انسان بنیادی طور پرنعمتوں کا طلب گار ہے اور دنیا کے سرمایے ،جاگیرداری اور وجاہت کو پسند کرتا ہے۔ اسی طرح انسان حسن پرست اور اپنی خواہشات کی تکمیل کا متمنی بھی ہے ۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ انسان کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ عجلت پسند ہے ۔ انسان کی عجلت پسندی اس کو منفی راستوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ وہ اپنی تشنہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستے کو اختیار کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے ۔ وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ نعمتوں کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا کچھ غلط نہیں لیکن جدوجہد کے طریقے صرف اور صرف جائز ہی ہونے چاہئیں۔
اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنائت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے وحی کا نزول فرمایا اور اس وحی کی وضاحت کے لیے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید ہے اور اس کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ قرآن وسنت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کا بیان صرف اسی لیے کیا گیا ہے کہ انسان منفی راستوں پر چلنے کی بجائے مثبت طریقے سے اپنی خواہشات اور تمناؤں کی تکمیل کرے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ میں آخرت کی اچھائیوں کو طلب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی اچھائیوں کو طلب کرنے کی بھی رغبت دلائی ہے ۔ دنیا میں حلال مال کمانے اور رزق کی جستجوکرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں رہبانیت کا قائل نہیں ا ور جائز طریقے سے دنیا کمانے کی مکمل اجازت دیتا ہے لیکن خواہشات سے اس حد تک مغلوب نہیں ہو جانا چاہیے کہ انسان حق وباطل کا فرق کرنے، اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے اور حلال وحرام میں امتیاز کرنے کے قابل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ جاثیہ میں ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنامعبود بنا لیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ النازعات میں بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے پروردگار کے مقام سے ڈرگیا اور اس نے اپنی خواہش کو دبا لیا تواسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہے۔
انسان دنیا کی زندگی میں کئی مرتبہ اس حد تک الجھ جاتا ہے کہ وہ اسی زندگی کے مادی عروج کو حقیقی کامیابی سے تعبیر کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ موت کے بعد والی زندگی اس کی نظروں میںبالکل ہیچ ہو جاتی ہے۔حالانکہ اس دنیا کی زندگی کا عروج صرف چند روزہ ہے اور اس کے بعد انسان کو اپنے پروردگار کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
انسان کئی مرتبہ دنیا میں سرکش اور نافرمان لوگوں کے عروج کو دیکھ کر مرعوب ہو جاتا ہے۔ اسے کو ان نافرمانوں کی دنیاوی زندگی دھوکے اور فریب میں مبتلا کردیتی ہے۔ وہ اس حقیقت کو پہچاننے سے قاصر ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیک وقت انسانوں کے مختلف گروہوں کو نعمتوں کی فراوانی اورپریشانیوں میں مبتلا کر کے آزما رہے ہوتے ہیں۔
عام طور پر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ، اقتدار ،جاگیریا دنیا کا سازوسامان موجود ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہے ۔ حالانکہ یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ہر صاحب اقتدار ،صاحب سرمایہ اور صاحب جاگیر سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے تابعداربندے بھی حکمران رہے اور یہاںاس کے نافرمانوں نے بھی حکومت کی ۔ چنانچہ اسی زمین پر حضرت یوسف،حضرت طالوت، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ،حضرت ذوالقرنین علیہم السلام اور خلفاء راشدین نے بھی حکومت کی اور اس زمین پر فرعون اور نمرود جیسے لوگ بھی حکمران رہے ۔ انسان کو مادی عروج کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے اس حقیقت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات بے مثال ہیںجس طرح اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں، اسی طرح اس کے اسمائے صفات میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ جہاں بے پناہ رحمت ،مغفرت اور کرم فرمانے والا ہے وہیں پر اس کی گرفت اور پکڑ بھی انتہائی شدید ہے ۔ جب اس کی پکڑ آتی ہے تو بڑے سے بڑا طاقتور مجرم بھی اس کے عذاب اور گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ فرعون اور نمرود اپنی دانست میں زمین پر ہمیشہ کی حکمرانی کے منصوبے تیار کر رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے آناً فاناً ان کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح قارون کو اپنے سرمایے، شداد کو اپنی جاگیر ، ہامان کو اپنے منصب اور ابولہب کو اپنی خاندانی وجاہت پر ناز تھا۔ وہ دنیا کی چند روزہ زندگانی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کا شکرادا کرنے کی بجائے سرکشی کے راستے پر چل نکلے۔یہ نافرمان اور نا عاقبت اندیش لوگ ا س بات کو کل طور پر فراموش کر بیٹھے کہ یہ سارا مادی عروج جس خالق ومالک نے عطا کیا ہے وہ ان کو چھیننے پر بھی قادر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کج روی، سرکشی اور تکبر کے باوجود ان کو ایک عرصے تک ڈھیل دیے رکھی اور اس کے بعد یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا نشانہ بنے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں ان کو بدترین انجام تک پہنچاکرانہیں آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا ۔
یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بے پایاں، اس کا فضل بے مثال ، اس کے نعمتیں ان گنت اور اس کی رحمتیں بے حساب ہیں ۔ لیکن اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی گرفت انتہائی شدید اور عذاب انتہائی دردناک ہے ۔ نہ تو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کے عذاب سے بے نیاز ہونا چاہیے اور ہر آن ، ہر لمحہ اس کی تابعداری اور بندگی کی شاہراہ پر چلتے رہنا چاہیے۔ جو لوگ اس کی بندگی کو اختیار کرتے ہیں وہ جہاں اخروی کامیابی اور نجات کے حقدار ٹھہرتے ہیں وہیں پر اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں سکون اور راحت بھی عطا فرما دیتا ہے۔ یہ انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ دنیا کی عارضی اور چند روزہ زندگی میں ملنے والے مادی عروج سے کچھ زیادہ ہی متعصب ہوجاتا ہے اور ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ان مادی نعمتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتا رہتاہے اور اس کوشش کے دوران بہت سے لوگوں کی حق تلفی کا بھی مرتکب ہوجاتا ہے ۔ فطری طور پر عجلت پسند ہونے کی وجہ سے وہ اشیاء کی حقیقت اور اعمال کے انجام کوپہچاننے سے بھی قاصرہوجاتا ہے ۔ اس کو ہر چمکتی ہوئی چیز سونا محسوس ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس سونے کو فوراً اپنی تجوری میں جمع کر لیا جائے اور کئی مرتبہ اس جمع کرنے کے دوران اس کو زبردست ٹھوکر لگتی ہے اور وہ کئی مرتبہ ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر انسان اس فکری پراگندگی اور ذہنی الجھاؤ سے کیونکر نجات حاصل کر سکتا ہے؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو اس فکری کج روی اور ذہنی خلفشار سے نجات حاصل کرنے کے لیے تین ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔ پہلا ذریعہ یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرے تاکہ مادی عروج وزوال کی حقیقت کو صحیح طریقے سے سمجھ سکے۔ دوسرا اور اہم ذریعہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ اختیار کرے تاکہ منکرات اور گناہوں کے ارتکاب اور حرام کاری اور نافرمانی والے کاموں سے دور رہ سکے اور تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی رضا پر صابر اور شاکر ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں پر نعمتوں میں اضافہ فرماتے ہیں، وہیں پر انسان بہت تھوڑے رزق میں بھی بہت زیادہ برکات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اگر انسان صبر کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے تو کروڑوں اور اربوں کے سرمایے کے باوجود بھی اس کا من سیراب نہیں ہو سکتا۔ حقیقی کامیابی علم ، تقویٰ اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے میں ہے۔ اگر انسان ان ذرائع کو اختیار کر لے تو مادہ پرستی اور اس کے اثرات بد سے نجات حاصل کرکے دنیا میں خوشگوار زندگی گزار کے آخرت کی سربلندیوں کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں مادہ پرستی سے نجات حاصل کرکے اپنی بندگی والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔