ گویا غربت ایک لحاظ سے موت کے مترادف ہے۔ 
اقبال کو یہ بھی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اُن کے بعد شاید کوئی دُوسرا دانائے راز نہ آئے۔ اقبال کی فارسی میں لکھی ہوئی کمال کی رُباعی پڑھ کر آپ کے کالم نگارکا بوڑھا دل اس خدشے میں ڈوب جاتا ہے کہ اقبال تو ہم سے عرصہ ہوا جدا ہوگیا، اب ہم نرگس کی طرح ہزاروں سال اپنی بے نوری پر روتے رہیںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں 48 سال کے قیام کے بعد میں ہمہ وقت اہل برطانیہ کا اہل پاکستان سے موازنہ کرتا رہتا ہوں اور اہل وطن کی خوبیوں ( خصوصاً بہادری، جفاکشی اور فیاضی) اور خامیوں کی فہرست بناتا رہتا ہوں۔ 
میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔ میرے ذہین قارئین کو اُس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ جولائی کے شروع میں تیونس کے ساحل پر غسل آفتابی کرنے والے جو لوگ دہشت گردی کی واردات کا شکار ہوئے اُن کی تعداد 38 تھی اوراُن میں30 برطانوی شہری تھے۔ ہلاک ہونے والوں کی میتیں رائل ایئر فورس برطانیہ لائی۔ تدفین کی ذمہ داری برطانوی حکومت نے بڑے سلیقے سے ادا کی۔ قومی سطح پر سوگ منایا گیا۔ برطانوی پرچم سرنگوں رہا۔ پورے ملک میں احتراماً ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی۔گرجاگھروں میں ماتمی گھنٹیاں بجائی گئیں۔ سوگ منانے والوں میں وزیراعظم اور ملکہ معظمہ بھی شامل تھیں۔ یہ صرف30گھرانوں کا ذاتی المیہ نہ رہا، قومی المیہ بن گیا۔ یہ ہوتا ہے زندہ اور مردہ قوم میں فرق۔ زندہ قوم مرنے والوںکو شہیدکا درجہ دیتی ہے۔ مردہ قوم کے دل و دماغ سے یہ مصرع سنائی دیتا ہے: تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توقارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس کالم نگار کے ساتھ مل کر دُعا مانگیں کہ خدائے ذوالجلال ہمیں پھر وہ آنکھ (یعنی اجتماعی شعور) عطا فرمائے کہ جسم کا کوئی بھی عضو تکلیف میں مبتلا ہوتو درد کے مارے اُس آنکھ سے آنسو ٹپک پڑیں۔ آپ کو اس موضوع میں دلچسپی ہو تو تھوڑی سی ہمت کرکے بانگ درا اُٹھاکر اقبال کی وہ نظم پڑھ لیں جس میں مذکورہ بیانیہ بڑی خوبصورتی سے مثالیں دے کر واضح کیا گیا ہے۔ میں اُن قارئین کا شکرگزار ہوں جو یہ کالم پڑھ کر اس کالم نگار سے بذریعہ ای میل رابطہ قائم کرتے ہیں، قیمتی مشورے دیتے ہیں اور میری حوصلہ افزائی کے لئے تعریفی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ سے ایک ذہین شخص نے مشورہ دیا ہے کہ میں اپنے کالم میں اُن کتابوں کا ذکر کرتا رہوں جو میرے زیر مطالعہ ہیں۔ کتابیں تو عام طور پر ایک بار ہی پڑھی جاتی ہیں مگر خواجہ غلام فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ ، سلطان باہو، غالب، اقبال اور فیض کا کلام سرہانے رکھ کر سوتا ہوں۔ سوچتے جاگتے اُن کے زندہ جاوید اشعار میں بیان کردہ تصورات اور نظریات میرے دل و دماغ کو روشن رکھتے ہیں، معطر کرتے ہیں، جلا بخشتے ہیں۔ یہی ایک سابق پینڈوکا ذہنی سرمایہ ہے۔ یہ سات عظیم شعرا علم و حکمت، فلسفہ و دانش، قلبی محسوسات اور ذہنی کیفیات کے سمندر ہیں اور میری ساری عمر ساحل پر گھونگھے سیپیاں چنتے گزرگئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved