میں یہ عبارت کبھی نہ لکھتا۔ دوستوں کا اصرار مگر یہ ہے کہ وضاحت کروں۔ وضاحت بس اتنی ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
جہاں تک اس چھچھورے کا تعلق ہے، جو اپنے مفاد اور مالکان کے لیے بروئے کار آتا ہے تو اسے جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ رہے مکرم جاوید ہاشمی تو کبھی وہ عمران خان کو ہیرو کہتے ہیں، کبھی مجرم، کبھی سادہ لوح۔ ٹیلی ویژن پر ایک ہفتے میں، تین بار اپنا موقف انہوں نے بدلا۔ جیسا کہ چھچھورے نے لکھا ہے: ایک پیغام میں مجھ سے ہاشمی نے کہا کہ الیکشن کے قضیے میں جنرل کیانی کا میں نے کبھی نام تک نہیں لیا۔ جنابِ والا نے مجھے اختراع اور الزام تراشی ہی نہیں بلکہ اپنی عظیم الشان کامیابیوں پر حسد کا مرتکب بھی ٹھہرایا۔ عالی جناب کے جس بیان پر ناچیز نے تبصرہ کیا تھا، وہ روزنامہ ڈان اسلام آباد، 24 جولائی میں چھپا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: "Veteran politician Javed Hashmi has alleged that some generals, including former army chief Gen Ashfaq Pervez Kiyani and Inter Services Intelligence ex-head Gen Shuja Pasha used Pakistan Tehreek-i-Insaf Chairman Imran Khan for their vested interests, demanding
court martial of these army officers."
جہاں تک جنرل پاشا کا تعلق ہے، یہ ثابت ہو چکا کہ عمران خان کے وہ ہمدرد تھے۔ سادہ لوح آدمی اس بات کو چھپاتا نہیں تھا۔ 2013ء کے اوائل میں جب صدر زرداری نے ان سے پوچھا کہ خود وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ جنرل نے فوراً کہا ''عمران خان کو‘‘۔ ہمایوں اختر کو انہوں نے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مشورہ رواروی میں دیا گیا‘ اس لئے کہ ہمایوں اختر تو رائے ونڈ گئے اور نواز شریف سے معاہدہ کیا۔ یہ الگ بات کہ اس پر عمل درآمد کی نوبت کبھی نہ آئی۔ ہمایوں اختر کو ان کے دوست غالبؔ کا یہ شعر سناتے رہے۔ ؎
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
میاں صاحب کا حوصلہ یہ ہے کہ طاقتور ہوں تو متکبر اور مجبور ہوں تو حسنِ اخلاق کا نمونہ۔ دو برس کے بعد ہمایوں اختر کا دروازہ انہوں نے کھٹکھٹایا اور ان کے چھوٹے بھائی ہارون اختر کو اپنا مشیر مقرر کیا۔
جنرل پاشا کی بات دوسری ہے، جنرل کیانی کبھی فریق نہ تھے۔ یہ ان کے مزاج اور مرتبے سے فرو تر تھا۔ جنرل پاشا کو سیاست نہیں، دہشت گردی پر بات کرنے کے لیے بنی گالا بھیجا گیا تھا۔ دولت اور طاقت کو اہمیت دینے والا آدمی عمران خان سے مسحور ہو گیا۔ اس نے یہ کہا: میرا جی چاہتا ہے کہ سبکدوشی کے بعد تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائوں۔ عمران نے مجھ سے ذکر کیا تو جنرل پاشا کی تحسین اور جنرل کیانی پہ تنقید کی۔ اس وقت ہم گوجرانوالہ سے راولپنڈی کے لیے عازمِ سفر تھے۔ میں نے کہا: اللہ کے بندے‘ فیصلہ شجاع پاشا نہیں بلکہ جنرل کیانی کو کرنا ہے اور وہ غیر جانبداری کا عزم رکھتے ہیں۔ ان سے یہ درخواست کی گئی اور انہوں نے اثبات میں سر ہلایا کہ ہر ایک کو برابر کے مواقع ملنے چاہئیں۔ پہلی بار پوری ذمہ داری کے ساتھ میں یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ کراچی اور لاہور میں عمران خان
کے تاریخ ساز جلسے شاید منعقد نہ ہو سکتے، عسکری قیادت نے اگر مداخلت نہ کی ہوتی۔ صوبائی حکومتوں سے اس نے کہا، دوسروں کی طرح تحریک انصاف کو یہ حق حاصل ہے۔ بے چارے جاوید ہاشمی اور اس کی خوشنودی کے طالب چھچھورے کو کیا معلوم کہ اندر خانہ کیا برپا تھا۔ ؎
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے
نفرت اور محبت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ ہیجان اور تعصبات تجزیہ کرنے نہیں دیتے۔ پھر ان لوگوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ابتلا اور آزمائش کا ایک دن بھی یہ آسانی سے گزار نہیں سکتے۔ داد کے طالب، آسانی کے تمنائی، کشکول لیے پھرتے ہیں۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بھی۔ وہ بھی اور ان کے ممدوح بھی۔ کوئی منی لانڈرنگ اور شعبدہ بازی کا مرتکب ہے اور کوئی دسترخوان کا ریزہ چیں ؎
ہوسِ لقمہء تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
اگر کبھی ترازو گڑا‘ اگر اندرون ملک اور بیرونِ ملک بینکوں کے کھاتے اجاگر ہوئے تو خلقِ خدا حیران رہ جائے گی۔
جیسا کہ جاوید ہاشمی نے کہا (اور بعد ازاں مکر گئے) جنرل کیانی اگر عمران خان کے پشت پناہ ہوتے اور آئی ایس آئی کو تائید کا حکم دیتے تو کیا وہ ایسی اور اتنی حماقتوں کا ارتکاب کرتا؟ کیا اس کی سیٹیں 91 سے کم ہو کر 34 رہ جاتیں یا بڑھ کر 150ہوتیں؟ کیا چھچھورا اور اس کا میڈیا گروپ اس طرح ڈٹ کر عمران خان کی مخالفت کرتے؟ عمران خان مقبول تھے، نواز شریف سے زیادہ مقبول۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا: چار بڑی غلطیوں کے وہ مرتکب ہوئے۔ اولاً‘ لگ بھگ ایک پورا سال پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا۔ ثانیاً، ٹکٹیں تاخیر سے دیں۔ ثالثاً، ناموزوں امیدواروں کو۔ رابعاً، پولنگ ایجنٹ مقرر نہ کیے؛ چنانچہ کم از کم ایک تہائی ووٹ ضائع ہو گئے۔ میاں محمد نواز شریف نے چھچھورے اور بہت سے دوسرے اخبار نویسوں کو گانٹھ لیا۔ لاہور میں خواجہ محمد رفیق مرحوم کی برسی میں چھچھورے نے کہا اور اس کے اخبار نے رپورٹ کیا کہ ماروی میمن کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے عمران خان اس کی منت سماجت کرتے رہے۔ واقعہ یہ تھا کہ جس روز سندھ اور پنجاب کی سرحد پر ایک جلسۂ عام منعقد کر کے شاہ محمود تحریکِ انصاف میں شامل ہو رہے تھے، ماروی میمن کپتان کے قافلے میں شریک ہونے پر مصر تھیں۔ شاہ محمود نے انہیں مائیک نہ دیا تو روٹھ کر چلی گئیں۔ بعد ازاں بچوں کی طرح وہ اصرار کرتی رہیں کہ انہیں سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا جائے۔ عمران خان کو اعتراض نہ تھا مگر اسے وہ ایک شرط کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ نواز شریف کو بھنک پڑی تو وہ انہیں اچک لے گئے۔ میرے خیال میں یہ عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ ماروی میمن اور چھچھورے جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت کی ورنہ تحریکِ انصاف کی سیٹیں 24 رہ جاتیں۔
جاوید ہاشمی کا کہنا یہ ہے کہ جنرل کیانی کو انہوں نے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ سامنے کا سوال مگر یہ ہے کہ ڈان میں تین کالمی خبر کی اشاعت کے باوجود انہوں نے تردید کیوں نہ کی؟ اسی پر ناچیز نے لکھا اور وہ بگڑے۔ ممکن ہے، ملتان میں انگریزی اخبار کا رپورٹر ان کی بات سمجھ نہ سکا ہو۔ یہ بات مگر سمجھ میں نہیں آتی کہ وضاحت کرنے سے وہ کیوں گریزاں رہے۔ اخبار پہ کیوں نہ بگڑے۔ تبصرہ کرنے والے سے کیوں نالاں ہوئے۔ پھر وضاحت کے لیے کسی معقول اخبار نویس کی بجائے اس بے چارے کا انتخاب کیوں کیا، جو دن میں تین بار اپنا موقف بدلتا ہے۔ اگرچہ قائم نہیں رہتے مگر عجیب و غریب قسم کے دعوے وہ کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے طلعت حسین کی موجودگی میں یہ کہا: کراچی کے جلسے میں شرکت کے لیے میں پہنچا تو عمران خان نے کہا: کیانی سے بات ہو گئی ہے اور پاشا سے بھی۔ پاشا سے عمران خان کی ایک ملاقات ہوئی تھی اور کیانی سے کبھی نہیں۔ جاوید ہاشمی کہانیاں گھڑنے کے عادی ہیں اور چھچھورا سنانے کا۔ خبر اور دلیل اس کے پاس ہوتی نہیں، بیچارہ اس کے سوا کیا کرے؟ مواقع لامحدود ہیں اور تربیت ناقص۔ بے چارے کو ادراک ہی نہیں کہ آزاد لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔ اپنے وطن سے ہر آزاد آدمی محبت کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرنے والے مجاہدوں سے بھی۔ رہے مارشل لا لگانے والے تو شاید اس نے اور اس کے آبائواجداد نے ان سے فیض پایا ہو، آزاد اخبار نویس ایسوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ جس آدمی نے عمر بھر کسی کے بال پوائنٹ پر قبضہ نہ کیا، اسے زمینوں پہ قبضے کا طعنہ پرویز رشید کا تابعِ مہمل ہی دے سکتا ہے۔ میں یہ عبارت کبھی نہ لکھتا۔ دوستوں کا اصرار مگر یہ ہے کہ وضاحت کروں۔ وضاحت بس اتنی ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے