اب سعودی عرب حوثی باغیوں کے ساتھ 'مذاکرات‘ میں مصروف ہے۔گزشتہ دنوں جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی نمائندے بضد رہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2216 پر عملدرآمد کرایا جائے جس کی وجہ سے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ اس قرار داد کے مطابق حوثی باغیوں کو اپنے زیر قبضہ تمام علاقہ چھوڑنا پڑے گا اور اس کے ساتھ جلاوطن صدر حادی کی حکومت کو جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے واپس بحال ہونے میں مدد فراہم کرنی ہو گی اور اپنا تمام اسلحہ اس حکومت کے حوالے کرنا ہو گا۔جن باغیوں کو سعودی اور اتحادی طیاروں کی بمباری کے ذریعے سعودی غلامی قبول کرنے پرمجبور نہیں کیا جا سکا ان سے مذاکرات کی میزپر اس قسم کے مطالبات کیسے تسلیم کرائے جا سکتے ہیں ۔
اس قسم کی کچھ خبریں ابھی سے آنا شروع ہو گئی ہیں جیسے یمن کی سرحد کے قریب واقع سعودی علاقے نجران کے مختلف قبائل نے مل کر ایک اتحاد بنایا ہے جو یمن کے باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ تین سو فوجیوں نے کمانڈر سمیت بغاوت کر کے یمن کی باغی افواج میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس کے جنوبی اور پسماندہ علاقوں میں آباد قبائل اپنے معیارِ زندگی کے حوالے سے یمن کے غریب لوگوں کے زیادہ قریب تر ہیں ۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی اجارہ داری برقرار رکھنے کی لڑائی اس عرب ملک کی مالی مشکلات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔امریکی شیل تیل کی صنعت کو برباد کرنے کے لئے تیل کی قیمتوں میں کمی کوبرقرار رکھنے میں اس کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے خرچ ہوتے جا رہے ہیں۔ بجٹ خسارہ آنے والے سال میں 130ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ یمن پر جارحیت، دہشت گردوں کی امداد اور دیگر خفیہ وارداتوں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ سالانہ اربوں ڈالر مختلف عالمی اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز کو رشوت کے طور پردی جاتی ہیں تا کہ جبر کی خبریں منظرِعام پر نہ آئیں۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے ا پنی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا جس میں دیگر وجوہ کے ساتھ ایک وجہ مالی مسائل میں اضافہ بھی ہے۔ مقامی آبادی کا 47فیصد24سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات کے مطابق ریاستی مشینری ان تمام نوجوانوں کی مکمل جاسوسی کا انتظام کرتی ہے جو دوسرے ممالک میں حصولِ تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے انتہائی اہم ملک مصر کے شمالی علاقے سینائی میں یکم جولائی کو پولیس اور فوج کی پانچ مختلف چوکیوں پر دہشت گردوں کے حملوں میںساٹھ اہلکار مارے گئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی داعش کی مصری برانچ نے قبول کی ہے۔ مصر میں سیسی کی حکومت پہلے ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کے جمہوری حقوق پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دوسالوں میں سیسی حکومت نے تقریباً 41 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جن میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو مصر کے دوسرے انقلاب کے روحِ رواں تھے۔ اخوان المسلمین کے کارکنان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے ساتھ مصر کے انقلابی نوجوانوں کے خلاف بھی ریاستی انتقام کا عمل جاری ہے۔ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے نام پر ہر قسم کی سیاسی سرگرمی کو ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔29اپریل 2015ء کو مڈل ایسٹ مانیٹر ویب سائٹ نے مصر کی اعلیٰ انتظامی عدالت کا ایک فیصلہ شائع کیا جس میں اس عدالت نے سرکاری شعبے کے تمام ملازمین کے لئے ہڑتال کرنا غیر قانونی قرار دیا ہے۔ مصر کے صحافیوں کی یونین نے10جون کو ہڑتال کی۔ اس میں گرفتار صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، اس وقت مصر کی مختلف جیلوں میں تین سو سے زیادہ صحافی قید ہیں۔ اگرچہ ریاست اس معاملے میں بہت محتاط ہے اور محنت کشوں پر براہ راست جبر سے اجتناب کر رہی ہے اور زیادہ انحصار کھوکھلے وعدوں اور مستقبل میں بہتری کی جھوٹی امیدوں پر ہے۔
سماج کی عمومی صورتحال بھی انتہائی ابتر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق مصر کی کل آٹھ کروڑ بیس لاکھ آبادی میں سے ایک تہائی یعنی دو کروڈ تہتر لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افراطِ زر کی شرح13.1فیصد ہے۔ سیسی حکومت معیشت میں بہتری کیلئے مسلسل بیرونی سرمایہ کاری کیلئے موافق حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔مصر کی معیشت تاحال خلیجی ممالک سے ملنے والی امداد کے سہارے چل رہی ہے جس میں ایک بڑی رقم اسے اخوان المسلمین کے خلاف کارروائی کے معاوضے کے طور پر فراہم کی گئی تھی جس کا مقصد قطر کا اثر و رسوخ ختم کرنا تھا۔ سیسی حکومت نے گزشتہ دوسالوں سے رفاح کی سرحد پر موجود زیادہ تر زیرِ زمین سرنگوں کو بند کر رکھا ہے جن کے ذریعے غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی اپنی ضروریات کا سامان لے جاتے تھے۔ سیسی حکومت نے غزہ کی حکمران جماعت حماس پر سینائی کے علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کا الزام بھی عائد کر رکھا ہے۔در حقیقت قطر اور اخوان المسلمین کے ساتھ حماس کے قریبی مراسم کی سزا عام عوام کو بھگتنی پر رہی ہے۔ مصر کے مختلف شعبوں کے محنت کش اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محلہ ٹیکسٹائل سے لیکر اساتذہ، قدرتی گیس، سٹیل مل سمیت تمام اداروں میں محنت کشوں کی ہڑتالیں وقفے وقفے سے ابھرتی رہتی ہیں۔ 30جون2013ء کو عددی اعتبار سے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب بر پا کرنے والے مصر کے محنت کش ، نوجوان اور عوام سیسی حکومت سے مایوس ہو کر ایک بار پھر تاریخ کے میدان میں اتریںگے۔ اپنی جدو جہد کے تجربات اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے اسباق کی روشنی میں مصرکے محنت کش اور نو جوان یہ ناگزیر نتیجہ اخذ کریں گے کہ حکومتیں نہیں اس نظام کو بدلنا پڑے گا۔ اس قسم کی تحریک کا ابھار مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو لرزا کے رکھ دے گا۔
مشرق وسطیٰ کے سماجوں پر حاوی موجودہ رجعت اور خونریزی کا خاتمہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس نظام کے خاتمے کے آغاز کی تمام توقعات کا محور مصر ہو سکتا ہے جو انقلابات کو جنم دینے کے حوالے سے ابھی تک بہت زرخیز ہے۔ (ختم)