تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     29-07-2015

نیرو سے جمی کارٹر تک…

نیویارک ایک خوبصورت شہر ہے۔ جس نے نیویارک نہیں دیکھا‘ اس نے شاید دنیا ہی نہیں دیکھی ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا یہاں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی رہتے ہیں۔ پاکستانی صحافی دوست محسن ظہیر کی خبروں اور کالموں کے ذریعے پتہ چلتا تھا کہ نیویارک میں کیا کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ویسے میں بور ٹائپ شخص ہوں‘ جو ایک کمرے میں کئی دن تک باہر نکلے بغیر رہ سکتا ہے۔ ہاں کچھ کھانے کو فریج میں موجود ہو، کتابوں کا ڈھیر لگا ہو اور فلمیں۔
گائوں میں اماں نے شہر جانا ہوتا تو ان کی نظریں میرے اوپر ٹھہرتیں کہ یہ گھر کی رکھوالی کرے گا‘ کہیں نہیں جائے گا ۔ میاں مشتاق جاوید کو شاید اندازہ تھا کہ ہم سرائیکی کتنے سست واقع ہوئے ہیں‘ لہٰذا ا نہوں نے میامی سے فون کیا کہ لانگ آئی لینڈ پر پاکستانی ہر سال عید ملن کرتے ہیں‘ بہتر ہیں آپ چلے جائیں۔ انہوں نے ایک دوست لیاقت صاحب کو فون کر کے کہا کہ وہ مجھے لے جائیں ورنہ کمرے میں ہی لیٹا رہوں گا ۔ چار گھنٹے ڈھائی تین سو پاکستانیوں کے درمیان گزارنے کا موقع ملا ۔ہر کوئی ناراض، ہر کوئی خفا کہ کیا حشر کر دیا ہے۔ سب کا خیال ہے کہ پاکستان امریکہ بن سکتا ہے۔ یہاں یہ کچھ ہوتا ہے تو وہاں کیوں نہیں ہوسکتا ۔
میں بھی ایسے موقعوں پر ملزم کی طرح چپ چاپ سنتا رہتا ہوں۔ کچھ دوستوں نے بہت اصرار کیا کہ تقریر ہوجائے۔ میں نے معذرت کر لی۔ ہر وقت بولتا رہتا ہوں۔ یہ بے چارے چپ چاپ ٹی وی پر ہمیں سنتے رہتے ہیں ۔ اگر آج انہیں بولنے کا موقع ملا ہے تو سن لیا جائے۔ اکثریت یہاں عمران خان کی حامی نکلی۔ وہ نواز شریف اور زرداری سے بیزار ہوچکے ہیں ۔ عدالتی کمشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ بہت سوں کا کہنا تھا کہ چھوڑیں جی‘ اب اس ملک میں کیا بچ گیا ہے۔ کسی نے پوچھا کوئی امید، کوئی اچھائی کی توقع؟ انہیں لگتا ہے کہ ملک لٹ گیا ہے اور جنہوں نے اس لوٹ مار کو روکنا تھا وہ بھی انہی لٹیروں کے ساتھ مل گئے۔
جنرل راحیل شریف یہاں بھی بہت زیادہ مقبول پائے۔ طالبان کے خلاف کی گئی کارروائی نے جنرل راحیل کو یہاں خاصا مقبول کر دیا ہے۔ جنرل کیانی کے چھ برسوں میں جتنا نقصان ہوا‘ ان کے خیال میں‘ جنرل راحیل نے ڈیڑھ برس میں اس کا ازالہ کر دیا ہے۔ کراچی میں بھی جس طرح فوج نے اسٹینڈ لیا ہے اس پر بھی وہ کافی خوش ہیں۔ تاہم ایان علی کی رہائی پھر انہیں مایوس کر گئی کہ کچھ بھی ہوجائے طاقتور اب بھی ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور بچاتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ایان علی کو رعایتیں اس لیے بھی دی گئی تھیں کہ ایک صاحب بھی کئی کلو گرام سونا بیرون ملک سمگل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور ان کا براہ راست تعلق بھی شاہی خاندان سے نکل آیا تھا لہٰذا ایان کا مقدمہ ان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا تھا ۔ 
تاہم ایک لفظ سے میں بہت چڑتا ہوں ۔ وہ ہے سسٹم ۔ سب کہتے ہیں کہ پاکستان میں سسٹم ٹھیک کر دو تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ سسٹم کس بلا کا نام ہے؟ یہ کہاں پائی جاتی ہے۔ اسے کون درست کرے گا ؟ اس کا جواب کوئی نہیں دیتا ۔ ایک رومانس سب نے سسٹم کے ساتھ باندھ لیا ہے اور دن رات اس کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ میںنے جب دو تین لوگوں سے یہی بات کہی کہ پلیز یہ سسٹم والی کہانی مزید نہ سنائیں تو وہ کچھ حیران ہوئے کہ میں کیا بونگی ماررہا ہوں ۔ میرے خیال میں سسٹم کوئی چیز نہیں ہوتا۔ جو لوگ اس سسٹم کو چلارہے ہوتے ہیں دراصل وہ سسٹم ہوتے ہیں۔ جب کوئی اچھا بندہ اوپر آجاتا ہے تو اسی مردہ سسٹم میں جان پڑجاتی ہے۔اخبار کا ایڈیٹر اچھا آجائے تو اچانک اخبار میں آپ کو شاندار تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ایک ہوٹل کو اچھا منیجر مل جائے تو راتوں رات سارا عملہ چست ہوجاتا ہے۔ خیبر پختون خوا کی پولیس کو آئی جی ناصر درانی نے کیسے اچھا کر دیا ہے۔ ان سے پہلے جو آئی جی تھے وہ چار ارب روپے کے اسلحہ سکینڈل میں آج کل جیل میں ہیں۔ اب آپ سسٹم کو برا بھلا کہیں گے؟ ایک آئی جی کرپشن کرتا ہے جب کہ دوسرا فورس کو تیار کر کے بہادر بنادیتا ہے۔ ناصر درانی کی ایک ویڈیو فیس بک پر دیکھی جس میں وہ اپنی فورس کی کونسلنگ کررہے ہیں۔ یقین کریں سن کر دل خوش ہوگیا۔ کمانڈر ایسا ہونا چاہیے۔ ناصر درانی کا وہ ویڈیو کلپ دیکھ کر میرا اپنا جی چاہا کہ صحافت چھوڑ کر پولیس میں بھرتی ہوجائوں۔ 
چھ برس جنرل کیانی فوج کے سربراہ رہے‘ جب روانہ ہوئے تو طالبان پے در پے حملے کر رہے تھے۔ جنرل راحیل نے انہی طالبان کو چند ماہ میںشکست دی۔ جنرل کیانی ایک برس سوچتے رہے۔ جنرل کیانی کے حمایتیوں کے پاس بچ بچا کے سوات آپریشن کی کہانی ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ آخر وہاں اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو جمع کس نے ہونے دیا؟ کس نے سیاستدانوں کو مجبور کیا کہ دہشت گردوں کو مرضی کی ریاست دے دیں۔ پھر جتنے بے گناہوں کا لہو وہاں بہا‘ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر یہ کیسا آپریشن تھا کہ سب دہشت گرد بچ نکلے اور کسی اور جگہ اکٹھے ہوکر پھر فوجیوں کے گلے کاٹنے لگے۔ اگر سوات آپریشن کامیاب بھی ہوا تو کیا سوات آپریشن کے بعد سو جانا چاہیے تھا کہ جناب کام مکمل ہوگیا ہے‘ آپ کسی اور علاقے میں جا کر دہشت گردی شروع کر سکتے ہیں آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا؟ 
جنرل راحیل کے آنے سے سسٹم میں ایسی کون سی تبدیلی آئی کہ طالبان کو شکست ہوئی؟ ایک جنرل کے آ جانے سے 
فرق پڑا‘ وگرنہ چھ سال تک ہم ایک ہی کہانی سنتے آئے تھے کہ اگر طالبان کو چھیڑا گیا تو وہ ہمیں تباہ کر دیں گے۔ خود فوج نے جب وزیرستان پر قبضہ کیا تو بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے پاس بیس سال تک لڑنے کا اسلحہ موجود تھا۔ شکر کریں کہ کمانڈر تبدیل ہوا اور اس کے ساتھ ہی چھ سالہ پرانی جنگی حکمت عملی بدلی اور راتوں رات حالات بدل گئے‘ ورنہ ہمارے بیس برس تو اسی جنگ میں گزر جانے تھے۔ ابھی سے بہت سوں نے ڈرنا شروع کر دیا ہے کہ جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ملک کا کیا ہوگا؟ پھر وہی دہشت گردی اور دہشت گرد اور ہمارے منت ترلے! 
تو پھر سسٹم کہاں گیا...؟ 
کسی تھانے کو اچھا ایس ایچ او مل جائے، تو تھانہ بدل جاتا ہے۔ ایک ڈی پی او کسی ضلع میں بہتر آجائے تو پورے ضلع کو پتہ چلتا ہے کہ تبدیلی آئی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ طارق کھوسہ ایف آئی اے کے سربراہ بنے تھے اور اس ایجنسی کا رنگ ہی بدل گیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی نے فوراً انہیں بدل دیا تھا کہ کہیں وہ پورا ماحول ہی نہ بدل دیں۔ ایجنسی کے افسران تک کی چال ڈھال بدل گئی تھی۔ آج کل جو ایف آئی اے کا حشر ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ تو پھر کہاں گیا سسٹم؟ 
کیا آپ نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر سرکاری وردی کے نام پر دھبہ ڈالنے والے افسر کی نئی ویڈیو ویکھی ہے جو مسافر سے رشوت لے رہا ہے؟ کیا یہ سسٹم کا قصور ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ اس ائرپورٹ کے اہلکاروں کے افسر کا قصور ہے کہ سسٹم کام نہیں کررہا۔ یہ ویڈیو دیکھ کر شرم سے بندہ ڈوب مرے کہ ہم کہاں جاگرے ہیں...بھکاری بھی بہتر ہوتے ہیں ان سرکاری اہلکاروں سے جو اس بے شرمی سے چند سو روپے کے لیے اپنی اور اپنے ملک کی عزت بیچتے ہیں۔ شاید ان کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف، زرداری، اسحاق ڈار سمیت ایک سو پچاس میگا سکینڈل کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش ہوتی ہے اور وہ اس ملک کے حکمران ہیں تو وہ چند سو روپے لیتے ہوئے کیوں جھجکیں گے؟ 
نیویارک میں بھی برسوں سے میئر چلے آرہے تھے۔ سسٹم بھی موجود تھا ۔کیا ہوا ؟ جرائم بڑھتے ہی چلے گئے۔ جیولانی نے سب کچھ بدل دیا۔سسٹم ہے نام ایک اچھے حکمران یا اچھے افسر کا جو اپنی ڈیوٹی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو۔چھوڑیں‘ آپ کو کس چکر میں ڈال دیا ہے۔نیویارک میں ویک اینڈ پر شاندار فلم دیکھی ہے Southpaw۔دل چاہتا ہے فلم پر پورا کالم لکھوں۔ کیا خوبصورت کہانی اور اداکاری ہے۔ فلم آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے‘ حالانکہ مجھے باکسنگ کے موضوع پر بننے والی فلموں سے چڑ ہے۔ شاید زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی اور دل کو بھا گئی۔ کچھ کتابیں خریدی ہیں۔ جہاں رہتا ہوں‘ قریب ہی کتابوں کی بہت بڑی دکان ہے۔ دن کا زیادہ تر حصہ وہیں گزرتا ہے۔ جمی کارٹر نے نوے برس کی عمر میں کتاب 'The Full Life‘ لکھی ہے۔ جی ہاں نوے برس بعد اس نے زندگی کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔کیا شاندار تحریر ہے۔ جان ایف کینڈی کی اہم کتاب 'Profiles in Courage‘ دوبارہ خریدی ہے۔ پچھلے برس پاکستان لے گیا تھا لیکن گم ہوگئی تھی۔ ہاں'The Twelve Caesars'بھی خریدی ہے کہ باقی سیزر چھوڑیں آپ کو چھٹے بادشاہ سلامت نیرو کی کہانیاں سنانی ہیں ۔ پاکستان میں نیرو کے بارے میں صرف اتنا جانا جاتا ہے کہ روم جل رہا تھا اور وہ بانسری بجا رہا تھا۔نہیں جناب ، نیرو کے کارنامے ایسے ہیں کہ مجھے شاید کئی کالم لکھنے پڑیں ۔
سپریم کورٹ میں ایک سو پچاس سکینڈلز پر دل چھوٹا نہ کریں کہ انسانی تاریخ میں صرف پاکستانی حکمران ہی نہیں جو اپنے ہی لوگوں کو لوٹتے ہیں، انسانی تاریخ ایسے لالچی اور حرص کے مارے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ جس طرح کی لوٹ مار نیرو نے روم میں کی تھی‘ اس کے بعد آپ کو اپنے حکمران فرشتے لگیں گے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved