تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-07-2015

نظریاتی انتہا پسندی کا کیا ہوگا؟

2009ء سے شروع ہونے والے سوات، جنوبی اور اب شمالی وزیرستان آپریشن سمیت، فوج نے قابلِ قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہی نہیں ، کراچی سے بلوچستان تک ، ہر کہیں اس نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی ،اے این پی ، طالبان اور مذہبی فرقہ پرست تنظیموں کے ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو خاک چٹا دی ہے ۔ مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغان سرحد پر بدترین دبائو کا کامیابی سے سامنا کیا ہے ۔ تین بڑے فوج آپریشنوں میں فوجی شہادتوں اور دہشت گرد ہلاکتوں کا موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیزطور پر یہ ایک اور 9.7یعنی قرآنی پیمانے کے عین مطابق تقریباً ایک اور دس کا تناسب ہے۔ سیاسی مداخلت اور وسائل کی کمی کے باوجود پولیس کے وہ جوان بھی ہمارا قابلِ فخر سرمایہ ہیں ، جو اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں ۔ 
حکیم اللہ محسود سے فضل اللہ تک ، دشمن نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔ وہ داڑھی رکھتا ، بظاہر مسلمان نظر آتاہے ۔ اس سب کے باوجود کم از کم فوج کسی کنفیوژن کا شکار نہیں ۔ ثبو ت یہ ہے کہ جنگیں لڑنے والی افواج میں صرف پاکستانی سپاہ ہی صفر شرح خودکشی کی حامل ہے۔ 2012ء میں افغانستان میں خود کشی کرنے والے امریکی اور برطانوی فوجیوں کی تعداد طالبان کے ہاتھوں مرنے والوں سے زیادہ تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والی بھارتی فوج اس قدر احساس جرم کا شکار ہے کہ ہر سال 120جوان خود کشی کر لیتے ہیں ۔ اپنے ساتھیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے اس کے سوا ۔
پاک فوج کی قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم اس کی پشت پر ڈٹ کر کھڑی ہے ۔ عسکری قیادت نے اب دہشت گردوں کے مالی وسائل پر ضرب لگانے کی طرف پیش رفت کی ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا مثبت اقدام ہے ، جو فیصلہ کن ثابت ہو سکتاہے ۔ اس کے باوجود نظریاتی محاذ پر قوم بری طرح کنفیوز ہے ۔ تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائِ اسلام اور بعض دوسری مذہبی جماعتوں نے جب شمالی وزیرستان آپریشن کی سخت مزاحمت کی تو لیگی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ میڈیا میں دہشت گردوں کے ہمدرد اس مہم میں ان کے شانہ بشانہ تھے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کو زخم پہ زخم لگا۔ کچھ دہشت گرد ہمارے اندر موجود ہیں اور ہم میں سے بہت سے انہیں مجاہدین سمجھتے ہیں؛ حالانکہ ریاست نے جہاد کا فرض فوج کو سونپا ہے اور وہی اسے نبھا سکتی ہے ۔ یہ انتہا پسند بظاہر فلاحی سرگرمیوں میں ملوّث رہتے لیکن اندر ہی اندر دہشت گرد ی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں انہیں مدعو کیا جاتا اور یوں نا سمجھ ذہنوں کو متاثر کرنے کا موقع دیا جاتاہے ۔ 
ایک مقبول نقطہ ء نظر یہ ہے کہ امریکہ نے چونکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ؛لہٰذا اب امریکہ مخالف تقاریر کرنے والا ہر شخص (خواہ اس کی اصلیت کچھ بھی ہو ) ہیرو ہے ۔ انکل سام کی مخالفت میں اسے ہر قسم کا جھوٹ بولنے اور جذبات بھڑکانے کی آزادی ہے ۔ انسانیت کے خلاف امریکیوں کے جرائم اپنی جگہ، قرآنِ حکیم کہتاہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کردے ۔ عدل کرو کہ یہ تقویٰ کے قریب ہے ۔ میں ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت بے گناہ افراد کی نہیں تھی؛البتہ قلیل تعدا دمیں معصوم شہری بھی ان کا نشانہ بنے ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ بے پناہ زیادتی کی گئی ۔ انہیں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، ان کے بچّے لا پتہ ہوئے اور 86برس قید کی سزا سنائی گئی ۔ میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔ انہیں پاکستان واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ 9 کروڑ پاکستانی خواتین میں سے امریکیوں نے عافیہ صدیقی کا انتخاب کیوں کیا؟ پسِ پردہ وجوہ کیا تھیں؟ 
بھارتی خفیہ اداروں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں اگر کوئی افسر یہ کہہ دے کہ ممبئی حملے انڈین سرکار نے کرائے تو سرکاری طور پر ہمیں بھارت پر دبائو بڑھانا چاہیے۔ انڈیا پاکستان پر دبائو بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتالیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ خوشی سے ہم بغلیں بجاتے اور ایسے ہی کسی اگلے واقعے کا انتظار کریں ۔ ممبئی حملوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستان کو بے پناہ دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ عفریت پالنے کی پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے ۔ ہمیں اپنے اندر موجود انتہا پسندوں کو ان کی اوقات میں رکھنا ہوگا، جو بظاہر فلاحی سرگرمیوں اور امریکہ مخالف تقاریر کے ذریعے ہیرو بنے بیٹھے ہیں۔ 
انتہا پسندی کا ایک بہت بڑا سبب کچھ مذہبی جماعتوںمیں عدم برداشت کا رویہ اور اس کا پرچار ہے ۔ گزشتہ دنوں عطاء اللہ شاہ بخاری کے بارے میں یہ لکھا گیا ''اپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان وجود میں نہیں آسکتا... شاہ جی ایک سادہ اطوار اور نیک طینت آدمی تھے ۔ اپنے اساتذہ کے اسیر۔ ملی غیرت اور استعمار کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ۔ ان اساتذہ نے قائداعظم کو مسترد کر دیا تھا‘‘ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بحیثیت ِ مجموعی عطاء اللہ شاہ بخاری کا ذکر مثبت الفاظ میں ہے ۔ اس پر بھی سوشل میڈیا پر بعض لوگ بدکلامی کر رہے ہیں۔ ایک مذہبی شخصیت کے پیروکاروں میں عدم برداشت کا یہ روّیہ میرے لیے انتہائی حیران کن ہے ۔ اس لیے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر جب یہ کہتے ہیں کہ چند ماہ قبل ایک دمدار سیارہ زمین سے چند کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا تو ہم استاد کو بتا دیتے ہیں کہ وہ تو چاند سے بھی تین گنا فاصلے پر تھا۔ پروفیسر صاحب نہ صرف اختلافی رائے سنتے بلکہ تصحیح پر شکریہ بھی ادا کرتے ہیں ۔
میڈیا کے با خبر لوگ لقمہ ء تر اور ریٹنگ کی ہوس میں سچ بولنے سے گریزاں ہیں ۔سوشل میڈیا اندھیر نگری بن چکا ۔ یہاں آپ کو انتہا پسندی کا پرچار کرنے کی کھلی آزادی ہے ۔بہت سے اکائونٹ مسلسل جنونیوں کا نقطہ ء نظر پھیلانے میں مصروف ہیں ۔شمالی وزیرستان آپریشن کی مخالفت کرنی ہوتو فلسطین کے شہید بچوں کی تصاویر یہ کہہ کر پھیلائی جاتی ہیں کہ یہ شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں ۔کچّے ذہنوں کے کم عمر افراد بڑے جوش و خروش سے اس عمل میں حصہ لیتے ہیں ۔ اس نظریاتی انتہا پسندی کو کون روکے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved