ہر سال کی طرح برسات کے شروع ہوتے ہی سیلاب کی تباہ کاریاں ملک کے طول و عرض میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے بدحال عوام کو برباد کر رہی ہیں۔بربادی اس سماج کا معمول بن چکی ہے۔ میڈیا پر حقیقی ایشوز کی معمولی سی جھلک ماضی میں کبھی نظر آ جاتی تھی۔ آج نان ایشوز کی یلغار ہی ہے جس میں بھوک سے بلکتی، سیلاب میں بہتی، لا علاجی سے تڑپتی مخلوق کو زندہ درگور کیا جارہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے گرد اگلے کئی دنوں یا ہفتوں تک سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر کسی اور 'کمیشن‘ کی کوئی اور رپورٹ آ جائے گی یا پھر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ، روزانہ کی بنیاد پر جاری معاشی قتل عام کو چھپانے اور عوام پر خوف کا تسلط قائم رکھنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے حکومت کے مستحکم ہونے کا تاثر بھی پیدا کیا جا رہا ہے لیکن یہ اقتدار جس ریاست اور نظام کی بنیادوں پر قائم ہے وہ کھوکھلی ہو کر لڑکھڑا رہی ہیں۔
آج اگر سطح پر نظر دوڑائی جائی تو واضح ہے کہ ملک میں محنت کش طبقے کی کوئی بڑی تحریک موجود نہیں ۔ بڑے بڑے اداروں پرنجکاری کے بد ترین وار بھی محنت کش طبقے کی کسی ملک گیر تحریک کو جنم نہیں دے سکے۔ اسی طرح انتہائی کم اجرت اور بد ترین حالات میں مہنگائی کے بوجھ تلے کام کرنے کے باوجود محنت کش کسی وسیع تحریک میں نہیں ابھر رہے۔ طلبہ تحریک کی پاکستان میں عظیم روایات ہیں لیکن آج فیسوں میں کئی گنا اضافے ، تعلیمی اداروں کی لوٹ سیل طرز پر نجکاری، بد ترین بیروزگاری اور طلبہ یونین پر پابندی کے باوجود کوئی تحریک موجود نہیں ۔ اسی طرح کسانوں پر بد ترین حملوں کے باوجود بکھری ہوئی چند تحریکیں تو موجود ہیں لیکن ایک مربوط ملک گیر تحریک سطح پر نظر نہیں آ رہی۔مختلف قوم پرست جماعتوں کی غداریوں کے بعد قومی آزادی کی تحریکیں بھی پسپائی کا شکار نظر آتی ہیں۔
محنت کشوں کو مسلسل یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود یہ شعبدہ باز ان کے نمائندے ہیں جنہیں انہوں نے خود' منتخب‘کیا ہے۔ اس تماشے کے موازنے میں پھر آمریت کو اکسیر کے طور پر پیش کرنے والے حکیم نما دانشوروں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے دانشور اپنے معاوضے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے ریاستی آقائوں کو فرشتوں سے بھی نیک سیرت ثابت کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔
اس وقت یہ ملک اور یہ پوری دنیا ایک اہم ترین تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔پوری دنیا میں ایک عہد ختم ہوچکا ہے اور ایک نیا عہد انگڑائی لے کر بیدار ہو چکا ہے جس کے اثرات واضح طور پر پاکستان میں بھی موجود ہیں۔سوویت یونین کے انہدام کا عہد،چین کے سرمایہ داری کی جانب سفر کا عہد، امریکی سامراج کی عراق، افغانستان سمیت پوری دنیا میں غنڈہ گردی کا عہد، عالمی معیشت کی مصنوعی ترقی کا عہد، امریکہ کی سعودی عرب سے دوستی اور ایران سے دشمنی کا عہد اب ماضی بن چکا ہے۔ موجودہ عہد عالمی معیشت کے بد ترین زوال اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی تحریکوں اور بہت بڑی تبدیلیوں کا عہد ہے۔2008ء میں جس عالمی معیشت کے بحران کا آغاز ہوا تھا آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع ہو چکا ہے۔2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلاب نے جن ریاستوں کی بنیادوں کو ہلایا وہ آج بھی کانپتے ہوئے ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں۔عراق، لیبیا، شام، یمن کی ریاستوں کے انہدام کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی دیگر ریاستیں بھی شدید تضادات کا شکار ہیں جو تیزی سے پھٹنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عرب کے شاہی خاندان کے داخلی تضادات سے لے کر اس کے ایرانی ملاؤں سے سامراجی تضادات اور اسرائیلی حکمرانوں سے محبت بہت جلد مزید ہولناک شکلیں اختیار کرے گی۔ چین میں محنت کش طبقہ انگڑائی لے رہاہے اور چین کی معاشی ترقی کا 'معجزہ‘ اب اپنے معکوس میں بدل چکا ہے۔یورپ میں یوکرائن کی ریاست کے انہدام کے بعد یونان کی یورو سے علیحدگی کا سفر پورے براعظم میں ہیجان برپا کر رہا ہے۔اس تمام تر صورتحال میں اہم سیاسی تبدیلیاں بھی اپنا اظہار کر رہی ہیں جس میں پرانی روایتیں دم توڑ رہی ہیں اور نومولود پارٹیاں وسیع تر عوامی حمایت لے کر حکومتیں بنا رہی ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان خطے اور پوری دنیا میں ہونے والے تبدیلیوں سے مبرا نہیں۔سطح پر نظر آنے والا سکوت ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے ۔ لیکن اس دوران پورے سماج میں بہت اہم بنیادی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جن کا اظہار صرف ایک تحریک کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے۔ اس تبدیلی میں ایک اہم عنصر تمام تر پرانی مروجہ سیاست کی متروکیت ہے۔سطح پر منڈلانے والی تمام تر سیاسی جماعتوںاور ان کی قیادتوں کو عوام رد کر چکے ہیں اور کسی بھی حوالے سے ان سے کوئی امید وابستہ نہیں رہی۔ انتہائی دائیں بازو کی ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی
جماعتوں سے لے کر پیپلز پارٹی، اے این پی اور لبرل قوم پرست جماعتوں تک، سب کے نیچے سے ان کی حمایت تیزی سے سرکتی جا رہی ہے۔ ضیاالحق کے تاریک عہد میں جب پورا سماج رجعت کی لپیٹ میں تھا اس وقت درمیانے طبقے کی بہت سی پسماندہ پرتوں نے ایم کیوایم سمیت مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کی تھی۔اسی حمایت کی بنیاد پر ان جماعتوں کو مختلف علاقوں میں ریاستی آشیر باد کے ساتھ غنڈہ گردی کی کھلی اجازت دی گئی، لیکن آج ان جماعتوں کا جو حال ہو رہا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ درمیانے طبقے کی ان پسماندہ پرتوں نے بھی ان جماعتوں کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جس کے باعث ان کی قیادتیں فٹ بال کی طرح ایک انتہا سے دوسری تک لڑھک رہی ہیں۔یہی حال فرقہ پرور دہشت گرد تنظیموں کا ہے۔ ریاستی پشت پناہی سے چلنے والی ان جماعتوں کی بد ترین غنڈہ گردی اور قتل و غارت کے باوجود سماج کی پسماندہ ترین پرتوں میں بھی فرقہ وارانہ تعصب کو وہ بنیادیں نہیں مل سکیں جو ماضی میں ملتی رہی ہیں۔ریاست کے مختلف دھڑے اس تعصب کو پوری شدت سے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پسماندہ پرتوں میں بھی انہیں زرخیز زمین اور وسیع حمایت نہیں مل رہی۔انہی فرقہ وارانہ، نسلی، لسانی اور دیگر تعصبات کے ذریعے ہی ریاست اور حکمران طبقات محنت کش طبقے کی جڑت کو کاٹتے ہیں اور ان کی تحریکوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
ایسے میں محنت کش طبقہ ریاست کے حملوں کے خلاف جن جماعتوں کو ذریعہ اظہار بناتا تھا وہ بھی بد عنوانی اور سامراجی گماشتگی کی اندھی کھائی میں غرق ہو چکی ہیں۔پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں محنت کش طبقے پر جو بد ترین حملے کیے وہ محنت کش طبقے کے شعور کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھے۔اسی کے ساتھ سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا جس کی قیمت تھرپارکر میں بھوک سے مرنے والے بچوں اور کراچی میں گرمی اور پیاس سے مرنے والے سینکڑوں محنت کشوں نے چکائی ہے۔اپنے جنم پر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پارٹی نے اپنے قریباً نصف صدی کے سفر میں عوام کو باقی سب کچھ بھلا کرپانی کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔اس ملک کے بد نصیب محنت کش عوام اتنی قربانیاں دینے اور کٹھن جدوجہد کے بعد اب 1967ء سے بھی پیچھے کھڑے ہیںجب تاسیسی دستاویزات لکھتے وقت کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ پانی جیسی ہر وقت دستیاب شے کے لیے بھی نعرہ لگ سکتا ہے۔سندھ میں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری نے رہے سہے خستہ حال ڈھانچے کے بھی خاتمے کا عندیہ دے دیا ہے۔ مزدوروں کے حقوق کی علمبرداری کا دعویٰ کرنے والے اس پارٹی کے ''زیرک اکابر‘‘ سینیٹ کی چیئرمینی اور دیگر عہدوں کے عوض اپنی تمام تر غیرت اور حمیت کاسودا پہلے ہی کر چکے ہیں ؎
آندھی میں بھی نہ جن کا نشانِ انا گرے
بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ جا گرے
محنت کش طبقے سے توقع کرنا کہ وہ ان بد عنوان لٹیروں کی حمایت میں دوبارہ باہر نکلیں گے یا اپنے مسائل کے حل کے لیے وہ ان سے کوئی امید رکھتے ہیں، بیوقوفی ہو گی۔زرداری نے 'اداروں‘ کے ساتھ کاروباری تنازعات کے باعث جوش خطابت دکھانے کی کوشش کی جسے میڈیا نے اپنی دکانداری کے لیے خوب اچھالا لیکن حقیقت یہ ہے کہ محنت کش اس تمام تر زردسیاسی افق سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کے لیے یہ تمام تر تنازعات غیر اہم ہیں۔(جاری)