پیسے مانگنے ہوں تو پاکستان ہمیشہ چین یا سعودی عرب کا رخ کرتا ہے۔ زرداری صاحب جب صدر تھے تو انہوں نے بھی چین کے متعدد دورے کئے تھے۔ اس کے لئے بہانہ وہ یہ پیش کرتے تھے کہ وہ چینیوں سے کچھ سیکھنے وہاں جاتے ہیں۔ تو کیا انہوں نے واقعی ان سے کچھ سیکھا؟ اگر ایسا ہے تو انہیں بتانا چاہئے کہ آخر ریاستی خرچ پر ہونے والے ان دوروں میں انہوں نے کیا کچھ 'سیکھ‘ لیا ہے؟ ان دوروں میں توعیاشیوں کے لئے جانے والے مفت خوروں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی۔ ان کے بعد 2013ء میں جب نواز شریف صاحب وزارت عظمیٰ پر متمکن ہوئے تو اپنے اولین بیرونی دور ے کے لئے ان کی نظر انتخاب بھی چین ہی پہ ٹھہری تھی۔ اس سے انہیں محض اس امر کا اظہار مقصود تھاکہ چین کے ساتھ ہماری دوستی'' ہمالیہ سے بلندتر، شہد سے شیریں تر، سمندروں سے زیادہ گہری اور سٹیل سے زیادہ مضبوط ہے‘‘۔ امسال جب چینی صدر پاکستان کے دورے پر آئے تو جواباً انہوں نے بھی ایسے ہی شاندار جذبات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں ان کی آمد سے قبل یہاں کے اخباروں میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ '' یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا میں اپنے سگے بھائی کے گھر جا رہا ہوں‘‘۔ اپنی اس تحریر کے ذریعے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان کسی'' گھنے اونچے پیڑ کی مانند پروان چڑھنے والے مضبوط تعلقات‘‘ کو ایک نیا استعارہ بخش دیا۔ اس سے ہمیں ایک انگریزی نظم کی وہ سطر یا د آگئی کہ"Sugar and spice and all things nice,
That's what little girls are made of"
کیا یہی سطور پاک چین تعلقات پر بھی صادق نہیں ٹھہرتی ہیں؟ اس دورے کے بارے میں امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ لکھا کہ '' خجل کر دینے والی اس قسم کی جذباتی باتوں کو آسانی سے وہ دکھاوا سمجھا جا سکتا ہے جو سفارتی تعلقات کی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ چین اور پاکستان میں صرف سرحد ہی مشترک ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی روابط نہایت بود ے ہیں۔‘‘ امریکی میڈیا کی جانب سے ہونے والے اس قسم کے تبصروں کو '' حسد و رشک ‘‘ سمجھ کر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ چینی صدر خالی ہاتھ نہیں آئے بلکہ چھیا لیس بلین ڈالرز کی لاگت کے ''حقیقی تحائف‘‘بھی ساتھ لے کر آئے۔ پاکستان کی گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے توانائی کی پیداوار اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر کے شعبوں میں چھیالیس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ کوئلے اور جوہری توانائی سے متعلقہ منصوبوںکے ذریعے دس ہزار چار سو میگا واٹ کی مقدار میں اضافی بجلی کی پیداوار بھی اسی میں شامل ہے۔ناقدین کے مطابق پاکستان اور چین کے مابین دوستی اور محبت کے جذبات کی اس ظاہری مٹھاس کے پیچھے یہ تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے کہ یہ تعلق ہم سر اقوام کا نہیں ہے۔پاکستان ایک ایساچھوٹا ملک ہے جسے چین محض برداشت کرتا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ چھیالیس بلین ڈالر کا یہ پیکج عملی صورت اختیارکرے گا یا نہیں، یا پھرہمارے مالی معاونین کے طور پر صرف سعودی ہی ہماری حکومت کے کشکول میں خیرات کے ٹکڑے ڈالتے رہیں گے!
یہاں امریکہ میں سیاستدانوں کا ایک مستقل شکوہ یہ ہے کہ چین امریکہ پہ غالب ہو گیا ہے۔اس کے لئے الزام وہ صدر اوبامہ کو دیتے ہیں۔ ماضی میں جب امریکہ والے چائنہ سینڈروم جیسی سائنس فکشن طرز کی فلمیں بنا رہے تھے تو کرئہ ارض پر امریکی تسلط کا تصور ہمارے لئے ہیجان خیز ہوا کرتا تھا۔ یہ سبھی کا آقا تھا اور جب اس کی مرضی ہوتی تو کسی کا بھی مذاق اڑا سکتا تھا۔ کون جانتا تھا کہ انتقام کے طور پر ایک دن چین بڑے بڑے امریکی شاپنگ مالوں پردھاوا بول دے گا اور اپنی مصنوعات کے استعمال کے متعلق ہدایات سے امریکیوں کو چکرا کر رکھ دے گا۔ یہ کس قدر انوکھا انتقام ہے۔ بیچارے امریکی بچے تک اس کاشکار ہو چکے ہیں۔ ایک سات سالہ بچہ لیگو سے ٹرک بنانے بیٹھے گا اور ماں کو پکارنے لگے گا کہ یہ ٹکڑا کہاں جمے گا؟ بیچاری ماں بھی اپنی چھٹی کا لطف اٹھانے کی بجائے اسی پہیلی کو بوجھنے میں مصروف ہو جاتی ہے لیکن افسوس کہ قسمت اس کا بھی ساتھ نہیں دیتی! اور تب تک پھر بچہ بھی اس کھیل میں اپنی دلچسپی کھو چکا ہوتا ہے۔کبھی کبھی ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ امریکی خلال کی تیلیوں سے لے کر سمارٹ فونوں تک ان تمام مصنوعات کو کس طرح جھیلتے ہیں جن پر بڑے فخر سے '' میڈ اِن چائنہ ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ دراصل امریکی چیزیں بنانا پسند نہیں کرتے۔ انہیں صرف بیچنا پسند ہے، یا پھر بکوانا! یعنی امریکہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوںکے اس سیلز مین کی طرح ہے جو غیر معیاری چیزیںہی ہمیں بیچتا ہے۔
ہم نے ایک دفعہ کم قیمت پر ایک میز خریدی تھی۔ کافی مشکلوں سے بڑے بڑے ڈبوں کوسیڑھیوں سے چڑھاکر ہم اپنے اپارٹمنٹ تک لائے۔ پھر میز بنانے کے لئے اس کے ٹکڑوں کو ہم نے جوڑنا شروع کیا۔ جو تحریری ہدایات اس کے ساتھ دی گئی تھیں انہوں نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے سامنے جو نٹ بولٹ اور پیچ پڑ ے تھے وہ کسی طور اس کاغذ پر دی گئی تصاویرکے مطابق فٹ نہیں ہو رہے تھے۔ اس میز کو جوڑنے میں ہمیں کئی دن لگ گئے۔ اور آخر کار جب جڑ کر کھڑی ہو گئی تو ہمیں سکاچ ٹیپ کا ایک ٹکڑااس پہ چپکا ہوادکھائی دیا۔ بے خیالی میں ہم نے اسے کھینچا تو اس کے ساتھ ہی میز کی سطح سے کاغذکی ایک تہہ بھی اترگئی اورکارڈ بورڈ کا ایک پیوند میز پر نظر آنے لگا۔ خود کو ہم نے یہی کہا کہ یہ ہمیں سستی خریداری کی سزا ملی ہے!
فرنیچر، برقی مصنوعات، کھلونوں اور کپڑوں یعنی جو کچھ بھی امریکیوں کے پاس ہے، ان سب چیزوں پر کنٹرول چین کا ہے، اور اب تو دنیا کی غذائی پیداوار پر بھی چین قبضے کی سوچ رہا ہے۔ فرٹیلائزرز کے کاروبار میں تو وہ پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اپنی روزمرہ کی خوراک پر بھی چینیوں کے قبضے کا تصور امریکیوںکے لئے پریشان کن ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا میں نایاب زمینی دھاتوں اور معدنیات کی سپلائی ستانوے فی صد چین سے ہوتی ہے۔ یہ معدنیات اور دھاتیں فوجی سازو سامان سمیت اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری میں ایک بنیادی کردار رکھتی ہیں۔
چین کے اقتصادی انقلاب کے مرکزی خالق ڈینگ جیاؤ پینگ نے تو 1992ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ میں تیل ہے تو چین میں نایاب امریکی دھاتیں ہیں۔
چندسال پہلے ہم فلوریڈا میں کیپ کانورال گئے تھے تاکہ وہ جگہ دیکھ سکیںجہاں سے 20جولائی1969ء کو امریکہ نے پہلی بار چاند پر انسانوں کو بھیجا تھا۔ ہم نے ناسا کے کمپیوٹرزبھی دیکھے۔ یہ بڑی بڑی بے ڈھنگی سی مشینیں تھیں۔ اپالو11 کی ساری پرواز یعنی شروع سے لے کر چاند پر اترنے اور پھر زمین پہ واپسی تک انہی کے ذریعے کنٹرول کی گئی تھی۔ ہم نے کینیڈی سپیس سینٹرسے اپالو11 کی پرواز کی ریکارڈنگ بھی دیکھی اورنیل آرمسٹرانگ کے وہ مشہورالفاظ بھی سنے کہ ایک انسان کا یہ چھوٹا ساقدم بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت بڑی جست ہے! اس روز وہاںہزاروں لوگ آئے تھے لیکن دواقوام نمایاں تھیں۔۔۔۔۔ چینی اور بھارتی جواپنے بچوں سمیت وہاں موجودتھے۔ اگلے چند برسوں میںیہی بچے دنیا کی قیادت کر رہے ہوںگے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ چین اور بھارت ہی اگلی دو سپر پاورز ہیں۔
پانچ سال قبل کی بات ہے کہ کراچی میںرہنے والے اسدوائیں جن کی عمر اس وقت تیئس برس تھی ، چین سے واپس لوٹے تھے اور ہمیں بتا رہے تھے کہ مشرقی ایشیا ہم سے سو سال آگے ہے، بھارت ہم سے تیس برس آگے ہے اورمغرب والے تو مزید ایک دو صدیاں آگے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان سے غلطی کہاں اور کیوں ہوئی؟ یہ ایک بہت گھسا پٹا سوال ہے جوہم لکھنے والے عموماً اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ سیاستدانوں سے پوچھتے رہتے ہیں۔ تاہم ان سے کوئی جواب ہمیں کبھی نہیںملتا!