معلوم نہیں ، کہ روسی شہر اوفا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئی ملاقات کے دوران2008ء میں ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوںمیں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کس حد تک بات چیت ہوئی، مگر آثار و قرائن بتا رہے ہیں ، کہ ''ہندو دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھارت میں سرکاری ایجنسیوں پر دبائوبنایا جارہا ہے، کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں؛ تاکہ ملوث افراد کی فی الحال ضمانت پر رہائی ممکن ہو سکے۔ نومبر 2008 ء میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔ابتدائی تفتیش میں بھارتی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم' ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیا ، کہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی بھارت کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے
کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔
گو کہ بھارت میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کئے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹرہ کے مالیگائوں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنمائوں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں 'ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔ بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔ ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے یو پی اے حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں ' نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا ۔ لینا کے بقول '' تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز ( وجہ بتائو) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟‘‘ مہاراشٹر کی اسوقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔
مگر اب جب سے پچھلے سال بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے، ان مقدمات کو کمزور کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں مالیگائوں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل (Special Public Prosecutor ) رو ہنی سالیان نے حال میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیاہے ، کہ ایک طرف سرکاری وکیلوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیںاور دوسری طرف سرکاری گواہوں کو منحرف کیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث '' ہندو دہشت گرد ‘‘ رہا ہوسکیں۔ روہنی سالیان نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیاتھا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں ۔ سالیان نے کہا کہ '' اس کا مقصد (افسر کا لایا ہوا ہے پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بی جے پی جب گزشتہ سال مرکز میں بر سر اقتدار آئی تو این اے آئی کا ایک افسر ان کے پاس آیا اور بات کی ۔ سالیان کے بقول : '' اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔‘‘ مالیگائوں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیم نند( جس کے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنمائوں بشمول اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ ''نرمی اور تساہلی‘‘ سے کام لیں ۔ یہ حقیقت بھی قابل تشویش ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی چل رہی تحقیقات بھی روک دی گئی ہے جس میں آرایس ایس کے بڑے رہنما جیسے اندریش کمار وغیرہ کا نام نہ صرف ملزموں نے عدلیہ کے سامنے دیئے گئے اپنے اقبالیہ بیان میں دیا تھا بلکہ جانچ رپورٹوں میں بھی ان کے نام آئے تھے۔ این آئی اے کا یہ دعوی کہ وکیل صاحبہ ( سالیان) ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہی تھیں، بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کیس میں بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی اس مستعدی سے حکومت تشویش میں مبتلا ہوگئی تھی۔یہ وہی وکیل صاحبہ ہیں جنہوں دائود گینگ کے کئی ارکان کو سزا دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔مالیگائوں مقدمہ میں سالیان نے جس مستعدی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اس نے ارباب اقتدار کو پریشان کردیا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون کے جانبدارانہ اطلاق کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔پچھلے چند مہینوں میں گجرات کے تقریباً وہ تمام پولیس افسران جو ''پولیس مقابلوں ‘‘ کے نام پر بے رحمانہ قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں وہ سب ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور بعض کو دوبارہ ملازمت پر بحال کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے موجودہ صدر امیت شاہ ، جن کے بارے میں قومی تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ تک لکھ دیاتھا کہ '' ( پیسہ اینٹھنے کا)ریکٹ ان سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ختم ہوتا ہے ۔‘‘ وہ بھی سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کے علاوہ دیگر انکائونٹر میں '' بری ‘‘ کردیئے گئے ہیں۔ اب سی بی آئی کا امیت شاہ کو عجیب و غریب طریقہ سے بری کئے جانے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ بھی سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے۔ مالیگائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس کا مقدمہ بھی اسی سمت میں جارہا معلوم ہوتا ہے۔مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اجمیر درگاہ بلاسٹ کے 14گواہان منحرف ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر آرایس ایس کے لوگوں سے قربت رکھتے ہیں۔ ان میںسے ایک گواہ رندھیر سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے جھارکھنڈ کی نئی بی جے پی حکومت میں وزیر مقرر کیا گیا۔ اجمیر کیس کے سرکاری استغاثہ اشونی شرما کے مطابق 15میں سے 14گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہوگئے ہیں جوانہوں نے 2010میں اے ٹی ایس اور مجسٹریٹ کے سامنے تعزیرات ہند کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کرائے تھے ۔ ان کے علاوہ گجرات نسل کشی کے بدترین واقعات کے مجرمین جیسے سابق وزیر مایا کونڈنانی اور بابو بجرنگی وغیرہ جنہیںسزائے موت کے بدلے با مشقت طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں، وہ آج عارضی ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں۔ اب این آئی اے نے گجرات کے موڈسا میں2008ء میںہوئے بم دھماکے کی جانچ بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس بارے میں ناکا فی شواہد کا عذر پیش کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے سنیل جوشی کے قتل مقدمہ کو مدھیہ پردیش منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کرکرے نے جو ضخیم چارج شیٹ تیار کی تھی اس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار، وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا کے علاوہ کئی اور نام بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ سوامی اسیم نند نے کاروان میگزین کو دیئے گئے اپنے طویل انٹرویو میں آرایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا تھا ۔یقین تھا کہ اوفا میں ملاقات کے دوران شاید پاکستانی وزیراعظم سمجھوتہ ٹرین کی تفتیش سے متعلق استفسار کریں گے، چونکہ اس معاملہ کے تار بھارت میں دہشت گردی کے دیگر واقعات سے بھی جڑے ہیں، لگ رہا تھا کہ انٹرنیشنل دبائو یا راولپنڈی میں ممبئی حملوں میں ملوث ملزمین پر مقدمہ میں تیزی لانے کے عوض بھارت میں بھی ہند و دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائیگا، مگر مودی حکومت جس طرح دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کر رہی ہے وہ انتہائی تشویش کا موجب ہے۔ممبئی ، سمجھوتہ ، مالیگائوں، اجمیر اور اس طرح کے دیگر کئی واقعات ہنوز انصاف کے منتظر ہیں۔