تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     31-07-2015

اچھے دنوں کی آمد

( آخری قسط)
پاکستان کے حکمران طبقے جدید علوم اور سماجی فلسفوں سے مجرمانہ حد تک لاتعلق رہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں بتدریج کمی آتی رہی۔ اگر آپ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی میں صاحب علم اراکین سے آج کے اراکین قومی اسمبلی کا موازنہ کر کے دیکھیں‘ تو چکرا کے رہ جائیں گے۔ ان اراکین کے مقابلے میں آج کے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کی تعلیمی قابلیت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ وہ اعلیٰ پائے کے تعلیم یافتہ اور اپنے پیشے کے ماہر تھے‘ تو آج کے اراکین قومی اسمبلی ‘ اس دور کی میونسپل کمیٹیوں کے معیار پر بمشکل پورے اترتے ہیں۔ صرف فوج کا ادارہ ایسا ہے‘ جس نے اپنے آپ کو مسلسل جدید علوم اور سماجیات کے فلسفوں سے پوری طرح باخبر رکھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا کہ ہم نے ایٹمی سائنس کے دور میں قدم رکھ کر ‘جدید ترین علوم سے شناسائی حاصل کی اور اگر پاکستانی فوج کے معیار کو دیکھیں‘ تو وہاں ہر لحاظ سے جدیدترین تحقیقات اور علمی نظریات سے ہم آہنگی نظر آئے گی۔ ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔ کیونکہ آپ جب سائنسی علوم میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والے اضافوں سے باخبر نہیں رہتے‘ تو جدید علوم کی روشنی سے استفادہ بھی نہیں کر سکتے۔ جب علم کی روشنی سے استفادہ کرنا آ جائے‘ تو پھر جستجو محدود نہیں رہتی۔ آپ علم کے ہر شعبے میں اسی طرح جدید رجحانات سے آشنا ہوتے چلے جاتے ہیں‘ جیسے کہ اپنے مخصوص علم میں۔ بدنصیبی سے ہمارے اہل سیاست نے علم کی طرف رجوع ہی نہیں کیا۔ وہ آج بھی قدیم دور کی سیاست سے باہر نکل کر دنیا کو نہیں دیکھ سکے۔ ایسا انسانی میٹریل زمانے کے ترقی پذیر رجحانات سے آشنا ہی نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کا جو طبقہ ہمارے حصے میں آیا ‘ اسے انگریز کی کاسہ لیسی کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں تھا۔ اسی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ ٹکر بھارت سے لے کر بیٹھ گئے۔ علوم و تحقیق میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہماری پست معیار کی سیاست‘ دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہی۔ یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایران حتیٰ کہ افغانستان کے اہل سیاست‘ جدید سیاسی نظریات اور ترقی کے دور کا وقوف رکھتے ہیں۔ جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ‘ ایران کے سفارتکاروں اور سیاستدانوں نے مذاکرات کئے‘ اس کا معیار حیرت انگیز حد تک امریکیوں سے بہتر نہیں تو برابر ضرور تھا اور ہمارا یہ حال ہے کہ بھارت کے ساتھ مہینوں مذاکرات میں گزار دیتے ہیں مگر اپنے حق میں کبھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے۔ کیونکہ اہلیت ہی نہیں۔ یہی صورتحال اندرون ملک ہے۔ ہمارے سیاسی مسائل حل کرنے میں سیاستدانوں نے کبھی کامیابی حاصل نہیں کی۔ نوازشریف کے ساتھ صنعتکار طبقہ سیاسی عمل میں شریک ہوا تھا۔عالمی مقابلے کی وجہ سے اہل تجارت کو عالمی منڈیوں اور صنعت و حرفت کے جدید نظریات کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں بھی اللہ کے بندوں نے عالمی منڈی میں مقابلے کی تجارت سے ہمیشہ گریز کیا۔ خود کوئی چیز دریافت یا تخلیق نہیں کی۔ نقل مارتے ہیں اور دکانداری چلاتے ہیں۔ عالمی تجارت میں جاپان‘ جنوبی کوریا اور مشرقی ایشیائی ملکوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ مگر وہ جلد ہی اپنی ایجادات کی طرف متوجہ ہو گئے اور تحقیق و جستجو کے نئے نئے راستے تلاش کرنے کے ساتھ‘ اپنے تعلیمی اداروں کو بھی تعلیم کے جدید معیاروں سے روشناس کرایا۔ آج ان کی اپنی یونیورسٹیاںاعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت فراہم کر رہی ہیں اور وہ ترقی کے راستوں پر تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ علم میں اگر جدید رجحانات آ جائیں‘ تو پھر ترقی اور ارتقاء کا عمل رکنے میںنہیں آتا۔ ہر نیا خیال اپنے ساتھ نئے خیالات لاتا ہے اور ہر نئی ایجاد اپنے جلو میں ان گنت ایجادات کے دروازے کھولتی ہے۔ جب ہم اس راستے پر چلے ہی نہیں‘ تو آگے کیا بڑھیں گے؟ سیاست میں صنعتکاروں کی آمد نے بھی اہل وطن کو مایوس کیا۔ وہ عالمی منڈی میں مقابلے کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے لوٹ مار کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم عالمی منڈی میں جو چیز دس پندرہ روپے میں حاصل کرتے ہیں‘ بھارت چھ سات روپے میں حاصل کر رہا ہے۔ ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ قبائلی معاشروں اور حکومتوں کے ساتھ سخت سودے بازی کر سکیں ۔ ان کے ساتھ ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے اور ہمارے پاس مالکان کے منشی۔ نہ وہ کسی جدید علم سے واقف ہیں‘ نہ سودے کاری کی ٹیکنالوجی سے۔ کچھ صنعت کاروں نے پاکستان میں جدید علوم کی تعلیم دینے والے ادارے قائم کئے۔ ان اداروں کے طلباوطالبات‘ عالمی معیار کو بھی چھونے لگے۔ مگر انہی اداروں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جب پاکستان کے حکومتی اور اہم تجارتی اداروں کا رخ کرتے ہیں‘ تو بہت جلد یا تو ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور وہاں اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق آمدنی اور سماجی رتبہ حاصل کرتے ہیں یا پاکستان ہی میں رہ کر منشی گیری کرنے لگتے ہیں۔ جیسے ہماری خواتین اعلیٰ طبی تعلیم حاصل کر کے معاشرے کو کچھ نہیں دیتیں۔ ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بننے والی بیبیاں اپنا سارا علم اپنے ہی گھر کے بچے پالنے پر صرف کر ڈالتی ہیں۔ میں جب بھی پاکستانی معاشرے کی پسماندگی پر غور کرتا ہوں‘ تو ایک ہی بات سمجھ میںآتی ہے کہ ہم نے قومی سطح پر علوم و فنون کی ترقی کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا اور جس معاشرے کو ہر دور کی نئی نسل تعلیمی قابلیت اور ایجادات سے مالامال نہیں کرتی‘ حالت وہی ہوتی ہے‘ جو ان دنوں ہماری ہے۔ ہمارے سیاستدان قومی مشکلات کا کوئی تخلیقی حل تلاش کرنے میں بری طرح سے ناکام ہیں۔ وہ خود اپنے مسائل بھی نہیں حل کر سکتے۔ مگر ان کی سیاسی محاذآرائی کے حربے یا دائو گھات دیکھیں‘ تو ان کا معیار دیکھ کر شرم آتی ہے۔ بھارت ہی کو دیکھ لیں۔ وہ سائنسی ترقی کے راستے پر چل نکلا ہے۔ اب اس کے آگے بڑھنے کی رفتار‘ ہر گزشتہ سال کی نسبت دوگنا ہوتی جائے گی۔ تہذیبی پس منظر کے اعتبار سے وہ بھی ہماری طرح ہے اور کرپشن میں بھی ہم سے بہت آگے ہے ۔ ان کی معیشت کا سائز چونکہ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے لہٰذا ان کی کرپشن کا سائز بھی اسی تناسب میں ہم سے بہتر ہے۔
سب سے زیادہ ظلم ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ نئی نسل کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ جس شعبے میں بھی آئیں‘ وہاں فیصلہ سازی کا اختیار بابا آدم کے سکولوں میں پڑھے ہوئے بوڑھوں کے پاس ہے۔ ان کے دماغ میں اتھارٹی کا فتور ہوتا ہے۔ ذہنوں میں روشنی کی کرن تک نہیں آتی اور وہ لمز کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تجاویز پر فیصلے سنانے اور مسلط کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کی کوئی نئی تجویز پیش کرنے کی ہر صلاحیت اور تجربہ کرنے کا حوصلہ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور علم و ترقی کے معاملے میں کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ مجھے جہاں تک فوج کے شعبے کا علم ہے‘ وہ ہر معاملے میں سول سوسائٹی کی نسبت زیادہ جدید ‘ زیادہ روشن خیال اور زیادہ نئے علمی نظریات سے استفادہ کرنے کی پوزیشن میںہے۔ مگر یہاں پھر بدنصیبی کہ جب بھی کوئی فوجی حکمران آیا‘ اسے سیاستدانوں کے اسی ردی میٹریل کے ساتھ کام چلانا پڑا۔ وہ اپنے شعبے سے سوچ اور کارکردگی کاجو معیار لے کر آتا ہے‘ وہ اس کی سیاسی میٹنگوں اور انٹرایکشن میں دفن ہو جاتا ہے۔ اس کا اپنا دور اقتدار ایک تھرڈ کلاس زمیندار کی سیاست گری کی نذر ہو جاتا ہے اور وہ اقتدار کی بھوک میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی نیا قدم نہیں اٹھا سکتا۔جس طرح جنرل راحیل شریف نے عوام کا اعتماد بحال کیا ہے‘ وہ چاہیں تو کوئی سیاسی تبدیلی لائے بغیر ‘ قومی اور ملکی اداروں کو کام کاج اور سوجھ بوجھ کے نئے طور اطوار سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے فوراً ہی بعد ہم میڈیا والے شور مچانا شروع کر دیں گے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ جو شریف آدمی اقتدار کی گندگی سے دامن بچانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے‘ وہ آگے بڑھ کر کوئی پہل نہیں کرتا بلکہ اپنی عزت بچانے کے لئے مکھی پر مکھی مارنے کی رائج الوقت راہوں پر چل نکلتا ہے۔ لیکن عالمی برادری میں تبدیلی کے بڑھتے ہوئے طوفان ‘ ہمیں الگ تھلگ نہیں رہنے دیں گے۔ ہمیں وقت کا ساتھ دے کر تبدیلی کے راستے پر چلنا ہو گا۔ چلنا کیا؟ دوڑنا ہو گا۔ ہم ایسا نہیں کریں گے‘ تو کہیں کے نہ رہیں گے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ سیاسی قیادت میں نوازشریف ‘ جدیدعلوم سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں تو رجحان ضروررکھتے ہیں۔ وقت نے انہیں تین سال اعتماد اور طاقت کے ساتھ کام کرنے کی مہلت دی ہے۔ اگر وہ چاہیں‘ تو بے مقصد لڑائیوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے‘ ملک کو علم و تحقیق کے جدید راستوں پر ڈال کر‘ انتظامیہ کا قبلہ بدلنے کی کوشش کریں‘ تو کامیابی کے امکانات واضح ہیں۔ اگر انہوں نے یہ راستہ اختیار کر لیا‘ تو سودے بازیوں میں مفادات حاصل کرنا‘ انہیں ہمیشہ خسارے کا سودا نظر آئے گا۔ جدید اور تخلیقی پالیسیاں اختیار کر کے وہ ملک کو بھی بے پناہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور اپنے کاروبار کو بھی روشن خیالی کی طاقت سے زیادہ ترقی دے سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved