دائو ہی ایسا تھا جس سے محسوس ہوا کہ پاکستان اس بار چانکیہ کے چیلوں کی سازش کا شکار ہو جائے گا لیکن عوامی جمہوریہ چین نے آگے بڑھ کر بھارتی تارپیڈو کے نشانے پر آئی ہوئی پاکستانی کشتی کو بچا کر کنارے پر لگا دیا۔ اقوام متحدہ میں دہشت گردی کے جرم میں پابندیاں نافذ کرنے والی کمیٹی سے پاکستان کے خلاف بھارتی قرار داد کو چین نے بھی ویٹو کیا ہی تھا کہ بی بی سی لندن سے آنے والی ایک رپورٹ دہشت گردی میں لپٹا ہوا بھارت کا اپنا ہی چہرہ ننگا ہو کر سامنے آ گیا اور پھر یکے بعد دیگرے پاکستان کے ہر دشمن اور بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں کے سابق اور مو جودہ سربراہوں نے بڑے فخر سے اپنی کتابوں، انٹریوز اور تقریروں میں اعتراف کر لیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے، فرقہ واریت کو بڑھانے اور اس کے مختلف علاقوں میںبم دھماکوں کیلئے پاکستان کی مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ اور یہ مدد اس کے علا وہ ہے جو ایک مرحوم بھارتی وزیر اعظم خود پاکستان کی ایک سیا سی جماعت کو، جو کالا باغ ڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دینے میں مشہور ہے‘ کے حجرہ میں ایک بڑی تھیلی کی صورت میں دان کر گئے تھے۔ یہ سب کچھ درون خانہ نہیں ہوا بلکہ اس کے براہ راست منا ظر ٹیلی ویژن کے کیمروں اور اخبارات کے صفحات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ چھبیس گیارہ کے ممبئی حملہ کیس میں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر ملوث کئے گئے ذکی الرحمان لکھوی کی راولپنڈی کی عدالت سے جونہی ضمانت منظور ہو ئی تو امریکہ اور بھارت نے ایک طوفان کھڑا کر دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عدالتوں نے مسلمانوں کا خون پینے والے نہ جانے کتنے ہی خون آشام درندوں کو بری کر رکھا ہے۔ امریکہ اور بھارت نے ان کی بریت کے خلاف احتجاجی آواز بلند کیوں نہیںکی ؟ ان بری ہونے والوں میں سینکڑوں جانیں لینے والے کرنل پروہت، میجر رمیش اور سادھوی پرگیا جیسے بد نام زمانہ دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ کیا بھارت کو اپنی مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے یہ دو درجن سے زائد دہشت گرد آزادی سے گھومتے ہوئے نظر نہیں آتے؟ جب ذکی الرحمان لکھوی کی رہائی پر بھارتی حکومت اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف اقدام کرنے گئی تو نریندر مودی کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی Sanctions Committee میں 2008ء کے ممبئی حملوں کے '' مرکزی کردار‘‘ ذکی الرحمان لکھوی کی پاکستانی عدالتوں سے رہائی پر پاکستان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے گی۔ لیکن چین کے ایک ہی وار نے اس کے اوسان خطا کر دیے اور ابھی وہ اس حملے سے اچھی طرح سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ بی بی سی لندن اور بھارت کی ہی طاقت ور ترین خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہ خود ہی بھارتی حکومت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر سامنے آگئے اور انہوں نے ٹی وی کے کیمروں اور میڈیا کے صفحات پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھانے جنم دینے دہشت گردوں کی مالی اور سیاسی طور پر مدد کرنے کی فرد جرم بڑی ڈھٹائی اور فخر سے قبول کر لی۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی میں ناکامی کے بعد را کے سابق چیف امر جیت سنگھ دلت نے تو بھارت کی لنکا ہی ڈھا دی۔ اس طرح پاکستان کے خلاف جال بچھانے والے خود ہی اپنے دام میں آ چکے ہیں اور اس کاگواہ بھی کوئی پاکستانی نہیں بلکہ ایک طرف برطانوی حکومت کا معتبر ادارہ بی بی سی تو دوسری جانب بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا سابق کرتا دھرتا اجیت دلت خود ہے۔ پاکستان کے حساس اداروں نے فیصلہ کیا کہ یہ تمام ثبوت اکٹھے کر کے اب وہ خود بھارت کے خلاف اقوام متحدہ جائیں گے تاکہ بھارت کو ایک دہشت گرد ریا ست قرار دے کر اس پر عالمی قانون اور ضابطوں کے مطابق پابندیاں عائد کرائی جا سکیں۔ جیسے ہی مودی سرکار کو اس کی اطلاع ملی کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو عسکری حکام نے فوری طور پر پاکستان پہنچنے کا پیغام بھیج دیا ہے تاکہ بی بی سی اور دلت کی کتاب سے حاصل
ہونے والے تمام حقائق اور دستاویزی ثبوتوں کو قانونی اور سفارتی ماہرین کی نگرانی میں تیار کر کے بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں قرار داد جمع کرائی جائے تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس کے مشیروں نے اسے بتا دیا کہ اگر بھارت کی طرح یہ قرار داد پاکستان سلامتی کونسل کی سینکشنز کمیٹی میں لے کر جاتا ہے تو یقینا روس بھارت کی مدد کیلئے ووٹ کا حق استعمال کرے گا لیکن اس دفعہ روس کی جانب سے بھارت کے حق میں ویٹو کا استعمال اسے بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ اس کے بدلے روس بھارت سے بہت کچھ حاصل کرے گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو شاید کل کو پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے کسی مسئلے پر اسے ویٹو کی رعایت نہ مل سکے۔ لیکن بھارت کو روس کو سامنے لانے کی ضرورت ہی نہ پڑی اور اپنوں نے ہی پاکستان کی پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپا کہ ملیحہ لودھی جس طرح آئی تھیں اسی طرح واپس لو ٹ گئیں‘ کیونکہ سلامتی کونسل میں بھارت کو دہشت گرد ریا ست قرار دلانے کی قرار داد پیش کرنے کے بجائے آموں کے ٹوکرے نریندر مودی کو بھیجتے ہوئے پاکستانیوںکے ساتھ ایک بار پھر تاشقند کر دیا گیا اور بھارت سے حساب برابر کرنے کا سوچنے والی قوتوں کے تمام خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔
روس کے شہر اوفا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے باادب کھڑے ہو نے والے حکمران بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت کہاں سے لاتے؟۔ پاکستان کے عوام اپنے وزیر اعظم کی روس سے واپسی پر اسی طرح دکھی اور غمگین تھی جس طرح آج سے پچاس سال قبل روس کے شہر تاشقند سے واپسی پر تھے۔ نریندر مودی اس وقت حالات کے جبر اور بھارت کے ہی دفاعی اداروں کے سربراہوں کے منہ سے نکلے ہوئے حقائق کے گھیرے میں آ چکا ہے اور قدرت کی جانب سے پاکستان کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ ''بھارت کی کہانی بھارت کی زبانی‘‘ کا ایک ایک لفظ اور ورق سنا کر اپنے دشمن کے چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے رکھ دے؟ لیکن... چانکیہ بہت چالاک نکلا اور اس نے اسی فولادی قوت کو آگے کر دیا جس سے ملنے کیلئے ہمارے لیڈر بے تاب رہتے ہیں، کیونکہ بھارت کو ادھر ادھر سے خبریں مل چکی تھیں اس دفعہ گردن بری طرح پھنس چکی ہے اوروہ وار جو ذکی الرحمان لکھوی کی صورت میں پاکستان کی گردن پر کیا جانے والا تھا اب بی بی سی کی فلم اور اجیت سنگھ دلت کی زبان اور تحریر کی صورت میں چمکنے والی تلوار کے دستے کی طرح پاکستان کے ہاتھوں میں آ چکا ہے لیکن وائے قسمت کہ لوہے کو لوہے نے کاٹ کر رکھ دیا... اس بار تو بھارت کو اس کے چاہنے والوں نے بچا لیا ہے لیکن بھارتی قیادت کو انگریزی کا یہ فقرہ ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا... Pitfalls of throwing stones from Glass House''... اور ممکن ہے دوبارہ کوئی فولادی قوت اس کی مدد کو نہ آ سکے اور صبر اپنا راستہ خود نکال لے۔