تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-07-2015

کب تک حضور‘ کب تک؟

ہر بار نعروں اور وعدوں سے ہم نے فریب کھایا ہے۔ ہر بار ہیجان میں ہم نے فیصلے کیے۔ کیوں نہ اب کی بار کچھ زیادہ سوچ بچار کی جائے۔ شاعر کی کیوں نہ سنی جائے؟
تبدیلی تو جب آئے گی تب آئے گی۔ کیا اس کی تیاری بھی نہ کی جائے؟ الیکشن 2013ء سے فوراً قبل‘ نون لیگ کے حق میں پلڑا اچانک جھکا۔ اکثریت کو احساس ہوا کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں‘ جو ٹکٹوں کی تقسیم اور عہدیداروں کے انتخاب تک میں غیر ذمہ داری کی مرتکب ہے‘ تجربہ کار لوگوں کو اختیار کیا جائے۔ عمران خان مقبول تھے‘ مگر حکمت عملی نہ بنا سکے۔ قومی تقاضوں کا مگر ادراک نہ کر سکے۔ خطرے کی بو پا کر میاں صاحب نے تدابیر اختیار کیں۔ سروے کرائے‘ ان سب لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا‘ الیکشن جیتنے میں جو مددگار ہوتے۔ میڈیا کو ہموار کیا اور جیت گئے۔ اعلان یہ کیا کہ لائحہ عمل وہ بنا چکے۔ حکومت سنبھالتے ہی سوئے منزل سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ 
دعوے ہی دعوے تھے‘ حصول اقتدار کی حکمت عملی کا حصہ۔ اگر اللہ پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوتا۔ اگر احساسِ کارفرما ہوتا کہ عزت وعدے کی پاسداری میں ہوتی ہے۔ مسائل کی فہرست بنا کر‘ چند ہفتے بھی اگر منصوبہ بندی کی ہوتی۔ عوام کو اعتماد میں لیا ہوتا۔ صاف صاف بتا دیا ہوتا کہ پیچیدگیاں کیا ہیں‘ کون سا مسئلہ کس تدریج کے ساتھ حل ہو گا؟ 
''ہوسِ اقتدار‘‘ اگر ناموزوں ہے تو کم از کم یہ کہ وہ احساسِ عدمِ تحفظ کا شکار تھے۔ مدتوں قوم سے خطاب نہ کر سکے۔ بات کیا کرتے‘ بوکھلائے ہوئے تھے۔ چہرے سے مسکراہٹ غائب‘ دل و دماغ یکسوئی سے محروم۔ وہی نعرے اور وہی دعوے‘ وقت حاصل کرنے کی وہی حکمت عملی‘ پنجابی میں کہتے ہیں ''ڈنگ ٹپائو‘‘۔ آج 
کا دن کسی طرح بیت جائے‘ کل کا اللہ مالک ہے۔ جس لیڈر کا کوئی کردار اور ضمیر ہو‘ جو عوام‘ تاریخ اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کا آرزومند ہو‘ کیا اس کا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے؟ ترجیح یہ تھی کہ اپنا اقتدار کیسے مستحکم کیا جائے۔ مخالفین کو کمزور کیسے کیا جائے۔ اپنے کاروبار کو فروغ کیسے دیا جائے۔ سب سے بڑھ کر اپنی انا کو گنے کا رس پلایا جائے۔ ذاتی ترجیحات کو آسودہ کیا جائے۔ بھارتی لیڈروں اور صنعت کاروں کے ساتھ دوستی کا خواب شتابی سے پورا ہو۔ حامد کرزئی کو شاد کیا جائے کہ پاک فوج کے مخالف ہیں۔ بائیں بازو کے ان لوگوں کو مناصب سونپے جائیں‘ جو شریف خاندان کے لائحہ عمل سے متفق ہیں۔ یہ نہیں کہ بدعنوانی میں کمی کیسے ہی ہو بلکہ یہ کہ زرداری صاحب کو مطمئن کیسے رکھا جائے۔ بڑے فریق کے خلاف تائید میسر آتی رہے۔ ان صاحب کا نام اب میں بھولتا ہوں‘ جسے انہوں نے برطانیہ میں سفیر بنانا چاہا۔ واحد وصف یہ تھا کہ ہمیشہ فوج میں کیڑے ڈالا کرتا۔ 
عسکری قیادت خدمت میں پہنچی کہ وزیرستان میں کارروائی کا بہترین وقت یہی ہے۔ فرمایا: بالکل نہیں‘ میں تو ان سے بات کروں گا۔ انہوں نے کہا: جی بہت اچھا لیکن گزارش ہے کہ چند چیزوں کا خیال رکھا جائے تو یہ ملک کے مفاد میں ہو گا۔ معاملہ مولوی صاحبان کے سپرد نہ کر دیجیے گا جو حل کا نہیں‘ مسئلے کا حصہ ہیں۔ بات چیت آئین کی حدود کے اندر ہو‘ لامحدود مدت کے لیے نہیں بلکہ وقت مقرر ہو۔ فوراً ہی میاں صاحب نے طے کر لیا کہ وہ ان تینوں تجاویز کے برعکس طریق اختیار کریں گے۔ عسکری قیادت کو بتائیں گے کہ طاقت ان کی ہے۔ اپنی مرضی سے وہ استعمال کریں گے۔ 
نتیجہ کیا نکلا؟ اپنی پسند کا سپہ سالار مقرر کرنے کے باوجود نتیجہ کیا نکلا؟ فوجیوں کی تربیت مختلف خطوط پر ہوتی ہے۔ نیا فوجی لیڈر کچھ کر دکھانے کا آرزومند تھا۔ چند ایک کا اندازِ فکر اگرچہ غلط تھا‘ بحیثیت مجموعی عسکری قیادت مارشل لاء کے تصور سے بیزار تھی۔ بہترین سول فوجی تعلقات کے لیے یہ مثالی وقت تھا۔ میاں صاحب نے مگر پرویز رشید ایسوں کے مشورے مانے۔ فوج اپنی حکمت عملی بنا چکی تھی۔ کئی سال اس نے صرف کیے تھے۔ مارشل لاء نہیں لگے گا۔ براہ راست مداخلت تو نہ ہو گی مگر قومی ایجنڈا‘ قومی مفاد کے مطابق ہو گا۔ آنکھیں بند کر کے بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ نہ کیا جائے گا۔ حامد کرزئی جیسوں کو مواقع عطا نہ کیے جائیں گے۔ پاکستان کا دفاع خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا۔ 
عسکری قیادت کے مقابل‘ وزیر اعظم آج کہاں کھڑے ہیں؟ جنرل راحیل شریف ایک ہیرو ہیں اور وہ ایک متنازعہ لیڈر۔ زرداری صاحب کے ساتھ سازباز اور عمران خان کی غلطیوں کے طفیل تین سال جو اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ حرفِ تحسین کسی زبان پر نہیں‘ دعا کسی دل سے نہیں نکلتی۔ کوئی کامیابی نہیں۔ کامیابی کیا راہِ عمل ہی نہیں۔ منزل معلوم ہے اور نہ راستہ۔ وہی دکھاوے کے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے‘ وہی اپنی اولاد اور کاروبار کو فروغ دینے کی جستجو۔ وہی شعبدہ بازی چنانچہ نتیجہ بھی وہی۔ مسائل بھی وہی‘ قوم کا اضطراب بھی وہی۔ 
کب تک انہیں مہلت ملے گی... زیادہ ملی تو ظاہر ہے کہ ردّعمل بھی شدید ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ وہی زرداری صاحب کا سا انجام ہو۔ عمران خان کی ناکامی جب اظہر من الشمس ہوئی‘ فعال طبقات کو جب پورا یقین ہو گیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں تو متبادل سیاسی قوت ابھر آئے گی۔ نئی پارٹی کچھ زیادہ نہ کر سکی۔ صرف حماقت سے گریز کیا تو متبادل بن جائے گی۔ عام آدمی اپنے انداز میں سوچتا ہے۔ ان دانشوروں کی وہ بالکل نہیں سنے گا‘ رٹے رٹائے سبق جو دہرایا کرتے ہیں۔ جن کی عقلیں چھوٹی اور زبانیں لمبی ہیں۔ جو اپنے مفادات کے بندے ہیں یا اپنے تعصبات کے۔ مغرب سے مرعوب‘ ہاری ہوئی ہمتوں کے لوگ۔ 
سیاست بدل گئی ہے اور اس کے تقاضے بھی۔ نواز شریف کم از کم اپنی ہی پارٹی کے خیرخواہوں کی‘ احترام سے اختلاف کرنے والوں کی سنیں۔ قوم کو فریب دینا اب مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ قصیدہ خوانوں کی بات کوئی نہ سنے گا اور انجام وہی ہو گا جو ماضی کے فریب کاروں کا ہوتا رہا۔ تاریخ کے کوڑے دان میں وہ ڈال دیئے جائیں گے اور آنسو بہانے والا کوئی نہ ہو گا۔ نئی قیادت اگر نہ بھی ابھرے‘ عمران خان بھی اپنی اصلاح نہ کریں تو کسی طرف سے مداخلت ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مکمل طور پر مایوس ہو کر لوگ انتخاب کے بائیکاٹ کا نسخہ اپنائیں۔ پولنگ کے دن 80 فیصد رائے دہندگان گھروں میں بند ہو کر بیٹھ گئے تو حکمران کیا کریں گے؟ انسانی تقدیروں کے فیصلے زمین نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اس کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ اس کا فرمان یہ ہے کہ اس کی مخلوق اس کا کنبہ ہے۔ ہر ایک کی مہلت مقرر ہے۔ جب وہ فیصلہ فرما لے تو نافذ ہو کر رہتا ہے۔ طوفان اٹھتے ہیں تو تنکے ان کی راہ نہیں روک سکتے۔ تاریخ حکمرانوں کے عزائم کا قبرستان ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹتی ہے۔ افسوس کہ کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ 
حیرت ہے کہ نون لیگ کے لیڈر اور دانشور عمران خان کی ناکامی کا جشن منا رہے ہیں۔ دوسروں کی ناکامی پر نہیں‘ زندگی اپنی کامیابی پر بسر کرنی چاہیے۔ جی ہاں یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان اور اس کے ساتھی ناکردہ کار ہیں‘ نالائق ہیں مگر اس سے آپ کی لیاقت کیونکر ثابت ہوئی۔ آپ دہشت گردی پر کوئی لائحہ عمل بنا سکے‘ کراچی اور نہ بلوچستان پر۔ بجلی اور گیس پر‘ مہنگائی اور نہ بے روزگاری پر۔ آپ کے دامن میں وعدوں کے سوا کیا ہے۔ آپ پر کیوں اعتبار کیا جائے۔ چھ بار پنجاب اور تین بار مرکز میں آپ کو حکومت ملی۔ ہر بار بہانے‘ ہر بار تاویلات۔ کب تک حضور‘ کب تک؟ 
ہر بار نعروں اور وعدوں سے ہم نے فریب کھایا ہے۔ ہر بار ہیجان میں ہم نے فیصلے کیے۔ کیوں نہ اب کی بار کچھ زیادہ سوچ بچار کی جائے۔ شاعر کی کیوں نہ سنی جائے؟
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی 
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved