تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-07-2015

محبت سائنس کی نظر میں

اگر میں یہ کہوں کہ محبت ایک سو فیصد سائنسی جذبہ ہے تو شاید آپ لوگ دم بخود رہ جائیں ۔جذبہ اور وہ بھی سائنسی ؟ جذبات اور سائنس کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ؟ لیکن پھر بھی ، جی کڑا کر کے میں کہہ دیتا ہوں ''محبت ایک سائنسی جذبہ ہے ‘‘ بظاہر یہ بات اس لیے عجیب ہے کہ لیلیٰ مجنوں جیسے جن کرداروں نے محبت کا نام ''روشن‘‘ کیا، وہ سائنسدان نہیں تھے۔محبت کی انتہا میں ایک وقت ایسا آتاہے کہ محبوب کے سوا آدمی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس جذبے کی شدّت دماغ کے اوپر والے حصے میں موجود عقل کو معطل کرڈالتی ہے ۔ اس کی تمام تر جدوجہد اسی ایک تمنّا تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس وقت جدید آلات کی مدد سے اس کے دماغ کی کیمیائی تشکیل پہ نظر دوڑائی جائے تو شاید ہو بہو وہ Obsessionکے مریض کے مشابہہ ہو ۔ obsessionمیں آدمی کی ساری توجہ اس کی پریشانی تک محدود ہوتی ہے ۔ مثلاً یہ کہ وہ سمجھنے لگتاہے کہ اس کے ہاتھ صاف نہیں ہیں اور یوں وہ بار بارانہیں دھوتا رہتاہے ۔ محبت میں حد سے گزرجانے والا اور obsessionکا مریض ، دونوں ہی اس اعتدال سے محروم ہو جاتے ہیں ، جہاں زندگی کووہ نارمل انداز میں بسر کر سکیں ۔ 
ممکن ہے کہ شاعر حضرات میری اس جسارت پہ بگڑ جائیں ۔ وصل اور فراق، محبت کے کسی بھی ایک پہلو کو بیان کر نے کے لیے دیوان کے دیوان انہوں نے لکھ مارے اور ادھر میں یہ کہہ رہاہوں کہ یہ سب اپنی 
نوعیت کی ایک سائنس ہے ۔ بہرحال میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ابتدا سے انتہا تک، وصل سے فراق تک ، ہر کہیں سائنس ہی کارفرما ہے ۔ تو آئیے پہلی نظر کی محبت "Love at first sight"سے آغاز کرتے ہیں ۔ میں ایک انتہائی خوبصورت خاتون کو دیکھتا ہوں ، جو میرے چودہ طبق روشن (یا اندھیر ) کر جاتی ہے ۔ ذرا غور تو کیجیے کہ اسے دیکھنے کا عمل ہے کیا اور اس دوران میرے اندر کون سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ۔ روشنی محبوب کے رخسار کو چھو کے پلٹتی او رمیری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے ۔ آنکھ کے خلیات انتہائی مہارت کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ اس کی تصاویر ، اس کے رخسار کے دلکش گڑھے (Dimple)کا نقش آنکھ کے پیچھے موجود باریک تاروں (nerves)کے ذریعے بجلی کی صورت میں دماغ تک پہنچاتے ہیں ۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں دماغ اس تمام ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا اور یکایک یہ اعلان کر دیتاہے کہ یہی وہ صورت تھی، بچپن سے( پچپن تک) جس کا مجھے انتظار تھا۔ اس کے ساتھ ہی دماغ میں مخصوص قسم کے کیمیکل خارج ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ یوں میں لطیف کیفیات سے گزرتا اور بار بار اسے دیکھنے کی آرزو کرتا ہوں ۔کیا یہ سائنس نہیں ؟
محبوب کا ہاتھ تھامنے سے لے کر وصل کے تمام تر مراحل سو فیصد سائنسی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ۔ آپ کے پورے جسم میں موجود باریک ترین تاریں اس لمس کا احساس ریڑھ کی ہڈی تک کرنٹ کی صورت میں بھجواتی ہیں ۔ وہاں سے وہ برق رفتاری سے دماغ تک جاتاہے ۔ دماغ کا درمیان کا حصہ لمبک سسٹم ، اس دوران مصروفِ عمل ہوتاہے ۔ یہاں مختلف حصے، جن کے خشک سائنسی ناموں سے میں آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا ، اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر جلد سے دماغ تک ڈیٹا منتقل کرنے کے اس عمل میں خرابی پیدا ہو تو پھر آپ کو کترینہ کیف اور ملک اسحٰق کے ہاتھ کا لمس ایک جیسا محسوس ہوگا۔ ہو سکتاہے ، محسوس ہی نہ ہو ۔ 
تین قسم کے کیمیکل ، ڈوپا مائن، سیروٹونن اور آکسی ٹاکسن ، وصل کے مختلف مراحل کے دوران خارج ہو تے ہیں ۔ جب آپ اپنی اولاد کو دیکھ کر مسرّت محسوس کرتے ہیں ، اس وقت بھی یہی کیمیکل اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔بچّے کو دودھ پلاتے ہوئے، یہی کیمیکل خارج ہوتے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ میاں بیوی جب ایک دوسرے اور اپنی اولاد کی محبت میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں تو آکسی ٹاکسن خارج ہو رہا ہوتاہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہوتاہے ،جس تک رسائی کے خواہشمند شاعر حضرات اپنے کلام میں زمین و آسمان ایک کر رہے ہوتے ہیں ۔ 
یہ کیمیکل صرف وصل تک محدود نہیں ۔ مسرت کے تمام مواقع پر وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر آپ تیراکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو اس دوران بھی کسی نہ کسی صورت اور شدّت میں یہی کچھ ہوتاہے ۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر دوستوں سے گفتگو میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، تب بھی ۔ آکسی ٹاکسن کے بارے میں خاص طور پر کہا جاتاہے کہ مرد حضرات میں وہ اپنی اولاد کو دیکھ کر خارج ہوتاہے ۔ اسی کیمیکل کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ محبت کی اس کیفیت میں گلے گلے ڈوب جانے پر خارج ہوتاہے ، جسے سائنسی زبان میں Bondingکہاجاتاہے ۔اس کے بعد اگر آپ کو اپنی بیوی سے محبت نہیں بھی ہوگی تو اپنی اولاد کی خاطر آپ اس کے ناز نخرے اٹھائیں گے ۔ اسی لیے جبلّی طور پر خواتین اولاد کی پیدائش کے بعد خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں ۔ 
یہ کیمیکلز مصنوعی طور پر ، ادویات کے استعمال سے بھی متحرک کیے جاتے ہیں ۔ نشہ آور ادویات انہی کو بیدا رکرتی ہیں ۔ یہ عمل اس قدر لذت آمیز ہوتاہے کہ آدمی ان کا عادی (Addict)ہو جاتا اور پھر عمر بھرکے لیے ان میں ملوّث ہوجاتاہے ۔ سخت قوّتِ ارادی اور عزم کے بغیر ان سے باہر نکلنا انتہائی مشکل ہے ۔ Addictionبہت سی چیزوں کی ہو سکتی ہے ۔ مثلاًپنجاب کے حکمران سریا استعمال کرنے کی Addictionمیں مبتلا ہیں ۔ اللہ انہیں شفا دے ۔
زندگی کچھ ہے، نظر کچھ اور آتی ہے ۔ انہی سو فیصد سائنسی مظاہر کو خد ا ایسے سادہ الفاظ میں بیان کرتاہے ، جو صرف اسے ہی زیبا ہے اور کوئی اور جس کی جرأت نہیں کر سکتا۔ فرمایا:لوگوں کے لیے سجادی گئی ان چیزوں کی محبت: عورتیں او ربیٹے اور سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان زدہ گھوڑے اور چار ٹانگوں والے جانور اور کھیتی ۔ یہ تو دنیا کی پونجی ہے اور اچھا ٹھکانا اللہ کے پاس ہے ۔ سورۃ آل عمران 14۔ 
یہ ہے زندگی ۔ یہ ہے وہ طریقِ کار ، جس سے انسان جبلّتوں کا غلام رہتاہے ۔ جب تک آپ اس سارے کھیل کو سمجھ نہیں لیتے اور جب تک اللہ کو مدد کے لیے نہیں پکارتے ، تب تک آپ اپنے نفس اور شیطان کی مٹھی میں ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved