بھارتی پنجاب کے شہر گورداس پور جیسا واقعہ اسی روز ہمارے صوبہ بلوچستان میں بھی رونماہوا۔وہاں بھی ہلاکتیں یہاں بھی قیمتی جانیں گئیں۔دونوں واقعات میں پولیس کے اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ تھے۔ لیکن ان دونوں واقعات میں سے دو متضاد ردِّ عمل سامنے آئے ہیں۔
آئیے پہلے بھارت کاردِ عمل دیکھ لیں ۔جہاں پر جونہی گورداس پور حملے کی خبر میڈیا نے بریک کی بھارت کے ریاستی وزراء، سیاستدان، نیوزکاسٹراور اینکر پرسن پاکستان پر چڑ ھ دوڑے۔ حملہ جو تقریباََ آدھا دن جاری رہا اس کے ابتدائی منٹوں کے دوران ہی بھارت نے سرکاری طور پر جو مؤقف دنیا کے سامنے رکھا اس کے ضروری نکات یہ ہیں۔1:حملہ آور دو دن پہلے بھارتی پنجاب میں پاکستان سے داخل ہوئے ۔2:حملہ آور حملے والے روز رات کے وقت میں بارڈر کراس کر چکے تھے۔3:حملہ آوروں کے پاس پاکستانی اسلحہ ہے ۔4:حملہ آوروں کو ایمونیشن پاکستان کی پرائم انٹیلی جینس آئی ایس آئی نے فراہم کیا۔5 :پاکستان دہشتگردی میں ملوث ہے۔
یہ سارے الزامات تب لگائے گئے جب تک حملہ آور کسی نے دیکھے ہی نہ تھے۔ نہ ہی بھارتی انتظامیہ یا میڈیا سمیت کسی ادارے کو ان کی تعدادمعلوم تھی۔ نہ ہی حملہ آوروں کے حُلیے شناخت وغیرہ کسی کے علم میں آسکے۔یہ'' الہامی‘‘ الزامات لگانے کے بعد بھارتی حکومت مطمئن نظر آئی۔لیکن جو سوال ہم نے اوپر اٹھائے ہیں ان کے بارے میں پوری دنیا کے میڈیا نے بھارتی حکومت اور قیادت پر سوالات کی ''برکھا‘‘برسا دی۔ پاکستان پر لگائے گئے الزامات کودنیا بھر نے وقت سے پہلے سنائی گئی کچی پکّی کہانی کہہ دیا۔ یوں اس منظم حملے سے بھارت جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ان میں مودی کی''ہندوتوا‘‘ سرکار بُری طرح سے ناکام ہوئی۔
اب آئیے دوسرے ردِ عمل کی طرف جو پاکستان کے حکمرانوں اور وزارتِ خارجہ (اگر کوئی ہے)کی طرف سے متوقع تھا۔
اولاً، بلوچستان کے معاملات میں صوبائی اور مرکزی حکمران کہتے آئے ہیں وہاں بھارت ملوث ہے‘ لیکن بلوچستان پولیس پر ٹارگٹ کلنگ کے انداز میں ہونے والا حملہ بھارت کے پروپیگنڈے کی گرد میں گُم کیسے ہو گیا۔ وزارتِ خارجہ قوم کے سامنے اس مجرمانہ غفلت کے لیے جواب دہ ہے۔
دوسرے،وزارت خارجہ کے منہ میں چپکنے والا چاکلیٹ یا گلے سے نہ اترنے والی گھنگنیاں پڑ گئیں۔ لہذا خرّاٹے مارتی ہوئی وزارتِ خارجہ وزیر اعظم ہاؤس کا طواف کرتی رہ گئی۔ وہ بھی محض خواب میں چلنے کی عادت کو پورا کرنے کے لیے۔
تیسرے،وزیراعظم ہاؤس سے مودی سرکار کے لیے میٹھے آم، لاہوری ساڑھیاں ،امن کی بھاشا ،لازوال محبت کے سندیسے ہی نکلتے رہے ہیں۔وہ سرزمینِ وطن جس کی ساری وراثت پر حکمران اور ان کے بچوںبلکہ رشتے داروں اور نوکروں چاکروں کابھی قبضہ ہے اس کے مفادات کو'' لاوارث‘‘چھوڑ دیا گیا۔اس مرتبہ بھی تین دن کے مراتھن بھارتی پروپیگنڈے کے جواب میں وزیراعظم ہاؤس کے کان کھڑے ہوئے نہ ابّروؤں پرکوئی شکن پڑ سکی۔
کون نہیں جانتا اس وقت بھارت کے اندر خالصتان کی تحریک پھرسے پوری طرح سرگرم ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیئے صرف دو مقدمات کی طرف اشارہ کافی ر ہے گا۔ پہلا واقعہ بھارتی پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کے قتل کا ہے۔ جسے خالصتان کے آزادی پسند جوانوں نے ان کے دفترکے اندر ہلاک کر دیا۔ اس قتل کے بڑے ملزم کا نام بے انت سنگھ ہے۔ اسی نام کے ایک اور سِکھ جوان نے دربار صاحب امرتسراور گولڈن ٹمپل پر حملے کے بعد بھارتی وز یراعظم اندرا گاندھی کو راج بھوّن میں قتل کیا ۔سِکھ وزیرِاعلیٰ کے قاتل کو تمام عدالتیں سزا دے چکی ہیں۔بھارت میں کئی بار اس ملزم کی پھانسی کی تاریخ کا علان ہوا۔ ہر مرتبہ سِکھ پوری شدّت سے اُٹھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے خالصتان کے''ہیرو‘‘ کو ابھی تک تختہِ دار تک لے جا یانہیںجا سکا۔ساتھ ساتھ بھارت نے اِنڈین پارلیمنٹ پر مبینہ حملے کے ملزم افضل گُرو کو پھانسی دے دی۔ اوریعقوب میمن کی پھانسی تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔
بھارت کے لیے اس سے بھی بڑی پریشانی عالمی سطح پر پیدا ہوئی ہے۔ وہ پریشانی 16ہزار با رسوخ سِکھوں پر مشتمل خالصتان کی جِلاوطن حکومت ہے جو کینیڈا میں قائم کی گئی ۔اس جِلاوطن حکومت نے خالصتان کی تحریک میں دوبارہ روح پھونک ڈالی ۔ دربار صاحب پر بھارتی فوجی بوٹوں سمیت چڑھ دوڑے تھے۔ٹینکوں سے گولڈ ٹمپل کو تاراج کیا گیا۔ دربار صاحب میں واقع ''کوٹھہ صاحب‘‘ کونذرِآتش کیا گیا۔اس کے بعد بھارتی پنجاب میںٹارگِٹ کِلنگ کی ایسی مہم چلائی گئی جس میں سِکھ لڑکے لڑکیاں ہزاروں کی تعداد سے زیادہ گھروں، ہوسٹلوں اور کالجوں سے نکال کر ما ورائے عدالت مارے گئے ۔یہ خوں آشام زخم ایسے نہیں جو آسانی سے بھر سکیں۔ سِکھوںنے 1947ء میں ماسٹر تارا سنگھ کی قیادت میں کانگریس کا ساتھ دینے کی جو غلطی کی تھی اس کا تاوان آنسوئوں اور خون کی ندیوں کی صورت میں سکھ قوم آج تک ادا کر رہی ہے۔
لیکن یہ سب کچھ پاکستان کی طرف سے کون کہے ؟ بطورِوکیل میں سُنی سُنائی پر یقین نہیں کرتا۔ فرض کر لیں حکمرانوں کے پاس بھارت میں جنگلے اور سریے کا کوئی کاروبار نہیں ۔یہ بھی مان لیا جائے ''تاجر حکمران ‘‘کی تجارت کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں۔تو پھر جو ہر سال شہید قائدِعوام ذوالفقار علی بھٹو کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ لینے کے لیے 28 مئی کو چاغی پہاڑ کو سامنے رکھ کر دلیری کی بڑھک مارتے ہیں۔ وہ مودی جیسے انسان دشمن حکمران کے سامنے بھیگی بِلّی کیوں بن جاتے ہیں۔
پاکستانی قوم کو نہ جنگی جنون ہے نہ ہی ہم جنگ کے بخار میں مبتلا ہیں۔بلکہ ہم تو خود جنگ زدہ ہیں۔لیکن ایک چیز ساری دنیا کی مہذہب قوموں میں تسلیم شدہ ہے عدالت سے لے کر میدان ِ جنگ تک۔ وہ ہے حقِ دفاع یعنی (Right of Rebuttal)۔ ہماری خارجی وزارت کے تین عدد بزرگ پاکستان کو بار بار اس قانونی اور بین الاقوامی حق سے کیوں محروم کرتے ہیں۔
پاکستان کبھی پلاٹستان کہلاتا تھا ۔ہمارے دستکار اور مزدور شاعر استاد دامن نے یہ پُر مغز لائن کہی تھی۔
پاکستان اِچ موجاں ہی موجاں۔۔۔جِدھر ویکھو ،فوجاں ہی فوجاں
پاکستان کی زمینوں پر انگریز کے کتے نہلانے والے لینڈ لارڈز بنے۔پھرہاری خور فیوڈل لارڈز کا زمانہ آیا۔ دیہاتی وڈیرے اور جاگیر دارا بھی تک موجود ہیں۔یہ سب آج کل اس قابل ہیں کہ ان کو چندہ دینے کو دل چاہتا ہے۔کیونکہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ لینڈ مافیا غریبوں سے جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔
اس جمہوری دور میں مزید ترقی یہ ہوئی کہ پاکستان دفاع کے حق سے محروم ہو گیا۔انڈیا کا وزیر دفاع روز جنگ کی دھمکی دیتا ہے ۔اس کے جواب میں ہمارا پارٹ ٹائم دفاع کا انچارج وزیر،آئی ایس آئی اور جرنیلوں کے خلاف تقریریں کرنا پسند کرتاہے۔یہ حسنِ'' اتفاق‘‘ ہے یا حسن ''انتظام‘‘کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے وزیر دفاع کے زبانی حملوں کا ہدف پاکستان کے دفاعی ادارے ہی ہیں۔
خالصتان اب ہر اعتبار سے بھارت کے لیے خالص مسئلہ بن چکا ۔ جس پر خالصہ مر تو سکتا ہے بھاگ نہیں سکتا۔ویسے بھی کشمیر کی طرح خالصتان زندہ حقیقت ہے اور آزادی دونوں پڑوسی خطّوں کا مسقتبل بلکہ تقدیر بھی۔
ہوئی شکست نہ ہو گی، کبھی اُصولوں کو
بقاء ملی ہے سدا، امن کے رسولوں کو